کیا آپ کا مسئلہ کرپشن ہے؟


بوسٹن کی ایک یونیورسٹی نے ایسا تھری ڈی پرنٹر بنا لیا ہے جو صرف چودہ گھنٹے میں ایک مکان تعمیر کر دے گا۔ ضروری سامان پرنٹر کے اندر ڈالیں اور آدھے دن میں پورا گھر آپ کے قدموں میں۔ روبوٹ قسم کی یہ مشین چاند یا مریخ پر جانے والوں کے لیے وہاں گھر تعمیر کرنے میں مدد دے گی اور زمین پر اگر زلزلہ آندھی طوفان آتا ہے تو اس تباہی کے بعد بھی عوام کے گھر بنانے میں مددگار ہو گی۔ چودہ گھنٹے کیا ہوتے ہیں؟ دیہاڑی دار مزدوروں کو بلا کے شروع کیا جائے تو پہلے چودہ گھنٹوں میں سامان تک جمع نہیں ہو گا، آزمائش شرط ہے۔ اب یوں ہے کہ یاران تیز گام منزل تک پہنچ چکے ہیں اور ادھر رمضان شریف کی آمد آمد ہے، وہ گھر جو وہاں چودہ گھنٹے میں بن کے کھڑا ہو چکا ہے اسے یہاں تیس دن تک چلانا ایک آزمائش ہو جائے گی۔ وہ سیب جو سو یا ڈیڑھ سو روپے کلو تھا وہ تین سو اور چار سو کے دام پر ہے، مرغیوں کا ریٹ روزانہ کی بنیاد پر سٹاک ایکسچینج کی طرح بڑھتا گھٹتا ہے جس میں صارف کی مندی کا خصوصی رجحان شروع ہو چکا ہے۔ آلو اور ٹماٹر جو غریبوں کا آخری آسرا ہیں، ان پر بھی الحمدللہ ایک ماہ پہلے ہی ظلم ٹوٹ چکا ہے تو ایسے میں تھری ڈی پرنٹر اور چودہ گھنٹے میں بننے والے گھر کی خبریں بس الف لیلوی قصے لگتے ہیں۔

موسم بہتر ہوتا ہے تو لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کی خوش خبری سنا دی جاتی ہے، جس دن سورج نے ذرا آگ برسائی اس دن کوئی بھی حکومت ہو سب کے دعوے موم کی طرح پگھل کر ووٹ دینے والوں کی آنکھوں پر جمے ہوتے ہیں۔ یہی معاملہ رمضان میں بھی ہو گا۔ ایک روزہ دار بے چارہ دفتر سے تھکا ہارا گھر آئے گا، لیٹتے ہی پنکھے بند اور دماغ کی بتی کھلے گی تو جیسی بددعا دل سے نکلے گی اس سے خدا بچائے۔ بجلی کا مسئلہ گذشتہ الیکشن میں حکمران جماعت کی ٹاپ پرائیورٹی تھا لیکن دلی ہنوز دور است۔ بلکہ دلی تو شاید قریب ہو بھی جائے بجلی کا کوئی سین پارٹ اگلے پانچ برسوں میں بھی سیدھا ہوتا نظر نہیں آتا۔ یہی معاملہ پیٹرول کا ہے بلکہ پیٹرول اور بجلی تو موجودہ حکومت کے سیسمو گراف بن چکے ہیں۔ جب تک حالات خراب ہیں پیٹرول کے دام یکساں رہتے ہیں اور بجلی بھی برابر آتی ہے، جیسے ہی معاملات قابو میں آئے بھاؤ بڑھانا اور دکھانا دونوں پھر سے شروع ہو جائیں گے۔

عوام جانتے ہیں کہ جمہوری حکومتیں اپنے قیام سے لے کر اگلے الیکشن تک ہر طرح کے مسائل کا شکار رہتی ہیں۔ انہیں ہمدردی بھی ہوتی ہے، ووٹ بھی اسی لیے دوبارہ دیتے ہیں، سہ بارہ دیتے ہیں لیکن کب تک ایسے ہی چلے گا؟ سوال پنکھا جواب سڑک، سوال ٹیوب لائٹ جواب ٹرین، سوال سیب جواب لیپ ٹاپ، سوال پیٹرول جواب موبائل فون، سوال گندم جواب چنا، نہ ہرگز نہیں، چنا بھی اب باوا جی کے مول ملتا ہے، گندم کے سوال کا جواب فی الوقت ہوا ہے، کھائیے، پئیں موج اڑائیں اور اس سے سستی صرف خاموشی ہے۔

اس وقت جتنی بھی پارٹیاں پاور گیم کا حصہ ہیں، ان کے نزدیک عوام کی بنیادی ترجیحات کرپشن کا خاتمہ، طاقت کا توازن، بین الاقوامی تعلقات، دن کی روشنی اور رات کی روشنی کے جلسوں میں لوگوں کی حاضری، مینار پاکستان اور ٹوئٹر پر دئیے گئے بیانات، اگلے الیکشن کا جوڑ توڑ، مخالف فریق کی خواتین پر جملہ بازی وغیرہ ہیں۔ ایسا نہیں ہے مرشدو، ایک عام آدمی جو بے چارہ فجر کی نماز پڑھ کر خدا کی زمین پر رزق تلاش کرنے نکلتا ہے اسے شام کرنا دودھ کی نہر کھود نکالنے جیسا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور اس سے زیادہ مشکل خالی ہاتھ گھر آنا ہوتا ہے جو کبھی دشمن کو بھی دیکھنا نصیب نہ ہو۔ اس سب کے بعد جب گھر میں بجلی نہ ہو، سبزی پھلوں کے ریٹ میں دیہاڑی پوری ہو جائے، کھانا پکے تو دوا نہ ہو، دوا آ جائے تو اگلے دن کے آٹے کی فکر ہو، ایسے میں بندہ کون سے وعدے وعید دیکھے گا، اس کی جانے بلا، بوم بسے یا ہما رہے اسے تو چاند میں بھی روٹی دکھتی ہے یار، یہ سب بھرے پیٹ کے جھگڑے ہیں، سیاست کے وعظ کامیاب معیشت کے بغیر ادھورے ہیں۔

ٹی وی چینلز لگا کر دیکھ لیجیے، اخبار پڑھیے، سوشل میڈیا میں جھانکیں، قوم کے بنیادی مسائل تین چار نظر آئیں گے۔ خود کو سب سے زیادہ عابد و زاہد ظاہر کرنا، سیاسی معاملات پر رائے زنی کرنا، مختلف تزویراتی گہرائیوں میں ڈوب کر ان کی خبر لانا، سی پیک سے شروع ہو کر گدھوں کی ایکسپورٹ پر بات ختم کرنا یا پھر گھما پھرا کر صبح اور شام کے شوز میں عوام کو نچا کر ان میں تحفے بانٹنا۔ دیکھیے عام گھروں کے مسئلے یہ نہیں ہیں، وہ اس سب کو دیکھ کر بہل تو سکتے ہیں لیکن ان کا معیار زندگی وہیں رہے گا جہاں پچاس برس پہلے تھا۔ روٹی کپڑے اور مکان کے نعرے پر سیاست شروع کرنے والے بھی آج اس مسئلے سے منہ موڑ چکے ہیں لیکن، گر یہ نہیں تو بابا ساری کہانیاں ہیں۔

کوئی بھی سیاسی جماعت اس مرتبہ ایک گوشوارہ بنا سکتی ہے۔ جمادی الثانی میں سبزی، مرغی، پھل اور دالوں کی قیمت نوٹ کیجے اور عین پندرہ رمضان پر کیجیے، جو فرق سامنے آئے گا، وہ ان گھروں کے جینوئن مسائل میں سے ایک ہے جنہیں ہر جلسے میں آپ یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کا اصل پرابلم آپ کے مخالف ہیں۔ بھئی یہاں کا مسئلہ گیس کی بلاتعطل فراہمی ہے، بجلی چوبیس گھنٹے نہ ملنا ہے، صاف پانی کا حصول ہے، مہنگا کپڑا ہے، مہنگی سلائی ہے، مہنگے سکول ہیں، مہنگی کتابیں ہیں، مہنگی دوائیں ہیں، مہنگا پیٹرول ہے، مہنگی خوراک ہے، اس طرف کوئی جھانکتا بھی نہیں ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ توجہ نہ دینے کے باوجود جیتنے والا جیتتا بھی ہے اور انہیں لوگوں کے ووٹ پر جیتتا ہے جو سارا دن پسینے سے گیلی قمیص میں کام کرتے ہیں اور پھر بھی شام کو اگلے دن آنے والا کوئی بھی خرچہ سوچ کر ان کی پیشانی عرق آلود ہوتی ہے۔

تو کل ملا کر یوں ہے کہ دنیا کے ایک خطے میں تھری ڈی پرنٹر چودہ گھنٹے میں گھر کھڑا کر دیتا ہے، بیس برس پہلے بھیجا گیا خلائی جہاز سیارہ زحل کے حلقوں میں داخل ہونے والا ہے، شیشے کی بوتلوں سے بیٹریاں بنانے کی تیاری ہو رہی ہے، مکمل مصنوعی طریقے سے آرٹیفیشل رحم میں بھیڑ کا بچہ پیدا کیا جا رہا ہے، تارکول کی جگہ پلاسٹک کی سڑکیں بنانے کے تجربے ہو رہے ہیں، آخری سفید گینڈے کا سوگ منایا جا رہا ہے یا مریخ پر زندگی ڈھونڈی جا رہی ہے اور دوسرا خطہ زمین پر موجود زندگیاں ذاتی رجحانات کے نام پر مٹانے کو باؤلا ہوا پھرتا ہے، سفید ہاتھیوں کو اپنے کندھوں پر سوار رکھتا ہے، پورے ملک میں تارکول کی ندیاں بہتے دیکھتا ہے، زچگی کے دوران خون روکنے کی دو پیسے والی دوا نہیں فراہم کر پاتا، شیشے کی بوتلیں آج بھی صرف جھگڑوں میں زیر استعمال لاتا ہے، زحل عطارد اور مشتری پر جانے کا سوچنے کی بجائے ان سے زائچے نکلوا کر چونچ بنتا ہے اور پچاس ساٹھ برس نوکری کے بعد جب گھر بنا چکتا ہے تو ایک مہینے کا بجٹ اور اس کے بعد عید کے اخراجات اس کی طبیعت صاف کر دیتے ہیں۔ وہاں کرسمس، ہالووین اور بلیک فرائیڈے وغیرہ پر عظیم الشان سیلیں لگتی ہیں اور ادھر تیوہاروں سے پہلے ہی دکانداروں کے تیور دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ ابھی شاکر شجاع آبادی کے تین حسب حال ماتمی شعر اور سلام رخصت؛

غریباں دی دعا یا رب خبر نئیں کن کریندا ہیں (مالک، غریبوں کی دعا پتہ نہیں کہاں جاتی ہے)

سدا ہنجواں دی تسبیح کوں پھریندیاں شام تھی ویندی (آنسوؤں کی تسبیح پھیرتے پھیرتے شام ہوئی جاتی ہے)

کڈھئیں تاں دکھ وی ٹل ویسن کڈھئیں تے سکھ دے ساہ ولسن (کبھی تو دکھ ٹلے گا اور سکھ کا سانس پھر سے آئے گا)

پلا خالی خیالاں دے پکیندیاں شام تھی ویندی (صرف خیالی پلاؤ پکاتے پکاتے شام ہوئی جاتی ہے)

انہاں دے بال ساری رات روندین بھک توں سمدے نئیں (ان کے اپنے بچے تمام رات بھوک سے سو نہیں پاتے، روتے ہیں)

جنہاں دی کہئیں دے بالاں کوں کھڈیندیاں شام تھی ویندی (امیروں کے بچے پالتے اور کھلاتے جن کی شام ہوئی جاتی ہے)

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain