کوپرنیکس کے مسلمان پیشرو


یونانیوں، جس کا مطلب ہے ارسطو اور اس کے شاگردوں، کا خیال تھا کہ زمین ساکن ہے، کائنات کا مرکز ہے، اور باقی سب کچھ اس کے گرد گردش کرتا ہے۔ ان کے فلکیاتی ماڈل ہی کو لے کر بطلیموس نےاپنی تصنیف میں فلکیات میں اس زمانے کے لحاظ سے بےحد اہم کام کیا۔ اس تصنیف کا عربی ترجمہ المجسطی کے نام سے ہوا۔ آج بھی یہ کتاب تقریبا اسی نام سے جانی جاتی ہے۔ پھر کوپرنیکس نام کے ایک پولش ماہر فلکیات نے ایک۔ نیا۔ نظریہ، یعنی فلکیات کا ا یک ایسا ماڈل، پیش کیا جس کا دعوی یہ تھا کہ کائنات کا مرکز سورج ہے اور زمین اور دوسرے سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ اس مضمونچہ کا مقصد یہ بتانے کی کوشش کرنا ہے کہ یہ دعوی کوپر نیکس سے پہلے کے مسلمانوں کے اس نظریے کے قریبی نظریات پر کیے جانے والے کام پر مبنی تھا۔ اسی تعلق میں یہ بھی بتانے کوشش کی جائے گی کہ نظریات کیونکر پروان چڑھتے ہیں اور کہ کیا وجہ تھی کہ کوپرنیکس نے وہ تھیوری پیش کی جوکہ مسلمان پیش نہ کرپائے۔

اس بات کا ثبوت کہ کوپر نیکس مسلمان ریاضی دانوں اور فلکیات دانوں کے کام سے واقف تھا، اس سے ملتا ہے کہ اس کی شہرہ آفاق تصنیف

De revolutionibus

میں پانچ مسمانوں: البطانی، ثابت ابن القرۃ، الزرقالی، ابن رشد، اور البتروجی کے کام کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے۔ جن میں نور الدین البتروجی (یا البطروجی) بارہویں صدی کے اواخر کا اندلسی سائینسدان تھا۔ گویا کوپر نیکس، بظاہر، اپنا تعلق مسلمان سائنسدانوں سے بارھویں صدی تک ہی رکھتا ہے، شاید اس لئے کہ بارھویں صدی کے بعد عربی کتابوں کا لا طینی میں ترجمہ بند ہو گیا تھا۔ لیکن حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ گو کہ مسلمانوں کے کاموں کے تراجم تو بند ہو گئے تھے، مسلمان علما کے کام سے خوشہ چینی بند نہیں ہوئی تھی۔ مثلاً سنہ 1906 میں ڈرائر نام کے ایک فلکیات دان نے اپنے ایک مضمون میں یہ انکشاف کیا کہ جو طریقہ کوپرنیکس نے اپنی تصنیف کی تیسری کتاب کے چوتھے باب میں استعمال کیا وہ تیرھویں صدی کے اواخر کے ایک مسلمان ماہر فلکیات ناصرالدین الطوسی 1201 تا 1274 کی ایجاد تھا۔

پھر یوں ہوا کہ کینیڈی نام کے ایک امریکی ریاضی دان کو جو کہ بیروت میں پڑھاتے تھے 1304 تا 1375 ع کے دوران کے ابن الشاطر نام کے ایک دمشقی سائنسدان کے کچھ فلکیاتی ماڈل محض اتفاق سے دکھائی پڑے۔ یہ فلکیاتی ماڈل قطعی طور پہ غیر بطلیموسی تھے۔ کینیڈی صاحب نے اور ان کے شاگردوں نےاس پر کافی تحقیق کی اور بہت سے مضامین لکھے۔ انجام کار یہ فیصلہ ہوا کہ فلکیات کا وہ جدید ماڈل ابن الشاطر صاحب اور دوسرے مسلمان فلکیات دانوں کےاس کام پر مبنی تھا جو کہ کوپرنیکس صاحب نے بغیر بتائے استعمال کرلیا، غالبا اس لئے کہ لاطینی میں اس بارے میں کچھ موجود نہیں تھا۔

اس سارے معاملے کو مختصراً کچھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان سائنسدان ایک عرصے سے بطلیموس صاحب کے طور طریقوں سے پریشان تھے اور ان کو غلط جانتے تھے۔ مثلا ابن الھیثم نے سن 1040 عیسوی میں الشکوک علی البطلیموس نامی ایک رسالہ لکھا تھا۔ اور انہوں نے اور دوسرے مسلمانوں نے، جن میں ابن رشد بھی تھے، مل ملا کے کوئی سولہ کے قریب ایسی خطائیں ڈھونڈ رکھی تھیں کہ جو علمی، تکنیکی اور عقلی لحاظ سے خطائیں تھیں۔ ایک چیز جس پر مسلمان سائنسدانوں کو سب سے زیادہ اعتراض تھا وہ یہ تھی کہ زمین ساکن کیسے ہوسکتی ہے۔ اور کچھ کا یقین تھا کہ یہ زمین کی گردش ہے جس سے کہ آسمان اور دوسرے اجرام فلکی گھومتے نظرآتے ہیں، بلکہ ابو سعید السجزی نے تو سن 1020 ع میں ایک ایسی اسطرلاب بھی بنالی تھی جو زمین کی محوری گردش کو ملحوظ رکھتی تھی۔

یہ وہ نظریاتی مشکلات تھیں جنہوں نے بعد میں آنے والے سائنسدانوں کو اجرام فلکی کی حرکات کا ہندسی ماڈل بنانے کی طرف متوجہ کیا جو کہ البطروجی اور ابن الشاطر اور بعد میں سمرقند میں الغ بیگ کے شاگرد القشجی کی تصانیف پر منتج ہوا۔ ان لوگوں نے تحتی سیاروں یعنی سورج اور زمین کے درمیان والے اور فوقی سیاروں یعنی زمین کے مدار سے باہر والے سیاروں کا درست تعین کررکھا تھا۔

یہاں یہ بھی تو کہا جاسکتا ہے کہ بھئی ٹھیک ہے مسلمان لگے رہے، آبزرویٹریوں میں سر کھپاتے رہے لیکن ہمارے شیر کوپرنیکس نے اکیلے بیٹھ کر بغیر کسی آبزرویٹری کے محض اپنے دماغ سے پورا سسٹم بنا لیا۔ تو ایسے حضرات کے لئے میں انگریزی میں ایک اقتباس نقل کردیتا ہوں ایک امریکی ریاضی دان کے مضمون کا۔

The planetary models for longitude in the Commentariolus are all based upon the models of Ibn ash-Shatir — although the arrangement for the inferior planets is incorrect — while those for the superior planets in De revolutionibus use the same arrangement as Urdi’s and Shirazi’s model, and for the inferior planets the smaller epicycle is converted into an equivalent rotating eccentricity that constitutes a correct adaptation of Ibn ash-Shatir’s model. In both the Commentariolus and De revolutionibus the lunar model is identical to Ibn ash-Shatir’s and finally in both works Copernicus makes it clear that he was addressing the same physical problems of Ptolemy’s models as his predecessors.

[N.M. Swerdlow and O. Neugebauer, Mathematical astronomy in Copernicus’s De revolutionibus (2 parts), New York and Berlin, 1984].

عرض یعنی خط الطول کے لئے جو سیاراتی نموذج یعنی ماڈل کوپر نیکس نے کمنٹاریولس میں استعمال کیے وہ تمام کے تمام وہی تھے جو کہ ابن الشاطر کے تھے اگرچہ تحتی سیاروں کی ترتیب غلط تھی، جبکہ فوقی سیاروں کے جو ماڈل کوپرنیکس نے ڈی ریوولیوشنیبس میں استعمالکیے وہ تمام تر اردی اور شیرازی کے تھےاور تحتی سیاروں کے لئے فلک التدویر کو گردش کناں مرکز گریزیت میں یوں بدلا ہے کہ صاف پتا چلتا ہے کہ یہ ابن الشاطر کے ماڈل کا درست انطباق ہے۔ ان دونوں کتابوں میں جو چاند کا ماڈل استعمال ہوا ہے وہ ہو بہ ہو ابن الشاطر کا ہے۔ اور آخر میں، ان دونوں کتابوں میں کوپرنیکس اس بات کو پوری وضاحت سے بیان کرتا ہے کہ وہ اسی طبیعاتی مسئلے پر کام کررہا ہے کہ جو بطلیموس کے ماڈل کے ساتھ اس کے پیش رووں کا تھا۔ ( اور ظاہر ہے کہ اس معاملے میں کوپرنیکس کے پیش رو مسلمان سائنسدان تھے۔ ان دونوں مصنفین میں سے نائج باور صاحب اوپر مذکور کینیڈی صاحب کے تقریباً استاد تھے۔ )

اب یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس بات پر بھی کچھ بحث ہوجائے کہ مسمان کہاں تک گئے یا جا سکتے تھے؟ کیا کوپرنیکس کا تمام تر کام مسلمانوں کے کام کا چربہ تھا؟ ابتک کی تحقیق میں کہیں یہ بات نہیں ملتی کہ مسلمانوں نے کبھی مرکزیت ارض کے یونانی نظریئے سے ہٹ کر کبھی کچھ لکھا ہو۔ سیاروں کے ماڈل درست پیش کر دیے، لیکن زمین کی مرکزی حیثت کو کبھی نہیں چھیڑا۔ زمین کی محوری حرکت کا نظریہ پیش کردیا لیکن یہ خیال کہ زمین اپنے مدار پر سورج کے گرد مع دوسرے سیاروں کے گردش کر رہی ہے، لگتا ہے۔ کسی کو نہ آیا۔ اور اگر آیا بھی تو زیادہ کھل کر اس پر بات نہ ہوئی۔ کہ لوگ زیادہ تر سیاروں کی اور چاند کی حرکات پر توجہ دیے رہتے تے۔ سیاروں کی حرکات پر نظر رکھنے کی ایک وجہ شاید یہ بھی رہی ہو کہ زیادہ تر ہیئت دان علم النجوم سے واقف ہوتے تھے کہ یہ واقفیت ان کے لئے آمدنی اور سرکاری سرپرستی کا باعث ہوسکتی تھی۔

دوسری وجہ شاید یہ ہو سور ج کو ساکن اور زمین کو اس کے مدار میں حرکت کرتے ہوئے نہ ماننے کی کہ قرآن کریم میں والشمس تجری لکھا ہے۔ یعنی سورج چلتا ہے۔ اب بھلا چلتے سورج کو ساکن کون کرے؟ ایک عرصے تک اسلامی دنیا اس ایک مخمصے میں پڑی رہی۔

دوسری طرف، کوپرنیکس صاحب کے کہے پر سورج کو ساکن مان کر مغربی دنیا میں سائنسدانوں نے ایک آفت بپا کردی۔ پہلے کیپلر صاحب نے سورج کو مرکز اور حرکی طاقت کا سرچشمہ مانتے ہوئے سیاروں کے مداروں کے بیضوی ہونےکا اعلان کردیا پھر رہی سہی کسر نیوٹن صاحب نے پوری یوں کی کہ اپنےمادی اجسام کے درمیان جذبی قوت یعنی کے نظریئے کو بروئے کار لاتے ہوئے۔ کیپلر صاحب کے نظری کام کی توثیق کردی۔ یعنی بذریعہ ریاضی یہ ثابت کردیا کہ ہاں سورج کے گرد زمین کا مدار بیضوی ہی ہے۔ اور کہ سورج بھی زمین کی کشش کے زیر اثر ایک چھوٹے سے بیضوی مدار میں حرکت کرتا ہے۔

دوسری طرف گیلیلیو صاحب سے منسوب دوربینیں قیامت ڈھارہی تھیں، اور یار لوگ زحل کے حلقوں اور دوسرے سیاروں کے چاندوں کا نظارہ کررہے تھے۔ پھر جب اور ترقی ہوئی اور ریڈیائی دوربینیں بن گئیں تو لوگ کہکشائیں دیکھنے لگے۔ پتا چلا کہ ہمارا سورج بھی ایک بڑی سی کہکشاں کا حصہ ہے جوکہ ایک سمت کو حرکت کر رہی ہے۔ گویا کہ جو نظریہ کوپرنیکس صاحب نے پیش کیا تھا وہ بھی پورے طور پر درست نہیں تھا۔ سورج کائنات کا مرکز نہیں بلکہ ایک حد تک شمسی نظام کا مرکز ہے اور ہمارا شمسی نظام بھی ایک بہت بڑی کہکشاں کا ایک معمولی سا حصہ ہے۔

اب ذرا قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کو دیکھتے ہیں تاکہ بات کھل جائے۔ سورۃ یاسین کی اڑتیسویں آیت جس کا ایک حصہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں یہ ہے:

ترجمہ: اور سورج اپنی مقررہ منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ کامل غلبہ والے (اور) صاحبِ علم کی تقدیر ہے۔

قربان جاوں اس علم کلام کے کہ ہر زمانے کے لوگوں نے اپنے علم اور فہم کے مطابق اس آیت کو۔ سمجھا۔ ، اس زمانے بھی جب سورج کو ایک بڑا سا چمکتا ہوا طباق سمجھا جاتا تھا اور سمجھا جاتا تھا کہ یہ رات کو اپنے ٹھکانے پر جاکر سوجاتا ہے۔ اور آج بھی اس کا مطلب سمجھ میں آتا ہے کہ یہ پنے ٹھکانے کی طرف رواں ہے۔ اور

’یہ حکم ہے زبردست علم والے کا‘

فرماکر اس بات کا تعین بھی فرما دیا کہ ٹھکانے سے مراد اس کا انجام ہے۔ اور انجام کیا ہوگا؟ اس کا علم صرف علیم وقدیر خدا کو ہے۔ ہم اپنے محدود علم اور مشاہدے کی بنیاد پر مفروضے قائم کر سکتے ہین اندازے لگا سکتے ہیں، لیکن انجام کار کیا ہوگا، اس کا علم صرف بنانے والے کو ہے۔ اب تک کے جو اندازے میں نے پڑھے ہیں وہ یا تو سورج کے ٹھنڈا ہوکر سارے نظام شمسی کو کو ایک سرد جہنم بنانے کے یا پھر سورج کے بے حد گرم ہوگر پھٹ جانے سے متعلق ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کہ بعض بڑے سورج انجام کار اپنی کثافت کے باعث بلیک ہول بن جاتے ہیں۔ اور ارد گرد کی کہکشاوں تک کو کھینچ کر۔ کھا۔ جاتے ہیں۔ کیا عجب کہ ہماری کہکشاں بھی کسی بلیک ہول کی طرف کشاں کشاں چلی جارہی ہو۔ پر پھر وہی بات کہ واللہ اعلم بالصواب۔

آخر میں یہ کہنا ضروری لگتا ہے کہ سائنسی نظریات اسی طور پر پروان چڑھتے ہیں۔ انسان اپنے اردگرد کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے مشاہدات کی بنیاد پرنئے مفروضے قائم کرتا ہے۔ پھر نئے تجربات کی بنیاد پر ان مفروضوں میں ترمیم کرتا ہے۔ پھر کوئی اور آگے آتا ہے اور ان مفروضوں کو رد کرکے اپنے نظریات پیش کرتا ہے یا انہی مفروضوں میں کچھ ترمیم کرکے نئے نظریات پیش کرتا ہے۔ ایسے میں جو سکہ بند کام موجود ہو اسے استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ کوپرنیکس نے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔ اگر اس نے سن 1200 ع کے بعد کے مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مسلمانو اور یہودیوں کے اسپین سے انخلا کے بعد مسمانوں اور کچھ یہودیوں نے تو شمالی افریقہ کی ریاستوں کا رخ کیا جبکہ یہودیوں کی اکثریت نے یورپ کا رخ کر لیا۔ یہ لوگ مسلمان ملکوں میں بھی آتے جاتے تھے اور عربی سے واقف تھے۔ مسلمانوں کا بہت سا علمی اور تکنیکی سرمایہ بھی انہی لوگوں کے ذریعے سے یورپ منتقل ہوا۔ اور پھر یہ کہ آج کی طرح پرنٹ شدہ کتابیں تو ہوتی تھیں نہیں۔ کتابیں ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں اور یہ کاتب کے ہاتھ میں ہوتا تھاکہ وہ کتاب پر مصنف کا نام لکھے یا اپنا یا کوئی نام بھی نہ لکھے۔ ایسی ہی کوئی گمنام کتابیں کوپر نیکس صاحب کے ہاتھ لگ گئی ہوں گی۔

نوٹ: اس مضمونچہ کی تیاری میں انٹرنیٹ کے علاوہ، ایک ترک تاریخ دان کا، جو آجکل شاید مکگل یونیورسٹی کینیڈا میں ہوتے ہیں، مضموں بے حد کار آمد ثابت ہوا۔ قارئین کی آسانی کےلئے حوالہ درج ذیل ہے۔

F. Jamil Rageb, Copernicus and his Islamic predecessors, some historical remarks, History of Science, vol. 45, Part 1, p.65-81


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).