حماس 1967 کی حدود پر راضی، اخوان المسلمون سے اظہار لاتعلقی


فلسطینیوں کی مشہور تحریک حماس کے بارے میں ایک عرصے سے کہا جا رہا تھا کہ وہ اپنے سنہ 1988 کے منشور میں تبدیلیاں کرنے جا رہی ہے، تاہم ’حركة المقاومة الاسلامیة‘ کے نام سے شروع کی جانے والی اس تحریک نے اب ایک دستاویز جاری کر دی ہے جس میں قدرے نرم اور محتاط الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔

آج سے تین عشرے پہلے حماس خود کو مصر کی معروف اسلامی انقلابی تحریک ’اخوان المسلمون‘ کا حصہ قرار دیتی تھی اور اس کا مقصد اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹا کر سرزمین فلسطین کے ’ہر ایک انچ‘ پر اسلامی مملکت کا قیام قرار دیا گیا تھا۔

سنہ 1988 میں لکھے جانے والے حماس کے منشور کی شق نمبر 36 میں تحریک کی جد وجہد کو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تنازع کے پیرائے میں دیکھا گیا تھا، تاہم تحریک کے اندر برسوں سے جاری بحث کے بعد اب حماس نے جو دستاویز جاری کی ہے اس میں محتاط زبان استعمال کی گئی ہے۔

نئی دستاویز میں ایسی کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہے جس سے یہ سمجھا جائے کہ حماس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، بلکہ اس دستاویز میں بھی حماس نے فلسطینیوں کے اس دیرینہ مطالبے پر اصرار کیا ہے کہ مشرق میں دریائے اردن سے لے کر مغرب میں بحیرۂ روم تک کا تمام علاقہ فلسطینیوں کا ہے۔

تاہم نئی دستاویز میں یہ باقاعدہ طور پرتسلیم کیا گیا ہے کہ فلسطینی ریاست سے مراد غزّہ، غرب اردن اور مشرقی یروشلم کے علاقے ہیں، یعنی وہ سرحد جو سنہ 1967 میں اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کے درمیان قائم تھی۔

خلیجی شہر دوہا میں ایک پریس کانفرنس میں نئی دستاویز کا اعلان کرتے ہوئے حماس کے رہنما خالد مشال نے اس بات پر بھی زور دیا کہ تحریک کی یہودی مذہب کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے۔

دوحا میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے خال مشال کا کہنا تھا کہ ’حماس کی جد وجہد صیہونیت اور صیہونی قبضے کے خلاف ہے، نہ کہ یہودیوں یا یہودی مذہب کے خلاف۔ ‘

مبصرین کا کہنا ہے کہ منشور میں تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ حماس بین الاقوامی برادری میں اپنا مقام بہتر کرنا چاہتی ہے۔

نئی دستاویز میں حماس نے ایسے تمام الفاظ نکال دیے ہیں جن سے تحریک کے ’اخوان المسلمون‘ کے ساتھ نظریاتی تعلق کا عندیہ ملتا تھا۔ یاد رہے کہ مصر اور چند خلیجی ریاستیں پہلے ہی اخوان المسلمون کو دہشتگرد گروہ قرار دے چکی ہیں۔

اسی طرح حماس کا اپنا نام اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی دہشتگرد تنظیموں کے فہرست میں شامل ہے، اور لگتا نہیں کہ حماس کا نام ان فہرستوں سے جلد نکال دیا جائے گا۔

اسرائیلی وزیر اعظم کے ترجمان ڈیوڈ کیز نے حماس کی نئے منشور کو رد کر دیا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ حماس کے ٹی وی چینلز دیکھیں، ان کی مسجدوں اور ان کے سکولوں کو دیکھیں تو وہاں حماس اپنے لوگوں کو ہر روز اسرائیل کی تباہی کا سبق دیتی ہے۔ ‘

کچھ عرصے سے یہ افواہیں بھی گردش میں ہیں کہ حماس ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کی بڑی تنظیم ’تنظیمِ آزادئی فلسطین‘ یا پی ایل او میں شمولیت کی خواہاں ہے۔

حماس کا بنیادی دستور کہتا ہے کہ جس دن پی ایل او نے ’اسلام کو ایک طرز زندگی کی طرح قبول کر لیا، اس دن حماس اس کے سپاہیوں میں شامل ہو جائے گی۔ ‘
ماضی میں الفتح کے ترجمان بھی حماس پر تنقید کر چکے ہیں کہ اس نے پی ایل او کے بارے میں اپنے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

اسامہ القواسمی کا کہنا تھا کہ حماس کو چاہیے کہ وہ پی ایل او سے معافی مانگے کہ وہ 30 سال تک اسے غداری اور توہین اور فلسطینی عوام کو بری طرح تقسیم کرنے کا الزام دیتی رہی ہے۔
حماس کی یہ نئی دستاویز ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب خال مشال کے سیاسی مخالف محمود عباس نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اس ہفتے ملاقات کرنے والے ہیں۔

اگرچہ حماس سرکاری طور پر محمود عباس کی سفارتکاری کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے، لیکن امکان ہے کہ اگر اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کی کوئی امید دکھائی دیتی ہے تو حماس مرکزی دھارے سے باہر نہ نظر آئے۔

(یولاندے نیلی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp