وجاہت مسعود سے عمار کاظمی کا مکالمہ (دوسرا حصہ)


 عمار کاظمی: کس حیثیت سے ایک متنازع شخصیت کا انٹرویو کیا گیا۔ کیا یہ انٹرویو کرنے کا مقصد ان کو سوشل میڈیا پہ سپیس دینا تھا جو سوسائٹی میں کسی کو سپیس دینے پر تیار نہیں ہیں۔

وجاہت مسعود ۔ ہم نے کیا سپیس دینی ہے مولانا لدھیانوی کو اور دوسرے فرقہ پرست سیاست کرنے والوں کو۔ سارا سوشل میڈیا ان کے لیے پڑا ہے۔ یوٹیوب پر ان کی تقاریر کسی نے نہیں روکیں۔ خادم حسین رضوی کی تقاریر تو کوئی نہیں روکتا۔ پاکستان کی پولیس اور عدالت سے لے کر ہر ریاستی منصب دار کو گالیاں دیتا ہے، اور وہ جو ہاتھ میں ڈنڈا لے کے بیٹھا رہتا ہے۔ مجھے ان کا اب نام نہیں یاد آ رہا۔ (پیر افضل) اب یہ جو مولانا اشرف صاحب ہیں جنہوں نے نواز شریف صاحب کو گالیاں دی ہیں۔ میرے بھائی نفرت پھیلانے والوں کے لیے سوشل میڈیا پر بہت جگہ ہے۔ ہم نے تو مولانا صاحب سے بات کر کے ان سے ایسی باتیں کہلوائی ہیں جن سے امن کا راستہ ہموار ہونے کی ، امن پر بات کرنے کی راہ کھل سکے۔ یہ میرا موقف ہے۔

عمار کاظمی:  کبھی بیٹا پالا ہے، اسے جوان کیا ہے۔

وجاہت مسعود۔ میرا بیٹا پچیس چھبیس سا ل کا ہو گیا ہے۔ میں تو اس سے بھی ڈرتا رہتا ہوں کیونکہ وہ بھی اسی (سوال کرنے والے) نوجوان کی طرح بہت جذباتی ہے۔

اینکر۔ بس ایک سوال پوچھ لیں کہ محسن نقوی کے قد والے بندے مار کر قاتل پارٹی کو آپ کے کہنے پر کیسے چھوڑ دیں۔ تیس ہزار شیعہ قتل ہو چکا ہے ۔ لاشیں کئی بار سامنے رکھ کر احتجاج ہو چکا ہے ۔ آ پ کہتے ہیں چپ کر جائیں۔ ملک کو سلفی ، وہابی ریاست بننے دیا جائے۔

وجاہت مسعود ۔ اس طرح کے الزامات نہیں لگانے چاہئیں۔ برائے مہربانی اس بھائی سے ثبوت مانگا جائے کہ سلفی یا وہابی یا کسی بھی طرح کی مذہبی ریاست بننے کی تائید کہاں کی گئی ہے۔ جب جنگ ہوتی ہے جب لڑائی ہوتی ہے تو دونوں طرف سے اموات ہوتی ہیں ، کہیں زیادہ ہوتی ہیں کہیں کم ہوتی ہیں۔ جب صلح کی میز پر بیٹھے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اب جنگ ختم کرنی ہے اور آﺅ اس پر بیٹھ کے بات کرتے ہیں ، بندوق کو روکو۔ تو اس وقت ہر فریق جن کے لوگ مرے ہیں تو وہ تو اپنی لاشیں لے کے آئے گا ۔ ازراہ کرم اس بات کو سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ جنگ کے دوران بھی متحارب ملک آپس میں بات کرتے ہیں۔ ایران جس وقت امریکا کو شیطان بزرگ کہہ رہا تھا تو کونٹرا گیٹ سکینڈل اسی وقت سامنے آرہا تھا۔ ابھی اوباما ایران کے ساتھ بات کر رہا ہے اور سعودی عرب کے ساتھ بھی امریکیوں کا وزیر خارجہ بیٹھا ہے۔ سیاست کے معاملات کو انفرادی اخلاقیات پہ نہ لیں ۔ سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ جو دوست مارے گئے ہیں وہ اہل تشیع تھے یا اہل سنت ، ہم انہیں اپنے اہل خانہ ہی سمجھتے ہیں اور وہ ہمارے ہم وطن ہیں۔ ہم لاشوں کے سینے پہ ان کے مسلک کا ٹیگ نہیں لگاتے۔ ہم لاش کو لاش سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ لاشیں نہیں گرنی چاہئیں۔

عمار کاظمی: ایم کیو ایم لندن ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ جس کی کوریج بند ہے پھر ایک ایسی مذہبی تنظیم جو کالعدم ہے کو کوریج دینے کی ضرورت کیوں؟

وجاہت مسعود۔ ایم کیو ایم لندن ایک پروسکرائبڈ تنظیم نہیں ہے اور جو اس کی آواز میڈیا پہ روکی گئی ہے اس پہ احتجاج کی آوازیں اس ملک میں موجود ہیں۔ میں کسی کے ساتھ خود کو الائن (align) نہیں کرنا چاہتا ۔الطاف حسین صاحب نے جو 22اگست کو تقریر کی تھی اس کا دفاع کرنا اس قدر مشکل تھا کہ جو ان کے ساتھی ہیں فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن ، وہ تک ان کو چھوڑ گئے۔ الطاف حسین کے آخری چار یا پانچ برس جو پاکستانی سکرین پہ تھے، وہ میڈیا پہ دھونس تھی۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم نہ ان کو ٹھیک کہہ سکتے ہیں اورنہ ان کی آواز کو غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے روکے جانے کی حمایت کر سکتے ہیں۔ اس لیے ایسی چیزوں کو کانفلیٹ (conflate) نہ کیا جائے۔ پاکستان کے اردو بولنے والے پاکستان کا اثاثہ ہیں۔ الطاف حسین کو اگر ووٹ مل جائیں تو وہ ان کے نمائندہ ہیں اور اگر کراچی یا حیدر آباد اور ہمارے دوسرے ملک کے شہروں کے رہنے والے، اردو بولنے والے الطاف حسین کو ووٹ نہیں دیتے تو الطاف حسین ان کے نمائندہ نہیں ہوں گے۔ الطاف حسین یا جو ہمارے بلوچ دوست ہیں جو کچھ ان کے ساتھ ہوتا ہے جو ہمارے قوم پرست سندھیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ جو ہمارے بلاگرز کے ساتھ ہوتا ہے اس کو یہ فرقہ واریت والے معاملے اور مذہبی دہشت گردی کے ساتھ کانفلیٹ (conflate) کرنا، دراصل 21 دسمبر 2014ء کے اس موقف کی حمایت کرنا ہے جو اکیسویں آئینی ترمیم میں مذہبی دہشت گردی کو صرف دہشت گردی قرار دے کے سیاسی کارکنوں کو اس میں لپیٹنا چاہتا ہے۔ ہمارے (سوال کرنے والے) بھائیوں کو اندازہ نہیں ہو رہا کہ یہ آرگومنٹ ان کے خلاف جا رہا ہے۔

اینگر۔ سانحہ چلاس کے شہدا کے لواحقین کے زخم ’میں آگیا ہوں‘ کے بعد پھر تازہ ہو گئے ہیں۔ ان کو کیا تسلی دوں۔

