تم گائے کی پوجا کرو کیونکہ میں ہندو ہوں


یہ ہندوستان ہے۔ ہم ہندو ہیں اور گاؤ ماتا کی پوجا، عزت اور حفاظت ہمارے آستھا کا بنیادی حصہ ہے۔ اگر کوئی گاؤ ماتا کی پوجا نہیں کرنا چاہتا تو جائے کہیں اور جا کر رہے۔ ہم نے یہ ملک انگریزوں سے اس لئے آزاد نہیں کرایا تھا کہ یہاں رہنے والوں کو ہندو دھرم کی کوئی پرواہ ہی نہ ہو اور سیکولرزم اور لبرلزم جیسے بیہودہ بہانوں سے ہمارے دھرم کے خلاف سازشیں ہوتی رہیں اور ہم انہیں برداشت کرتے رہیں۔ اگر ایسا تھا تو پھر گورے لبرل اور سیکولر تھے انہیں ہی رہنے دیتے، آزادی کی کیا ضرورت تھی۔ بہت برداشت کر لیا ہے ہم نے۔ اب ہم اپنے مذہب کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو بے نقاب کریں گے اور کا ڈٹ کر اس کا مقابلہ کریں گے۔

ہم تمام ہندو نوجوانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ غیرت کھاؤ اور نکلو۔ گاؤ ماتا کے تحفظ کے لئے اکٹھے ہو جاؤ اور ایسے کسی بھی اقدام کو ہاتھوں اور ڈنڈوں سے روک دو جو ہمارے دھرم کے خلاف ہو۔ ذبح کرنا تو دور کی بات ہے جس شخص پر بھی ہماری گاؤ ماتا کے جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کا شبہ تک ہو گا اس کی آنکھ کو پھوڑ دیا جائے گا۔

دیکھ لیں جب سے ہم نے اپنے دھرم اور گاؤ ماتا کے تحفظ کے لئے خود اقدام کرنا شروع کیے ہیں (اور حکومت کا بھی سہارا ہے) تو آئے دن کوئی نہ کوئی مجرم رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے اور اسے سزا ملتی ہے۔ کوئی گوشت اٹھا کر گھر جا رہا ہوتا ہے تو غیرت مند ہندو جوان اس کو سبق سکھاتے ہیں۔ کوئی گاؤ ماتا کو اپنے دنیاوی منافع کے لیے کہیں سمگل کر رہا ہے اور کوئی گاڑی میں بیٹھ کر گاؤ ماتا پر بے دردی سے ہارن بجا کر اسے ڈسٹرب کرتا ہے۔ ایسے سارے لوگوں کو سب کے سامنے جب سبق سکھایا جاتا ہے تو باقی احتیاط شروع کر دیں گے۔ اور جو احتیاط سے کام نہیں لے گا اور ہمارے جذبات کے ساتھ کھیلے گا اسے ہم ضرور سبق سکھائیں گے۔ اس سلسلے میں کسی سے بھی کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی، چاہے وہ کوئی لبرل ماڈرن ہندو ہو یا غیر ہندو۔ ہم جانیں دیں گے بھی اور لیں گے بھی۔

رہا سوال قانون کی حکمرانی، مذہبی آزادی اور انسانی جیون کی سرکھشا کا تو اس سے ہمیں بالکل انکار نہیں۔ ہم بھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہتے لیکن جب حکومتیں بڑی ڈھٹائی سے سیکولر بنتی تھیں، نہ انہوں نے اس برائی کو روکنے کے لئے قانون بنائے تھے اور نہ ہی مجرموں کو کوئی عبرت ناک سزا دیتے تھے تو لوگ اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کے عادی ہو گئے تھے۔ اب پہلی دفعہ بھگوان کی کرپا سے ایک ایسی گورنمنٹ آئی ہے کہ جس کو اپنے مذہب کا کچھ خیال ہے اور وہ لوگوں کو اور ریاست کو مذہبی راستے پر ڈالنا چاہتی ہے تو اب ہمیں بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا نہیں چاہیے اور اپنی حکومت کی مدد کرنی چاہیے۔ ویسے بھی ہم اپنی آنکھوں کے سامنے یہ کیسے برداشت کر لیں کہ لوگ اس دھرتی کے مذہب اور گاؤ ماتا کی عزت کا ذرہ بھی خیال نہ رکھیں۔ ہمارے لئے یہ ناقابل برداشت ہے اور ہم اپنے دھرم اور گاؤ ماتا کے تحفظ کے لیے اپنی جانیں دینے کو تیار ہیں۔

مزید ہم گورنمنٹ کو یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر انہوں نے انڈیا میں ہندو دھرم کے تحفظ کے لیے مناسب اقدام نہ کیے تو حالات بہت خراب ہو جائیں گے۔ انڈیا میں واضح قانون ہونا چاہیے کہ کسی بھی ہندو کو اپنا مذہب چھوڑنے کی اجازت نہ ہو۔ جو کوئی مسلمان یا کرسچن ہو جائے اس کی سزا موت ہو۔ ہاں البتہ اگر کوئی مسلمان یا کرسچن واپس لوٹنا چاہے یعنی ہندو مذہب قبول کرنا چاہے تو اس کی اجازت ہونی چاہیے۔ کسی ہندو لڑکی کو مسلمان، کرسچن یا کسی دوسرے غیر ہندو لڑکے سے شادی کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ گوشت کھانے کی قطعاً اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ تمام ریسٹورنٹس پر صرف ویجیٹیرین کھانے پیش کرنے کی اجازت ہو۔ اسی طرح گھروں میں بھی گوشت پکانے پر سخت پابندی ہونی چاہیے۔ یہ مسلمانوں اور کرسچنوں کی وجہ سے ہمارے ہندو گھرانوں کی کھانے کی عادات پر بھی فرق پڑا ہے۔ ہم اس پر مکمل کنٹرول کر کے ہی مزید بربادی سے بچ سکتے ہیں۔

یہ صرف ابتدائی اقدامات ہیں۔ انڈیا کو ایک مکمل ہندو ریاست بنانے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہو گی۔ ستی کی رسم کو واپس لانا ہو گا تاکہ ہمارا خاندانی نظام اپنی اصلی شکل میں بحال ہو سکے۔ مثلا سب لوگوں کو پاؤں میں کھڑاؤں کے علاوہ کوئی دوسرا جوتا نہیں پہننا چاہیے تاکہ ہم صحیح معنوں میں ہندو نظر تو آئیں۔ ہم نے اپنے معاشرے کو اس شکل میں لانا ہے جیسے کہ چار ہزار سال پہلے تھا اور اگر ہم ایسا نہ کر سکے تو ہمیں اس دنیا میں ذلت اور اگلے جیون میں نرکھ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

ان تمام اقدامات سے ہمارے ملک انڈیا کی بہت نیک نامی ہو گی اور ساری دنیا میں ہماری عزت بڑھے گی۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik