ہمارے کپتان کی ساری خوبیاں سیاست کھا گئی


ستاسی کے ورلڈ کپ کا سیمی فائنل تھا پاکستان ٹارگٹ چیز کر رہا تھا۔ ٹیم حسب معمول مشکل میں پھنس چکی تھی۔ جاوید میانداد اور عمران خان کی پارٹنر شپ جاری تھی امید باقی تھی۔ دنیا کرکٹ کے نیک نام امپائر نے ڈکی برڈ نے کپتان کو غلط آؤٹ دے دیا۔ پاکستان کی ٹیم گرتے پڑتے ٹارگٹ کا پیچھا کرتے ہوئے ہانپ گئی ہم سیمی فائنل ہار گئے۔ یہ غلط آؤٹ تھا جو پاکستان کو ورلڈ کپ سے باہر کرا گیا۔ کپتان کئی دن لوگوں سے میڈیا سے دور رہا جب سامنے آیا تو بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ۔ جنرل ضیا کہ کہنے پر اس نے ریٹائرمنٹ واپس لی۔

اس کے بعد جو ورلڈ کپ ہوا وہ ہم نے کپتان کی قیادت میں جیتا۔ ستاسی کا ورلڈ کپ ہارنے کے بعد بہت ہی کم کبھی اس کے منہ سے ذکر سنا کہ کس طرح ہماری اچھی ٹیم ایک غلط فیصلے کی وجہ سے میچ ہار گئی۔ کپتان نے زیادہ اختیارات حاصل کیے ٹیم میں تبدیلیاں کیں نئے کھلاڑی ڈھونڈے بڑے ناموں سے چھٹکارا حاصل کیا۔ یہ نئی ٹیم ہی تھی جو ہار ہار کر بھی لڑتی رہی ہمیں انضمام جیسا کھلاڑی ملا۔ یاد رہے کہ اسی ورلڈ کپ سے پہلے وقار یونس ان فٹ ہو گئے تھے۔ یہ ٹیم اتنے اہم کھلاڑی کے نہ ہونے کا دھچکہ بھی سہہ گئی تھی۔ یہ کپتان کی قیادت ہی تھی جس نے ٹیم کو آخر دم تک لڑنے والی مشین میں بدلا۔

کپتان نے ورلڈ کپ میں غلط آؤٹ ہونے کو ایشو نہیں بنایا تھا۔ ہم نے ایک سے زائد بار دیکھا تھا اس ورلڈ کپ سے پہلے بھی بعد میں بھی کہ کسی کھلاڑی کو اپنے آؤٹ ہونے پر اعتراض ہوا اور کپتان نے اسے دوبارہ کھیلنے کو کہہ دیا۔ یہ سپورٹس مین سپرٹ تھی کپتان کی جس کی وجہ سےلوگوں نے اسے کھلاڑی سے بہت اوپر کسی اوتار جیسی شخصیت بنا دیا۔

کپتان کو ہم نے کرکٹ میں ہمیشہ محنت کرتے نئے آئیڈیاز کے ساتھ سامنے آتے دیکھا۔ اسی نے عبدالقادر کی صورت میں لیگ سپنر کو بطور ہتھیار متعارف کرایا۔ لیگ سپنر وکٹیں لیتے تھے لیکن سکون سے کٹ بھی کھایا کرتے تھے۔ انہیں ون ڈے میں بطور ٹرمپ کارڈ کپتان نے استعمال کیا۔ پاکستان بھارت آ کر جب گورے ہار کر جایا کرتے تھے تو اپنی ہار کا الزام امپائروں پر دھر دیا کرتے تھے۔

یہ بھی کپتان ہی تھا جس نے غیر جانبدار امپائیروں کے لیے ایک بھرپور مہم چلائی۔ اسی کی وجہ سے پاکستان میں پہلی بار ایک ٹیسٹ سیریز غیر جانبدار امپائیروں کی نگرانی میں کرائی گئی۔ اس نے پاکستان کی جیت کو اعتبار دلایا کہ ہم زور بازو سے جیتا کرتے ہیں دھاندلی سے نہیں۔

کپتان جب سیاست میں آیا تو گمنام ہی رہا۔ پھر اس کا وقت بھی آ گیا اک دن جب یہ لوگوں کو تبدیلی کے نام پر باہر لانے میں کامیاب رہا۔ اس کے لیے دو ہزار تیرہ کا الیکشن ستاسی کے ورلڈ کپ جیسا ثابت ہوا ایک بھرپور رسپانس کے بعد غیر متوقع ناکامی ہوئی۔ اس ناکامی کے بعد کپتان نے جو کچھ کیا وہ ہر گز ویسا نہیں تھا جیسا اس نے ستاسی کا ورلڈ کپ ہارنے کے بعد کیا۔

اگر یہ ستاسی والا کپتان ہوتا تو پھر شاید یہ پارٹی قیادت سے استعفی دیتا کسی اور کو آگے لاتا۔ گھر بیٹھتا سارا پاکستان مڑ مڑ کر اسی کو دیکھتا۔ اسے گھر سے پکڑ کر واپس لایا جاتا ستاسی ہی کی طرح۔ واپس آ کر یہ پارٹی میں تبدیلیاں کرتا ناکامیوں کا جائزہ لیتا۔ ستاسی کا الیکشن ہارنے کے بعد کپتان نے پاکستان کے کرکٹ سسٹم کو نظرانداز کرتے ہوئے براہراست گلی محلوں سے کھلاڑی ڈھونڈے۔ وقار یونس کو شارجہ سے پکڑا عاقب جاوید کو شیخوپورہ انضمام کو ملتان معین خان کو کراچی اور مشتاق کو ساہیوال سے۔ کپتان سیاست میں کام کے لوگ ڈھونڈتا جو لوگوں کو ان کے مسائل کی وجوہات بتاتے اور حل بھی۔

کپتان نے جیسے کرکٹ میں غیر جانبدار امپائر لانے کے لیے مہم چلائی۔ ویسی ہی مہم وہ پاکستان میں قوانین تبدیل کرانے کے لیے چلاتا۔ الیکشن کا نظام شفاف بنواتا، پانامہ جیسے چانس اسے ملتے تو نئی قانون سازی کراتا ٹیکس ریفارم کرواتا۔ ایسی دہشت گردی ہوتے دیکھتا تو پولیس کو اپ گریڈ کرنے کے لیے شور مچاتا۔ فوجی عدالتوں کی مزاحمت کرتا سول عدالتوں کے نظام کو ٹھیک کرانے کی مہم چلاتا۔ یہ سب کرتا تو اسے روڈ پر پھرنے دھرنے دینے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ وہ کامیاب رہتا یا ناکام ہوتا ووٹ اسی کو ملتا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi