تصویریں، سیاستدان اور بیت الخلا


\"naseer ایک اخبار میں چند تصاویر دیکھیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل ایک پینگوئن کو کچھ کھلا رہی ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیود کیمرون بھیڑ کے بچے کو دودھ پلا رہے ہیں۔ جارج بش جونیئر اپنے کتے کو اٹھائے طیارے سے اتر رہے ہیں۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن آسٹریلیا کے شہر ملبورن کے چڑیا گھر میں کسی جانور کو بڑے انہماک سے دیکھ رہے ہیں۔ امریکی صدر بارک اوباما آدھے بازو کی شرٹ پہنے ہوئے، اپنے کتے کے ساتھ چہل قدمی کر رہے ہیں۔ جان کیری نیروبی میں ہاتھی کے ساتھ سیلفی لے رہے ہیں۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن اپنے دو کتوں کے ساتھ بچوں کی طرح کھیل رہے ہیں۔ ملکہ الزبتھ دوم عام لوگوں سے مل کر خوش ہو رہی ہیں۔ سابق آسٹریلوی وزیر اعظم اپنا نایاب نسل کا کتا اٹھائے ہوئے ایک پولیس مین کو دکھا رہی ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اس طرح کی تصاویر ایک عام سی بات ہے اور یہ ان کی روزمرہ کی ثقافت ہے۔ وہاں کے سیاستدان اور ملکوں کے سربراہان سرکاری مراعات اور مصروفیات کے ساتھ ساتھ عام شہریوں جیسی زندگی بھی گزارتے ہیں۔ اپنے بال بچوں کے ہمراہ چھٹیاں مناتے ہیں۔ جہاں موقع ملے لوگوں سے گھل مل جاتے ہیں۔ چڑیا گھروں، عجائب خانوں اور کنسرٹس یعنی نغمہ و سرود کی محفلوں میں جاتے ہیں۔ گالف کھیلتے ہیں۔ خود شاپنگ کرتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی پالتو جانور نہ صرف رکھتے ہیں بلکہ اس کی دیکھ بھال بھی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ وقت بھی گزارتے ہیں۔ سیاسی شعبدہ بازی کے لیے نہیں بلکہ شوقیہ سائیکل چلاتے ہیں۔ پینٹنگز بناتے ہیں۔ شعر و ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ عام لوگوں کی طرح پارکوں میں سیر کرتے، کھیلتے کھاتے زندگی کی روزمرہ خوشیوں اور حقیقتوں کا ادراک کرتے اور ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہمارے اخبار نویسوں کو یہ سب کچھ عجیب لگتا ہے اس لیے وہ ایسی تصویروں کو نمایاں کر کے کیپشن لگا کر شائع کرتے ہیں، جو درحقیقت عام سی باتیں ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے سیاستدان اور سربراہان ایک عجیب مصنوعی عظمت، بناؤ، تناؤ اور جھوٹ کی زندگی گزارتے ہیں۔ عام زندگی سے لذت کشید کرنا ان کی شانِ لیڈری اور شاہانہ طرزِ حکمرانی کے خلاف ہے۔ ان کے لیے مال و دولت ہی سب کچھ ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ اور دولت جمع کرنے کے علاوہ اگر ان کے کوئی مشاغل ہوں بھی تو ان کے لیے ملازمین کی ایک فوج ظفر موج ہوتی ہے جو ان کی جگہ کارِ شوق انجام دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی صرف جلسے جلوسوں اور خصوصی تقریبات میں لی گئی تصویریں ہی دکھائی دیتی ہیں۔ بے چارے تصویروں میں بھی فطری زندگی کا حظ اٹھانے سے محروم رہتے ہیں۔

\"WASHINGTON

میں ہمیشہ سرکاری اور سیاسی اشرافیہ سے دور ہی رہتا ہوں لیکن ایک بار بے نظیر بھٹو کے زمانے میں ادیبوں کی عالمی کانفرنس کے موقع پر ایوانِ صدر جانے اور ادیبوں کے لیے دیے گئے عشائیے میں شرکت کرنے کا اتفاق ہوا۔ فاروق لغاری صدر تھے۔ کافی انتظار کروانے کے بعد وہ تشریف لائے اور سیدھا اپنے لیے مخصوص میز پر چلے گئے۔ میں نے انھیں کھانے کے دوران یا بعد میں اپنی جگہ سے ہلتے اور کسی سے گھلتے ملتے نہیں دیکھا۔ ایک لمحہ کے لیے بھی ان کے چہرے پر مسکراہٹ دکھائی نہ دی۔ کھانے سے فارغ ہو کر جلد ہی وہ اندر چلے گئے۔ یہی حال ہماری عسکریہ کا ہے۔ جس میں افسروں اور جوانوں میں انسانی سطح پر میل جول اور طرزِ زندگی میں مماثلت ممکن نہیں۔ جبکہ میں نے پہلی خلیجی جنگ کے دوران امریکی فوج کے جوانوں اور افسروں کو ایک ساتھ گھومتے پھرتے، ہنستے مسکراتے، گپ شپ کرتے اور ایک ہی جگہ برگر کھاتے دیکھا۔ ہمارے ہاں تو ایسا خوابوں میں بھی نہیں دیکھا جا سکتا مبادا خوابوں پر بھی پابندی لگ جائے۔

ایک اور سب سے دلچسپ تصویر بھارتی وزیر اعظم مودی کی ہے جس میں وہ ایک ضعیف خاتون کے پاؤں چھو رہے ہیں۔ بھارت کی اس 104 سالہ ضعیف ترین خاتون نے صفائی کی خصوصی مہم کے پروگرام سے متاثر ہو کر لیٹرین بنانے کے لیے اپنی دس بکریاں بیچ دیں۔ اس پر نریندر مودی نے خاتون کنور بائی سے ملاقات کی اور سجدے کی حالت میں جا کر اس کے پاو¿ں چھوئے۔ مودی نے اس موقع پر خاتون کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرنے والوں کی کمی ہو گی۔ یہ خبر پڑھ کر اور تصویر دیکھ کر مجھے اپنے بچپن کا گاو¿ں یاد آ گیا، جب گاو¿ں کے سب مرد، عورتیں، بچے رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جایا کرتے تھے۔ مردوں کا تو کوئی وقت مقرر نہیں تھا جب اور جہاں موقع ملا اور ذرا سی اوٹ دیکھی، فارغ ہو لیے لیکن عورتیں خاص طور پر آپس میں سہیلیاں عموماً رات کو ٹولیوں کی صورت میں جایا کرتی تھیں، اور اس عملِ ناگزیر کے دوران خوب گپ شپ کرتی تھیں۔ اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض اوقات کچھ مرد بھی ان کے قریب بیٹھ جاتے تھے۔ یوں گاؤں کے معاشقوں، \"1371734s\"گھریلو جھگڑوں اور خاندانی رقابتوں، سیاستوں کے سارے راز افشا ہو جاتے تھے۔ برسات کے موسم میں جب ہر طرف پانی ہی پانی ہوتا تھا اور کئی کئی دن تک جھڑی لگی رہتی تھی یہ مسئلہ بڑی گمبھیر صورت اختیار کر لیتا تھا۔ یا جن دنوں کھیت فصلوں سے خالی ہوتے تھے تو کسی بنے، ٹبے، ٹوئے اور آڑ کی تلاش میں دور تک جانا پڑتا تھا اور بعض اوقات جلدی میں کسی آتے جاتے کی پرواہ کیے بغیر جہاں زور پڑا، وہیں بیٹھ جانا پڑتا تھا۔ میرا ایک شرارتی عم زادہ، جو شہر میں رہتا تھا اور اکثر گاو¿ں آیا جایا کرتا تھا، کڑی دوپہروں میں چھت پر دوربین لیے حوائجِ ضروریہ سے فارغ ہوتی ہوئی خواتین کو تاڑتا رہتا تھا۔ اس کی اِس حرکتِ بد کا دادی کو علم تھا اس لیے اکثر رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا تھا۔ بالآخر ایک دن اس کی دوربین پکی ضبط ہو گئی لیکن تب تک وہ کئی نیک مستورات کے مقاماتِ بول و بزاز بغور ملاحظہ کر چکا تھا۔ یہ اگرچہ مکروہ سی بات ہے لیکن بالکل سچی ہے۔ دراصل ہماری مشکل یہی ہے کہ ہم اپنی اصل ثقافتی برائیوں اور ابتدائی حقیقی طرز معاشرت کے بارے میں سچ لکھتے ہوئے گبھراتے اور شرماتے ہیں اور خود کو اچھا بنا کر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ لاطینی امریکی ناول نگاروں نے اس ٹیبو کو توڑا ہے۔ لیکن اپنے لوگوں کو یہ ہنر ابھی تک نہیں آیا جو لکھتے لکھتے یا تو غیر حقیقی حد تک فحش ہو جاتے ہیں یا خود کو دودھ سے دھلی اشرافیہ میں شامل کر لیتے ہیں۔

گاو¿ں سے شہر جانے کے ایک عرصہ بعد جب گاو¿ں آنا ہوا تو کھیتوں میں جانا بڑا عجیب اور مشکل لگا۔ فوری طور پر مستری اور مزدور بلائے لیکن انھوں نے کموڈ اور گٹر سسٹم پہلے کبھی نہیں دیکھا یا لگایا تھا۔ چنانچہ خود ان کے ساتھ لگا اور دن بھر کی محنت کے بعد کموڈ بھی لگ گیا اور گٹر بھی تعمیر ہو گیا۔ یہ گاو¿ں میں پہلا فلش سسٹم تھا۔ آدھا گاو¿ں دیکھنے امنڈ آیا۔ کچھ نے تو گٹر کو دیکھ کر تصور ہی تصور میں اسے انسانی فضلے سے بھرا ہوا سمجھ کر باقاعدہ ناک منہ پر کپڑا رکھ لیا اور شہری ہو جانے کا طعنہ دیتے ہوئے اس عمل کو بڑا گندہ اور ناپسندیدہ قرار دیا۔ اب گاو¿ں کے ہر گھر کا اپنا بیت الخلا، اپنا فلش سسٹم اور سیپٹک ٹینک ہے۔ بلکہ \"26588\"اکثر گھروں میں تو شہروں کی طرح اٹیچڈ باتھ ہیں۔ اسی طرح چند سال پہلے بچوں کے ساتھ ایک دوست کے دور افتادہ گاو¿ں جانا ہوا۔ وہاں بھی اس وقت تک سب لوگ کھیتوں میں جاتے تھے۔ بڑی مشکل بن گئی، بچوں نے تو شو شو کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ دوست نے صورتِ حال کی نزاکت کو سمجھ لیا اور فوراً قریبی قصبے سے ڈبلیو سی (ایشین کموڈ)، پائپ اور مستری مزدور منگوائے، پلمبر کا گاو¿ں میں تصور نہیں تھا۔ میں نے کموڈ فٹ کیا، مستری نے دیواریں کھڑی کیں اور اس دوران مزدوروں نے بتائی ہوئی جگہ پر ایک گہرا گڑھا کھود ڈالا۔ کموڈ کو پائپ کے ذریعے اس گڑھے یعنی سَوک پِٹ سے ملا کر اسے لکڑی کے تختوں سے ڈھک دیا گیا۔ یوں چند گھنٹوں میں فلش سسٹم تیار ہو گیا اور بچوں نے فوراً ہی اس کا افتتاح کر ڈالا۔ اب اس گاو¿ں کے ہر گھر میں بھی اپنی اپنی لیٹرین اور غسل خانے ہیں۔ اس دوست نے بھی بعد میں نیا باتھ روم بنا لیا لیکن میرے تعمیر کردہ کو بھی بطورِ یادگار چالو حالت میں رکھا ہوا ہے۔ سوچتا ہوں کہ اگر میں اسی طرح دور دراز کے علاقوں میں جاتا رہوں تو کم از کم رفع حاجت سے فراغت کے معاملے میں ہمارے ملک کا ہر گاو¿ں جدید اور خود کفیل ہوتا جائے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک بہت ترقی کر رہا ہے۔ نئے شہر اور بندر گاہیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ سگنل فری شاہراہیں، پل،انڈر پاس، اوور ہیڈ، میٹرو، رنگ برنگی ٹرینیں، موٹر ویز، اکنامک کوریڈور اور پتا نہیں کیا کیا کچھ بن رہا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ شہروں کے اندر جگہ جگہ گندگی اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں اور ناقص ڈرینیج اور ناکارہ سیوریج سسٹم کی وجہ سے سڑکوں پر بہتے گندے پانی سے ہمارے نصف ایمان کو جو خطرہ لاحق ہے اس کی نظیر پورے یورپ اور امریکہ میں نہیں مل سکتی۔ اور باقی ماندہ ایمان جو آدھے سے زیادہ ملک کے پس ماندہ علاقوں، دیہاتوں میں کھلی زمینوں، کھیتوں، میدانوں اور ریگزاروں میں پانی اور دیگر بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ہر روز خراب ہوتا ہے۔ اس کے لیے بھی کسی چین کی مدد سے کوئی میگا پراجیکٹ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ ’روشن پاکستان‘ نہ سہی، اکیسویں صدی میں کم از کم معقول رفع حاجت والا پاکستان ہی بنا لیا جائے۔ کاش ہمارے وزیر اعظم ایک بار کسی ایسے علاقے میں جائیں جہاں پانی ہے نہ فلش سسٹم اور ایک رات وہاں گزار کر دیکھیں، اور صبح اٹھ کر بھاگم بھاگ دیگر ہم وطنوں کی طرح کھیتوں میں جائیں اور نظامِ فطرت پر غور فرمائیں تو انھیں معلوم ہو کہ انسانی ترقی کا راز کیا ہے اور وہ کون سی چیز ہے جس کے بغیر ساری تعمیراتِ عامہ و خاصہ بےکار ہیں۔ یقیناً ان کا جواب ہو گا، بیت الخلا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments