ہمارے نفسیاتی عارضے


چند ماہ قبل ہم نے اپنی ایک نفسیاتی بیماری کا تعارف کرایا تھا ۔ برطانیہ کی نیوکیسل یونیورسٹی کے سیانوں نے انسان میں پائے جانے والے اس عارضے کا کھوج لگاکر اسے طشت ازبام کیا تو ہمیں لگا کہ یہ مرض تو کب کا ہمارے اندر بکل مارے بیٹھا ہے ۔

یہ نامراد مسوفونیا نامی ذہنی عارضہ ہے ، جس کا شکار مخصوص آوازوں سے تکلیف محسوس کرتا ہے اور اسے ان سے نفرت ہو جاتی ہے ۔ اپنی گناہگار ذات کے بارے میں عرض کیا گیا کہ مسوفونیا کا مریض ہونے کے ناتے ہمیں بہت سی آوازوں سے چڑ ہے ۔جب کوئی پریشر ہارن یا لائوڈ سپیکر کے شور سے دوسروں کا جینا حرام کرتا ہے ، بس ڈرائیور مسافروں کو بالجبر کوئی بے سرا گانا سنواتا ہے ،کوئی رانگ سائیڈ سے موٹر سائیکل زن سے نکالتا ہے، کوئی شادی بیاہ کے موقع پر رات بھر پٹاخوں اور بلند میوزک سے دوسروں کو اذیت میں مبتلا رکھتا ہے ، پیشہ ور بھکاری گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹاتا ہے ، کوئی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی کھوکھلی بڑھک مارتا ہے ، کوئی کسی کو کافر ،غدار یا توہین کا مرتکب قرار دیتا ہے ۔ کوئی دہشت گردوں کے حق میں تاویلیں گھڑتا ہے ، بم دھماکوں اور گولیاں چلنے کی ہیبت ناک آوازیں آتی ہیں یا کوئی ہوائی تبدیلی یا نیا پاکستان بنانے کی جگالی کرتا ہے تو مسوفونیا کا مرض ہمارے اندر پوری شدت سے عود آتا ہے ۔ البتہ ہمارے مرض میں کچھ آوازوں کو استثنیٰ بھی حاصل ہے ۔ جب چڑیاں چہچاتی ہیں ،فاختہ گیت چھیڑتی ہے ،کوئل نغمہ سرا ہوتی ہے ، عندلیب قصیدہ خواں ہوتا ہے ، بچہ کھلکھلاتا ہے ، کچی مٹی پر رم جھم بارش سے جلترنگ بجتی ہے ، بہتا چشمہ ظلمت شب کو اپنا نغمہ سناتا ہے ، سارنگی یا بانسری کے سینے سے دلگداز سُر نکلتے ہیں ،کوئی سحر انگیز صدا طبلے اور ہارمونیم کی لَے کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہے یا کیف آفریں شاعری دلوں کے تار چھیڑتی ہے تو ہمیں مسوفونیا کا گماں تک نہیں گزرتا۔ ہاں ، اگر آپ کو زندگی کی حرارت سے بھرپور ایسی صدائوں سے چڑ ہے تو مبارک باشد کہ آپ کو بالکل بھی مسوفونیا کا مرض لاحق نہیں ہے ۔ یہ اس سے بھی بڑھ کر کوئی خطرناک بیماری ہے ، جس کا شاید ابھی تک علاج دریافت نہیں ہو سکا۔

آج ہم اپنے کچھ دوسرے نفسیاتی عوارض پر بات کریں گے ۔ نفسیات دان کہتے ہیں کہ شیزوفرینیا ایسا ذہنی خلل ہے ، جو مریض کی سوچ اور اعمال پر بری طرح اثر انداز ہوتا ہے ۔ شیزوفرینیا کے مریض کے دماغ میں کیمیائی عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے ، جس کی وجہ سے اس کا دماغ درست طو رپر کام نہیں کر پاتا۔ ایسا مریض مسلسل فریب کا شکار رہتا ہے ۔ وہ اپنے دماغ میں التباسات کی ایسی دنیا سجا لیتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مرض کی علامات میں کسی ایسی شے کو دیکھنا یا سننا جس کا دراصل وجود نہ ہو ، مستقل احساس کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے ، معاشرے سے کٹے رہنا ،اپنوں سے ناراض ہو جانا یا ان سے خوفزدہ رہنا ، بولنے اور لکھنے کا مخصوص اور نامعقول انداز اور عقیدہ پرستی کی انتہائوں کا چھونا شامل ہیں ۔ علم نفسیات کہتا ہے کہ شیزوفرینیا کا شکار اپنی باتوں کو بار بار دہراتا ہے اور کسی معقول وجہ کے بغیر غصے میں آ جاتا ہے ۔ علم نفسیات میں اس طرح کے ایک اور ذہنی عارضے کا ذکر بھی ملتا ہے ، جو شدت اور اثرات میں شیزوفرینیا سے کہیں بڑھ کر ظالم ہے ۔ اسے ”ہائیپو کانڈریا‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اس مرض میں انسان اپنے بارے میں دماغ میں ایک غیر حقیقی دنیاآباد کر لیتا ہے اور اسے ایمان کی حد تک حقیقی سمجھ بیٹھتا ہے ۔ دنیا کے زیادہ تر جعلی نبی ، جعلی ولی اور جعلی دانشور اسی مرض کا شکار ہوتے ہیں ۔ استاد

کہتے ہیں کہ بد قسمتی سے شیزوفرینیا کے مریض ہائپو کانڈریا کے مریضوں کو اصلی سمجھ کر ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور اپنی تباہی کا ساماں خود اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں ۔ ہائپو کانڈریا کی ایک مثال سرگودھا کا جعلی پیر سائیں عبدالوحید ہے ، جس نے شیزوفرینیا کے بیس مریضوں کی جان لے لی ۔

ہمارے ایک گزشتہ کالم ، جس میں دیگچیوں سے بم برآمد نہ کرنے کی اپیل کی گئی تھی ، کا منہ توڑ جواب آیا ہے تو بے ساختہ ان نفسیاتی امراض کی طرف دھیان چلا گیا ۔ نامور محقق اور تاریخ دان بزرگ نے حسب روایت دلیل کی بجائے جذبات اور طعن و تشنیع کا سہارا لیا ہے ۔ ہم ایسے کج فہموں کو تشکیک زدہ صاحبان قلم ، دنیاوی علوم سے تشکیک کے جراثیم پالنے والے ، روحانی بیمار ، حتیٰ کہ زندگی بعدالموت پر ڈانواں ڈول رہنے والے تک کا فتویٰ صادر فرمایا گیا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں یہ باتیں کسی پیر فقیر نے خواب میں آ کر بتائی ہوں کیونکہ آپ کی تحقیقی معلومات کا بڑا سورس یہی ہے ، چاہے وہ روحانیت کا باب ہو یا تاریخ کی تدوین ۔ البتہ اتنی رعایت ضرور فرمائی گئی ہے کہ ہم ایسے ادنیٰ جونیئر لکھاریوں کو ڈاکٹر مبارک علی کی صف میں لا کر متعصب اور بھارتی ایجنٹ قرار نہیں دیا گیا ، ورنہ یہ تو ان کی بے کراں تحقیق کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا کہ وہ دیگچیوں سے بم برآمد نہ کرنے کی اپیل کو کانگریس اور متعصب ہندوئوں سے مستعار لیے گئے خیالات سے تعبیر کر ڈالتے ۔ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ آپ کے تازہ رشحات قلم سے ہمارے ایک اور نفسیاتی عارضے کی تشخیص ہو گئی ہے ۔ ”تشکیک زدہ صاحبانِ قلم ، دنیاوی علوم سے تشکیک کے جراثیم پانے والے اور روحانی بیمار ‘‘ جیسے تحقیقی طعنوں سے ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ ہمارے دماغ میں شیزوفرینیا اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہے ، جس نے تشکیک اور التباسات کی دنیا سجا رکھی ہے۔

اب جب کہ ہمارا پردہ فاش ہو ہی گیا ہے تو پھر آپ سے کیا چھپانا کہ یہا ں ہمارے ایسے کئی قلم کاروں کو شیزوفرینیا کا عارضہ لاحق ہے ، جنہوں نے ہائیپو کانڈریا کے مریضوں کی اقتدا میں تشکیک کے جراثیموں کی فیکٹریاں لگا رکھی ہیں ۔ ہمارے دماغوں میں کیمیائی عدم توازن پیدا ہو چکا ہے اور ہم اس ملک کے شہریوں کو اپنی اپنی التباسات اور فریب کی دنیائوں میں بسانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔ ہم اس آس پر اپنی دیمک زدہ باتوں کو دہرائے جا رہے ہیں کہ ایک دن روشن مستقبل کا سورج اسی دریچے سے پھوٹے گا۔اکیسویں صدی میں اغیار چاہے اگلی دنیائوں کو فتح کرنے کے سفر پر ہوں مگر ہم نے جدید علوم ، سائنس و ٹیکنالوجی اور تہذیب کی حقیقی دنیا کے مقابلے میں سائیں عبدالوحیدوں کی جعلی روحانیت ، انتہاء پسندی اور عقیدہ پرستی کی غیر حقیقی دنیا کا سکہ جما کر ہی چھوڑنا ہے ۔ ہم اپنے شیزوفرینیا کے مرض کے تحت ایک غیر حقیقی دنیا کی قیادت بھی کر رہے ہیں اور مستقل اس خدشے میں بھی مبتلا ہیں کہ کوئی دن رات ہمارے خلاف سازشوں کے جال بچھا رہا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے سوچنے ، بولنے اور لکھنے کے مخصوص اور ”معقول ‘‘انداز کو عوامی پذیرائی حاصل ہے اور حقائق سے انکار کے مرض کی ریٹنگ روز بروز ترقی کی منازل طے کر رہی ہے ۔ اگر حالات ”سازگار‘‘ رہے اور خدا نے ہمیں صحت کاملہ عطا نہ فرمائی تو وہ دن دور نہیں جب زمینی حقائق سے سینکڑوں نوری سال دور ایک مکمل شیزوفرینیا زدہ معاشرہ وجود میں آ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).