فوجی مداخلت اور قانون کی حکمرانی


 پاکستان میں فوج اقتدار میں مداخلت کیوں کرتی ہے۔ فوجی جرنیلوں پر ہر طرح کی الزام تراشی کر دینا اس سوال کا بہت معصومانہ جواب ہے۔ جنہیں ہم بڑی آسانی سے طالع آزما، جاہ پرست اور ہوس اقتدار کے مارے ہوئے قرار دے دیتے ہیں، یہ “غدار وطن” اسی وطن کی فوج کے بہترین سپاہی ہیں جو جان ہتھیلی پر رکھے ساری عمر مادر وطن کی حفاظت میں گذار دیتے ہیں۔ اگر ان لوگوں کی حب الوطنی مشکوک ہے تو پھرجانے کون محب وطن ہے۔ اور بالفرض محال یہ چنیدہ افراد ایسے ہی بے کردار ہیں تب بھی یہ سوال اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے کہ یہ کس طرح سے ممکن ہے کہ چند موقع پرست جرنیل سیاسی قوتوں کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر بار بار کامیابی سے اقتدار پر قابض ہوتے رہیں۔

کچھ امور فطری قوانین کے تابع ہوتے ہیں۔ پانی کا اوپر سے نیچے کی طرف بہنا فطری ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ پانی اوپر سے نیچے نہ بہے تو آپ کو رکاوٹ لگانی ہو گی۔ اور اگر رکاوٹ لگانے کے باوجود بھی پانی اوپر سے نیچے بہہ رہا ہے تو اس بغاوت کا الزام پانی کے سر نہیں ہو گا۔ خرابی اس رکاوٹ میں تلاش کرنا ہو گی جو آپ نے پانی کے راستے میں کھڑی کی تھی۔اقتدار کا معاملہ بھی ایسا ہی فطری ہے۔ اقتدار طاقت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ شروع زمانے سے سلطنتیں اور ریاستیں فوجی طاقت کی بنیاد پر قائم اور ختم ہوتی آئیں۔ چنانچہ فوجی طاقت اقتدار کی فطری بنیاد ہے۔ بقول وجاہت مسعود صاحب، انسانی تاریخ کی ابتدا ہی سے فوجی طاقت اقتدار کا سر چشمہ رہی ہے اور جدید فلسفہ حکومت نے اس عسکری قوت پر سیاسی قوت کی بالادستی قائم کی۔ سوال یہ ہے کہ یہ بالا دستی کس طرح ممکن ہوئی ۔

ایس ایم ظفر اپنی کتاب “عدالت میں سیاست “میں لکھتے ہیں کہ “یہ مسئلہ غور طلب نہیں کہ فوج مداخلت کیوں کرتی ہے بلکہ حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ ایسا منظم اور طاقت کا حامل ادارہ مداخلت کیوں نہیں کرتا ہے۔ گویا دریافت کرنے کی بات یہ ہے کہ جن ممالک میں فوجی مداخلت نہیں ہو رہی اس کی کیا وجہ ہے؟ بالفاظ دیگر وہ کون سے عناصر اور معاشرے کی ہئیت ترکیبی ہے جو فوجی مداخلت کو آسان بنا دیتی ہے۔ دانشوروں اور مورخین کا کہنا ہے کہ جس معاشرے میں انصاف ہو، سیاسی اور انتظامی ادارے مضبوط ہوں، وہاں فوج خواہش کے باوجود مداخلت کرنے کا سوچ ہی نہیں سکتی۔ دلیل کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ سیاسی اداروں کی کمزوری، انتظامیہ کی بے راہروی اور کرپشن جو انصاف کو کھا جائے فوجی مداخلت کو راہ دکھاتی ہے”۔

جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بارہ صفحوں کی ایک کتاب میں یہ سطر لکھ دینے سے طاقت عوام کو منتقل ہو جاتی ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا۔ عسکری قوت سماجی اداروں کی زیر دست اس وقت ہوتی ہے جب معاشرہ قانون کی حکمرانی کو تسلیم کرتا ہے۔ اور معاشرے پر قانون کی حکمرانی تب نافذ ہوتی ہے جب معاشرے کا حاکم طبقہ قانون کے احترام کی ریت اپناتا ہے۔جب ایک طاقتور شخص قانون شکنی کرتا ہے تو وہ اپنے سے طاقتور کی قانون شکنی کے لئے جواز پیدا کرتا ہے۔ قانون کی حکمرانی کی غیر موجودگی میں طاقت کی حکمرانی قائم ہو جانا بالکل فطری عمل ہے۔ اس اصول کے مظاہر ہم اپنے گھروں اور محلوں میں بھی دیکھتے ہیں۔ جس گھر کا سربراہ منصف نہیں ہوتا اس گھر کی اولاد بغاوت پر اتر آتی ہے۔ جن علاقوں میں قانون عام افراد کو جان و مال کا تحفظ نہیں فراہم کرتا ان علاقوں میں بدمعاشی کا کلچر جنم لیتا ہے۔ اور جس ملک میں عدالت طاقتور کے مقابلے میں کمزور کو انصاف نہیں دیتی وہاں فوج اقتدار پر قابض ہوتی رہتی ہے۔

سیاسی حاکمیت کی بنیاد قانون کی حکمرانی پر ہے۔ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کی صورت یہ ہے کہ کسی کمزور یا غریب آدمی سے پوچھ دیکھیں کہ کیا اسے یقین ہے کہ کسی طاقتور شخص کے ظلم کا شکار ہونے کی صورت میں قانون اس کی شنوائی کرے گا۔ اس کا جواب نہیں میں ہو گا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں طاقت کا قانون چلتا ہے۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ عوام پر طاقت کی حکمرانی قائم ہو اور اقتدار کے ایوان دستور کے سائے تلے چین کی بنسی بجاتے رہیں۔ دستور کی کتاب جمہوریت کا ڈیم نہیں ہے کہ بٹن دباؤ تو بجلی آ جائے گی۔ جمہوریت مذہب کی طرح ہے۔ یہ نافذ بعد میں کی جاتی ہے۔ پہلے قبول کی جاتی ہے۔ جب تک ہمارے سیاستدان جمہوریت قبول نہیں کریں گےتب تک ملک میں جمہوریت نافذ نہیں ہو گی اور عسکری قوت سیاسی اقتدار میں دخیل رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).