وجاہت مسعود۔ اس ملک میں وہ راستہ نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ چلاس میں، جھنگ میں یا لاہور میں ،ایف سی کالج سے باہر یا کراچی کی کسی سڑک پر، کسی کو اس کے عقیدے کی وجہ سے گولی کا خطرہ نہ ہو۔ اس کے لیے بات کرنی پڑتی ہے۔ چلاس کے شہید ہوں یا پارا چنار کے شہید ہوں۔ اعتزاز احسن ہوں یا شبیر حسین شاہ گجرات یونیورسٹی میں ہوں۔ راشد رحمن ملتان میں ہوں یا سول آئی سرجن لاہور کا ہو، محسن نقوی کے بارے میں، نام لے دیا ہے دوستوں نے، ان کو اندازہ نہیں ہے، جس رات محسن نقوی کو شہید کیا گیا، لاہور ہی میں یہ واقعہ ہوا تھا، میں اس وقت اخبار کے دفتر میں تھا اور مجھے اس کی کچھ ایسی تفصیل یاد ہے جو صحافیوں کو اپنے کام میں معلوم ہو جاتی ہے۔ محسن نقوی تو کہتا تھا ہمیں خبر ہے عزیزو یہ کام کس کا ہے۔ تو آپ بھی پہچانو بھائی۔ پہچانو۔ محسن نقوی تو کچھ اور کہہ رہے تھے۔

عمار کاظمی:  یک طرفہ بیانہ پبلش کرنے کی وجہ؟

وجاہت صاحب۔ وہ کوئی یک طرفہ بیانیہ نہیں ہے۔ دو لائنوں میں نوٹ لکھا ہوا ہے۔ ہم سب سے کہہ رہے ہیں ، یہ کوئی مشاعرہ نہیں ہے کہ تقدیم تاخیر کا مسئلہ ہو۔ جیسے جیسے جو جو موقف آئے گا وہ بھی شائع کیا جائے گا۔ صرف شرط یہ ہے کہ کوئی تشدد پہ نہ اکسائے، کوئی کسی کے خلاف اشتعال نہ دلائے، کوئی کسی کی مذہبی دل آزاری نہ کرے، مولانا احمد لدھیانوی کے بارے میں جو تحریر رپورٹ کی گئی ہے اس میں یہ ساری چیزیں نہیں تھیں۔ امن کی بات کی جائے، ہم آہنگی کی بات کی جائے، اور یہ بات کی جائے کہ آئیے میز پر بیٹھ کر یہ طے کریں کہ اس ملک میں عقیدے کی بنیاد پر جو مختلف گروہ ہیں ان مین مل جل کر جینے کے کیا راستے نکالے جا سکتے ہیں۔

عمار کاظمی:  سوال کیا گیا ہے کہ ان کی لائن آف ڈیفنس اتنی شیلو ہے کہ جو ان سے اختلاف کرے اسے لبرل طالبان کہ دیتے ہیں۔

وجاہت صاحب۔ لفظوں کے انتخاب سے تو معلوم ہوتا ہے کہ تامینہ مرزا ہیں۔ یہ ہمارے ہم سب پر لکھتی بھی ہیں۔ نوجوان خاتون ہیں۔ بہت ہی قابل احترام ہیں اور ہم ان کی جرات کو بہت احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ امن کے لیے آگے چلنے کی بات کو کمزوری نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس بات پر غور کریں کہ جو جنگ چاہتا ہے، جنگ وہی ہارتا ہے۔ انسانی تاریخ میں جنگ کو آئیڈلائز کرنے والی قومیں جنگ نہیں جیتا کرتیں۔ جو امن چاہتے ہیں، انہیں جنگ کرنا بھی آتی ہے۔ تو ازراہ کرم اتنی آسانی سے فیصلے نہ دیں۔ ٹوجو، ہٹلر اور مسولینی جنگ نہیں جیت سکے۔ جن پہ جنگ مسلط کی گئی تھی، وہ جنگ جیتے کیونکہ وہ امن کے لیے لڑے تھے، جنگ امن کے لیے لڑی جاتی ہے۔ وقت بتاتا ہے۔ آج بھی اور آئندہ بھی ایسے نہیں ہو گا۔ ابھی یہ قصہ ختم نہیں ہوا۔ ہمارے دوست ایسے بات کر رہے ہیں کہ جیسے یہ سب ماضی کا حصہ بن چکا۔ یہ لڑائی ابھی جاری ہے۔ ابھی ہمارے 14 فروری کو لاہور میں چیئرنگ کراس پر ستر افراد گرائے گئے ہیں۔

عمار کاظمی:  کافر کافر والی تقریر جو سب مجاہدین کے موبائل میں ہے حضرت یہ لدھیانوی ساحب ہی کی ہے کیا؟

وجاہت مسعود۔ ہم تو کافر کے لفظ ہی کو تسلیم نہیں کرتے بھائی۔ انہوں نے اس انٹرویو میں ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ اور ہم سب پر چھپنے والے انٹرویو کی انہوں نے تردید بھی نہیں کی۔

اینکر۔اگر چول کا لفظ آپ نے پچھلے دنوں سٹیٹس دیا تھا اگر چول کا لفظ پبلکلی استعمال کرنا بدتہذیبی ہے تو ڈھیلے کردار میں لپٹی لڑکیاں جیسے عنوانات کے طنزیہ مضامین کیا مرقع ادب میں شمار ہوتے ہیں۔

وجاہت مسعود ۔ میں نے اپنی وال پہ کہا تھا کہ میری وال پہ یہ لفظ نہیں چاہیے مجھے۔ ہمارے لوگوں کو کچھ لفظوں کے مفہوم ہی معلوم نہیں ہیں۔ میں کسی کے بارے میں ایسے کہنا نہیں چاہتا۔ وہ جو الفاظ استعمال کرتے ہیں وہ سیاسی مکالمے کے الفاظ نہیں ہیں۔ مجھے کوفت ہوتی ہے۔ میں نے کہا تھا کہ میری وال پر نہ کرو۔ آپنی وال پر جو چاہو کہو۔ پنجابی ، اردو یا دنیا کی کسی بھی زبان کو ہم اس لیے پسند کرتے ہیں کہ اس کو انسان بولتے ہیں۔

اینکر۔ پنجابی سکولوں میں پڑھائی جانی چاہیے۔

وجاہت مسعود۔ نہیں۔ میں اس کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ میں خود پنجابی پڑھا ہوں۔اس میں ہم عصر علوم کا ذخیرہ نہیں ۔ اس کا ہمارے بچوں کے روزگار میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا۔ پنجابی میں ہم ان کو کیا پڑھائیں گے۔

اینکر۔ بلھا ، وارث شاہ ہیں۔

وجاہت مسعود۔ شاعری کی بنیاد پر قومیں ترقی نہیں کرتیں۔ ادھر بھی آپ حافظ اور خیام پڑھا کے دیکھ لیں فارسی میں۔ زبان وہ ترقی کرے گی جس میں علم جنریٹ کیا جا رہا ہے۔ اس لیے پنجابی ، ہندی ، فارسی، سندھی یا پشتو کا معاملہ ہی نہیں ہے۔

عمار کاظمی:  جب ہم علم کو ٹرانسلیٹ ہی نہیں کریں گے ریجنل لینگوئج میں تو کیسے ہو گا۔

وجاہت مسعود۔ علم کو ٹرانسلیٹ کرنے کا معاملہ نہیں ہے بھائی۔ علم کو اسیملیٹ (assimilate) کرنے کا سوال ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم علم کے فوائد کو ٹرانسفر کرنا چاہتے ہیں۔ جو علم کے بنیادی مفروضے ہیں ان کو رزسٹ (resist) کر رہے ہیں۔ بیسک پاسولیٹ (Basic Postulate) جو ہیں ماڈرنٹی (modernity) کے، ماڈرن اپسٹمالوجی (علمیات) کے ، ہم انہیں رزسٹ کر رہے ہیں۔ ہم انہیں غلط کہہ رہے ہیں۔ ہماری جو علمی پسماندگی ہے وہ اس وجہ سے ہے ۔ اس وجہ سے نہیں ہے کہ ہم ارد و پڑھتے ہیں یا پنجابی پڑھتے ہیں۔ اردو، پنجابی یا سندھی کے نام پر کوئی سیاست کرنا چاہتا ہے تو ضرور کرے ۔

اینکر۔ تین زبانوں کا بوجھ تو ہو گئی نا  تو ماں کی جو زبان ہے اس میں کیوں نہ تعلیم دی جائے۔

وجاہت مسعود۔ ماں کی زبان، میرے لیے پھر ماں کی زبان کیا ہو گی۔ میری ماں تو سندھی بولنے والی تھی اور باپ پنجابی۔ یہ بحثیں بہت پرانی ہو چکی ہیں۔ یہ اب غیر متعلقہ ہو چکیں۔

اینکر۔ استغاثے کی کامیابی ، ناکامی اپنی جگہ مگر وزیراعظم اور ان کا خاندان اپنی شفافیت ثابت کرنے میں ناکام رہا ۔ جس طرح کی جج منٹ آئی ہے ، سوائے برطرفی کے سب کچھ کہہ دیا گیا۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ وزیراعظم کو ہائی مورل گراﺅنڈس لیتے ہوئے اس پر استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

وجاہت مسعود۔ سیاست ہائی مورل گراﺅنڈس پہ نہیں ہوتی۔ قانون کے لفظ پہ ہوتی ہے۔ جہاں تک شفافیت کا تعلق ہے میں تو اپنی شفافیت نہیں ثابت کر سکتا۔ شفافیت کے لیے آئین میں باسٹھ تریسٹھ رکھا ہے اس کے تحت چلتے ہیں، میں نے تو آج ہی کالم میں لکھا ہے کہ وہ تو پھر بیلی پور سے بنی گالا تک چلتا ہے۔

عمار کاظمی:  ہم نے ایک چھوٹا سا سروے بھی کیا میں نے خود بھی کنڈکٹ کیا۔ میرا یہ ماننا ہے کیونکہ 97 سے وابستہ ہوں اخبارات سے ، وہاں جو سروے ٹیلی ویژن چینلز پر دکھائے جاتے ہیں یا پلڈاپ کے سرویز ہیں ان پر کافی سوالات ہوتے ہیں۔ کیا وزیراعظم جس کو نااہل قرار دیا گیا اس کے لیے گاڈ فادر کا لفظ استعمال کرنا چاہیے تھا تو اکثریت کی رائے تھی نہیں کرنا چاہیے تھا۔ دوسرا جو سوال تھا وہ یہ تھا کہ وزیراعظم جو ہے کیا آپ پاکستان میں پاناما لیکس کے فیصلے سے مطمئن ہیں لوگ۔ تو لوگوں کی اکثریت جو تھی انہوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ جو ڈیشری کی بات کررہے تھے کہ لوگ جوڈیشری پہ اعتراض کرتے ہیں ، مطلب جوڈیشری کی ساکھ کہاں جاتی ہے یہاں۔

وجاہت مسعود ۔ ساکھ تو اس ملک میں ہر ادارے کی تباہ ہو گئی ہے سمیت جوڈیشری کے۔ جب معاشرے پہ بندوق نافذ کی جاتی ہے تو ہم سب جو ہیں بائی ڈیفالٹ  collaborator ہو جاتے ہیں۔ ڈی فیکٹو گورنمنٹ ہم سب کو سوائل (soil) کر دیتی ہے۔ ہم سب کا دامن گندا ہوا ہے ۔اس میں نہ صحافی بچا ہے، نہ جج بچا ہے، نہ جرنیل بچا ہے۔ ہمارے دوست یہ کیا باتیں کرتے ہیں ، پاناما پہ مطمئن ہیں یا نہیں ہیں ۔ پہلے یہ تو پتہ کر لیں کہ پاناما کیا کس نے ہے۔ میمو گیٹ کس نے کیا تھا۔ دھرنا کس نے کروایا تھا؟

اینکر۔ پاناما تو انٹرنیشنل سکینڈل ہے۔

وجاہت مسعود۔ سیاست میں سامنے آنے والے موقع سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ انی شیٹو کق اچک لیا جاتا ہے تو معاف کیجئے گا منصور اعجاز کا کالم بھی فنانشل ٹائمز میں چھپا تھا 10 اکتوبر 2011 ءکو ۔

اینکر۔ دنیا بھر مین پانامہ پر بات ہوئی ہے

وجاہت مسعود ۔بھئی وہاں تو پاشا صاحب نہیں بیٹھے ہوئے ناں۔ وہاں تو آئی جے آئی نہیں بنائی جاتی ناں ۔

اینکر۔میری رائے غلط ہو سکتی ہے مگر لاہور کے صحافیوں کی اکثریت کا جھکاﺅ نواز شریف کی طرف معلوم ہوتا ہے جبکہ دوسرے صوبوں میں ہمیں یہ چیز بہت کم دکھائی دیتی ہے خاص طور پر پیپلز پارٹی کو کراچی کے میڈیا سے وہ گنجائش نہیں ملتی جو لاہور کے صحافیوں سے نواز لیگ کو ملتی ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں۔

وجاہت مسعود۔ سادہ سی بات ہے۔ صحافی طاقت کے ساتھ چلتے ہیں ۔اگر کراچی میں پیپلز پارٹی موجود ہوتی تو جیسے سکھر کا صحافی پیپلز پارٹی کا ساتھ دیتا ہے سائیں بھوتارکا ویسے ہی لاہور کا صحافی نواز شریف کا ساتھ دیتا ہے۔ یہ قصے جو ہیں یہ سیاسی طاقت کے ساتھ متناسب ہوتے ہیں۔ اسی لاہور شہر میں بھٹو صاحب کے سینکڑوں جانثار تھے ۔ جب پیپلز پارٹی کی وہ نسل ہی باقی نہ رہی یا پیپلز پارٹی کو موقع ہی نہیں دیا گیا۔ (میرا ذاتی خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کو ڈیمج کیا گیا۔) پنجاب کے لوگوں کا نواز شریف کے ساتھ معاملہ پنجابی ہونے کا نہیں ہے ۔ پنجابی مفاد کا معاملہ کسی سیاسی جماعت سے ماورا ہے۔ ورنہ تو اپنے عمران خان صاحب بھی پنجابی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پنجاب سے ووٹ پڑے تھے۔ جس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست پنجاب کے مفادات کے ساتھ الائن کرتی تھی ، پنجابی اس کا ساتھ دے رہے تھے۔ ولی خان صاحب کو بھی بہت احترام دیا۔ اصغر خان صاحب کو بھی کندھوں پر اٹھایا تھا۔ معاملہ نواز شریف یا زرداری صاحب کا نہیں ہے ۔ معاملہ فیڈریشن میں پنجاب کی بالادستی کا ہے۔ اور پنجاب کی بالادستی میں بھی شمالی پنجاب کے پانچ اضلاع کی بالادستی کا ہے۔ اس لیے اس کو تناظر میں رکھیں اس کو کسی لسانی گروہ پر الزام تراشی کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

عمار کاظمی:  سوال کیا گیا ہے کہ کنزرویٹو صحافی تو ہمیشہ سے دائیں بازو کی جماعتوں کے حامی رہے ہیں اور مسلم لیگ نواز کو یہ ایڈوانٹج بھی رہا کہ ماضی میں جماعت سے ایک طویل انڈرسٹینڈنگ کے باعث جماعتی میڈیا بھی ان کا سپورٹر رہا ہے مگر اس میں کتنی صداقت ہے کہ لاہور کے لبرل سیکولر سمجھے جانے والے صحافی جو ماضی میں سوشلسٹ سمجھے جاتے تھے آج ان کا جھکاﺅ بھی پیپلز پارٹی کی بجائے نوازلیگ کی طرف ہے۔

وجاہت مسعود۔ایک تو یہ “سمجھے جاتے تھے” کا جو ٹکڑا ہے ، سوال کرنے والے بھائی نے اپنے آپ کو اونچے سنگھاسن پر رکھا ہے ۔ ان کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ اس کے لیے کوئی سرکم سیزن یا بپٹائز (circumcision or baptise) نہیں کیا جاتا۔ جو تھے وہ تھے۔ یہ سمجھے جانے والا Syntax  استعمال نہیں کرنا چاہیے ۔ دائیں بازو کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد آج بھی میاں صاحب کے ساتھ ہے اور جو لوگ خود کو دائیں بازو کے لوگ نہیں سمجھتے اگر وہ میاں صاحب کی حمایت کر رہے ہیں تو مجھے اس کی وجہ نہیں معلوم ۔ میں اپنی وجہ بتا دیتا ہوں۔ مجھے خود نہیں معلوم کہ میرا تعلق دائیں بازو سے ہے یا بائیں بازو سے۔

عمار کاظمی: نجم سیٹھی ، امتیاز اور آپ سے کبھی ہمیں نواز لیگ کے خلاف ہارڈ ہٹنگ تنقید سننے کو نہیں ملی جبکہ عمران خان کے ہر دوسرے عمل پر آپ لوگوں کی طرف سے تنقید کی جاتی ہے۔ چاہے وہ طالبان کو دفتر کھول کر دینے کی بات ہو یا طالبان خان کا ٹائٹل۔

وجاہت مسعود ۔ میرا بہت دل چاہتا ہے کہ میں میاں نواز شریف پر تنقید کروں لیکن اپریل 1993 ءسے مجھے موقع نہیں دیا جا رہا کہ میں ان پر تنقید کروں۔ نجم سیٹھی اور امتیاز عالم کا سوال تو ان سے پوچھا جائے ۔

اینکر۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ایز میٹر آف پرنسپل ہم تنقید نگاروں کا ، صحافیوں کا ،خصوصاً کالم نگاروں کا ، جو تنقید کا ہدف ہونا چاہیے وہ حکومت وقت ہونی چاہیے نہ کہ اپوزیشن۔

وجاہت مسعود۔ میرا حکومت وقت ہی ہدف ہے ۔اس بات کو ہی تو سمجھئے۔ میں اس سے آگے نہیں جا رہا۔ پچھلے سوال میں بھی میں یہی کہہ رہا تھا ۔ یہ کچی اور پکی سرکار کا معاملہ ہے۔ وزیراعظم بینظیر بھٹو تھی، حکومت پتہ نہیں کس کی تھی۔ تو جس کی حکومت ہوتی ہے، اسی کی مخالفت ہوتی ہے۔

اینکر۔ جو بیانیہ چوہدری نثار اور وفاقی حکومت کا مولانا احمد لدھیانوی صاحب کے بارے میں ہے وہی آپ کا بھی ہے۔ کیا یہ تاثر درست نہیں کہ آپ مسلم لیگ نواز کی لائن ہی ٹوہ کر رہے ہیں۔

وجاہت مسعود۔ اگر بھائی نے کہا ہے تو آپ ان سے کہہ دیں کہ اچھا بھائی ایسے ہی ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا جواب جو ہے وہ بدقسمتی سے ذرا زیادہ تیکھا ہو جاتا ہے۔

عمار کاظمی:  یہ جو آپ سمجھتے ہیں کہ ایک طرف ہم فرقہ وارانہ سیاست کرنے والوں سے بات کر رہے ہیں کانفیکٹ ریزولوشن کے لیے دوسری طرف صاحب لوگ جو ہیں وہ کراس بارڈر والوں سے بات کر رہے ہیں کانفلکٹ ریزولوشن کے لیے، تو سبھی کو سپیس اپنی اپنی جگہ مل رہی ہے ۔ کیا یہ دونوں کا مشترکہ ہدف نہیں بن جاتا۔

وجاہت مسعود۔ پاکستان کی قسمت دو بیانیوں میں سمجھوتے سے جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان میں جغرافیائی درستی (territorial revision) کا مدعا اٹھایا ہی انہوں نے ہے جن کا مقصد ملک کے اندر سیاسی بالادستی قائم رکھنا ہے۔ بالادستی تو نرم لفظ ہے۔ اصل بات تو اجارہ داری ہے۔

(ختم شد)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments