کرپشن کی تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی


کہا جاتا ہے کہ عوام کو چاہیئے کہ کرپشن نہ کریں اور اسی طرح کی اور بہت سی باتیں جن کی توقع صرف عوام سے کی جاتی ہے۔ مختصراً یہ کہ عوام کو سدھرنا چاہیئے یعنی الٹی گنگا بہنی چاہیئے۔ جس گھر کے سربراہان ہی ٹھیک نہ ہوں تو اس گھر کے بچوں کو بگڑنے کا پورا حق ہے۔ گھر کی سلطنت کو کامیابی سے چلانے کے لئے اس کے سربراہان کو پہلے خود کو درست کرنا پڑتا ہے پھر بچوں سے توقع کی جا سکتی ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ صحیح راستہ پر چلیں۔ پیسے کی ہوس نے انسان کو اندھا کر دیا ہے۔ غریب، غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور امیر، امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ کوئی کتنا بھی امیر ہو جائے مگر اس کی پیسے کی ہوس ختم نہیں ہوتی بلکہ جتنا پیسہ آتا ہے ہوس بھی اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔ غریب عوام کا خون چوس چوس کر امراء نے اپنی جیبیں بھر لی ہیں۔ ٹیکس پر ٹیکس جونکوں کی شکل میں بے چارے محنت کش عوام کے جسموں سے مسلسل خون چوس رہے ہیں۔ ایک ماچس کی تیلی سے لے کر ایک گھر تک کا ٹیکس عوام سے لیا جاتا ہے مگر آخر کیا وجہ کے ہمارا ملک قرضوں کے بوجھ تلے ہی دبتا چلا جا رہا ہے؟ دنیا میں اور بھی ممالک ہیں جو آئی ایم ایف سے قرضہ لیتے رہے مگر پھر آخر ایک دن اپنے پیروں پر کھڑے ہو ہی گۓ۔ ایک ہم ہیں جو آئی ایم ایف کی لاٹھی پکڑ کر دن بدن معذور ہوتے ہوئے پاکستان کو گھسیٹ رہے ہیں۔ زرداری کے دور حکومت میں آئی ایم ایف سے 22 ارب ڈالر قرضہ لیا گیا جب کہ نواز شریف کے دور حکومت میں آئی ایم ایف سے 80 ارب ڈالر قرضہ لیا گیا۔ اس کے برعکس ترکی کی مثال لے لیجئے۔ 2004 میں جب طیب اردگان نے ترکی کی حکومت کی باگ دوڑ سمنبھالی اس وقت ترکی پر 5۔23 بلین ڈالر کا قرض تھا۔ لیکن 2012 میں نہ صرف یہ کہ طیب اردگان نے سارا قرضہ واپس کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اگر آئی ایم ایف کو قرضہ چاہیئے تو اب وہ ہم سے لے سکتا ہے۔

اور ایک ہم ہیں جو قرضوں کے بوجھ تلے اس طرح زمین بوس ہو کر رہ گئے ہیں کہ چاہیں بھی تو صدیوں تک سر اٹھا کر نہیں جی سکتے۔

یہاں تک تو بات عوام کے بے قصور ہونے کی بلکل بجا ہے مگر اس تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔ اللہ نے ہر انسان کو عقل سے نوازا ہے۔ کیا اچھا، برا، غلط یا صحیح ہے سب اپنی عقل اور سمجھ بوجھ سے دیکھنا اور سوچنا چاہیئے۔

پولیو ختم کرنے کی مہم کے لئے پاکستان میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی، جس کو امریکہ لیڈ کر رہا ہے، کو پاکستان سمیت بہت سے ممالک عطیات دیتے ہیں۔ جتنے عطیات دنیا بھر سے جمع ہوتے ہیں اس کا ٹوٹل کر کے، بل گیٹس کو بتایا جاتا ہے۔ اور وہ رقم چاہے کتنی بھی زیادہ ہو،بل گیٹس تمام ممالک سے جمع شدہ رقم سے دگنی رقم اس کمپنی کو ہر سال بھیجتا ہے۔ بل گیٹس ایک غریب لکڑہارے کا بیٹا، آج امریکہ کا امیر ترین آدمی ہے۔ اس نے پڑھنے کی جگہ نہ ہونے کے باعث، سیورج کے بڑے بڑے پائپوں میں دن رات بیٹھ کر تعلیم مکمل کی۔ اگر ایک غریب بل گیٹس امریکہ جسے ملک کا امیر ترین آدمی بن سکتا ہے تو ہمارے ملک کے غریب عوام میں کتنے بل گیٹس پیدا ہو سکتے ہیں۔ بس ضرورت جاگنے کی ہے۔

بے حسی، حسد اور نا اتفاقی، یہ ایسی چیزیں ہیں جنھوں نے حکمرانوں کو اس قوم کو لوٹنے میں بے انتہا مدد کی ہے۔ کہنے کو تو پاکستان کا مطلب کیا، لاالٰہٰ الا اللہ، مگر عمل اس کے بلکل الٹ ہیں۔ ہمارے دین نے ہمیں بات بات پر انسانیت، بھائی چارے، پیارومحبت اور اتفاق و اتحاد سے رہنے کا درس دیا ہے۔ مگر یہاں تو حساب ہی الٹا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں ایک ہی مذہب کے ماننے والے اتنے فرقوں میں بٹے ہوئے ہوں۔ یہاں تک کے ‘مسجد’ جسے خدا کا گھر کہا جاتا ہے، وہ بھی الگ الگ فرقوں میں بٹ گئی ہے۔ خدا کے گھر کو بھی فرقہ واریت کی آگ نے تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم کیسے مسلمان اور کیسے پاکستانی ہیں جن کے شر سے مسجدیں بھی محفوظ نہ رہیں۔ ایک فرقے کے لوگ دوسرے فرقے کی مسجد میں نماز نہیں ادا کرتے۔ مساجد بھی بٹ گئیں، امام بھی بٹ گۓ۔ یہاں تک کہ یہ بھی ہونے لگا کہ ایک فرقہ کے لوگ دوسرے فرقہ کی مسجد کو ویران کرنے کے لئے مسجد کی چٹائیاں، پنکھے اور جو سامان بھی نمازیوں کے لئے موجود ہوتا ہے، چرا کر لے جاتے ہیں۔ کیا اس سے زیادہ افسوس ناک اور شرم ناک بات بھی کوئی ہے کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر خدا کا گھر بھی چوری سے محفوظ نہیں رہا ؟ کیا پرانے وقتوں میں بھی ایسا تھا ؟ ہر گز نہیں، مشترکہ مساجد ہوتی تھیں اور سب ایک ہی جگہ مل کر نماز ادا کرتے تھے۔ کوئی تیری میری مسجد نہیں تھی۔ مگر ہم یہاں بھی بے قصور ہیں۔ جب کوئی قوم اس حد تک بگڑ جائے تو اس پر طرح طرح کے عذاب تو آئیں گے ہی۔ فیض نے کیا خوب کہا ہے۔

چلتے ہیں دبے پاؤں کوئی جاگ نہ جاۓ

غلامی کے اسیروں کی یہی خاص ادا ہے

ہوتی نہیں جو قوم حق بات پہ یکجا

اس قوم کا حاکم ہی بس اس کی سزا ہے

خدارا ایک ہوجائیں۔ جب تک پوری قوم ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوتی اس وقت تک ہم اپنے کسی بھی مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ فرقہ واریت اور تعصب پسندی سے نکلیں گے تو کچھ سمجھ پائیں گے۔ ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ہم کس ڈگر جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے سے ہمیں فرصت ہو تو ہمیں کچھ نظر آئے یا محسوس ہو۔ ہمارے سروں پر مہنگائی سمیت نہ جانے کن کن چیزوں کا تیزاب گر رہا ہے مگر ہم ایک دوسرے کی شہ رگ کاٹنے میں اس قدر گم ہیں کہ ہمیں اس کی تکلیف کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ ایک ہمیشہ اکیلا ہی ہوتا ہے مگر ایک اور ایک دو نہیں گیارہ ہوتے ہیں۔ جب تک ہر کوئی اپنی اپنی جگہ، پوری طرح نہ سہی، کسی حد تک ہی درست ہو جائے تو ملک کی حالت بہت بدل جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).