صلیبی جنگیں لڑنے والے اچھے منصف نہیں بن سکتے


یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ سیکھنے کا عمل گود سے گور تک جاری رہتا ہے۔ سماجی رویّوں کے بارے میں مجھے پہلا اہم سبق 1967ء میں ملا۔

میں اُس وقت کیڈٹ کالج حسن ابدال میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ہمارے انگلش ٹیچر، عبدالرؤف ایک انگریز سکالر کی معاونت کرتے تھے جو، زبان کے استعمال اور ہمارے سماجی رویّوں کے تعلق کو سمجھنا چاہتا تھا۔ یہ معاونت اس نوعیت کی تھی کہ رئوف صاحب چھٹی کا پورا دن اُس انگریز پروفیسر کے ساتھ راولپنڈی کے گلی کوچوں اور بازاروں میں گھومتے پھرتے گزارتے۔ لوگ چاہے اُردو، پنجابی یا پوٹھوہاری زبان میں بات کریں، اس کا ترجمہ انگریز کو سناتے۔ رئوف صاحب نے اس تحقیق کا کلاس میں ذکر کیا تو ہمیں اس مطالعے کی افادیت سمجھ نہ آئی۔ رئوف صاحب نے مثال کے طور پر گزشتہ اتوار کا واقعہ سنایا۔ وہ انگریز کے ساتھ راول جھیل میں کشتی رانی کر رہے تھے کہ کشتی بُری طرح ڈول گئی۔ ملاح کے ساتھ اُس کا نو عمر بیٹا بھی تھا۔ اُس نے گھبرا کر باپ سے کہا، ”ابا ہم ڈوب گئے‘‘۔ رئوف صاحب نے ہمیں بتایا کہ جب بیٹے کے ردِ عمل کا ترجمہ انگریز نے سنا تو وہ بہت محظوظ ہوا۔ اُس نے رئوف صاحب سے کہا کہ اگر یہ کشتی دریائے ٹیمز میں ڈولتی تو انگریز بچہ زیادہ سے زیادہ یہ کہتا، “Father, the boat is giving us trouble” وہ صرف کشتی کے ڈولنے کا ذکر کرتا اور اِس انتہا تک نہ پہنچتا کہ ”ابا ہم ڈوب گئے‘‘۔ اِس واقعے کو سنانے کے بعد رئوف صاحب نے کہا: “Our problem is that we quickly jump to conclusion” یعنی ہم بہت عجلت میں نتائج اخذ کرتے ہیں۔ ہمیں اِس رجحان پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

دوسرا سبق 1981ء میں ملا۔ انسان کو اپنی کمزوری کا ادراک نہیں ہوتا۔ خود راستی دماغ پر سوار ہو تو رویے کی کمزوری کا از خود احساس کرنا ممکن نہیں رہتا۔ کوئی دوسرا ہی توجہ دِلا سکتا ہے۔ خوش قسمتی سے مجھے ایک بہت محترم شخصیت سے سیکھنے کا موقع ملا۔ میں اسسٹنٹ کمشنر تھا اور وہ فیصل آباد میں سیشن جج۔ میرے فیصلے کی اپیل اُن کی سامنے پیش ہوئی۔ فوجداری مقدمے میں معمولی جرم پر سخت سزا سنائی تھی۔ سیشن جج فضل کریم صاحب نے اُسے کالعدم قرار دے دیا۔ وہ مجھ پر مہربانی فرماتے تھے۔ ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے پتے کی بات کی۔ کہنے لگے، ”ظفر! فیصلے میں راست بازی کا جوش و جذبہ شامل ہو جائے تو قانون سے تجاوز ہو جاتا ہے۔

تیسرے سبق کا تعلق 1988ء سے ہے۔ واقعہ، مرحوم جسٹس ٹوانہ سے متعلق ہے۔ وہ سیالکوٹ میں سیشن جج تھے۔ میرے پیشرو ڈپٹی کمشنر، شاہد نجم ایک ایماندار اور باصلاحیت افسر تھے‘ مگر ٹوانہ صاحب کے ساتھ اُن کے تعلقات کشیدہ رہے۔ شاہد نجم نے بتایا کہ کشیدگی کی وجہ ٹوانہ صاحب کا رویّہ ہے۔ وہ ہر کسی کو کرپٹ اور بد دیانت سمجھتے ہیں۔ میری تعیناتی کو دو دن ہی گزرے تھے کہ سیشن جج کی طرف سے ایک خط موصول ہوا۔ خط، عدالتی حکم نامے کی صورت تھا۔ فرمایا کہ ایک قتل کے کیس میں دو ڈی ایس پی صاحبان نے بد دیانتی کی۔ اُن کی تفتیش میں چند ملزمان کو الزام سے بری قرار دیا گیا۔ مدعی فریق نے تفتیش سے اتفاق نہیں کیا اور سیشن جج کی عدالت میں پرائیویٹ استغاثہ دائر ہوا۔ شہادت ریکارڈ کرنے کے بعد سیشن جج صاحب نے فیصلہ کیا ہے کہ جن لوگوں کو پولیس کی تفتیش میں بے گناہ قرار دیا ہے اُنہیں عدالت میں طلب کیا جائے۔

اِس بنا پر ٹوانہ صاحب نے نتیجہ اخذ کیا کہ پولیس کے دونوں تفتیش کار، ڈی ایس پی بد دیانت ہیں۔ اُنہیں نوکری سے نکالا جائے۔ تعمیل کی ذمہ داری اُنہوں نے بطور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مجھے تفویض کی اور حکم دیا کہ میں اُن کے احکامات پر حکومت پنجاب سے عمل درآمد کروائوں۔ یہ ڈیوٹی بھی لگائی کہ ہر ہفتے ایک پراگریس رپورٹ میرے دستخطوں سے اُن کی عدالت میں پیش کی جائے۔

پولیس کے ایس پی، رائو اقبال سے رابطہ کیا۔ وہ ایک نیک افسر تھے۔ کیس فائل لے کر میرے پاس آئے اور میں اِس نتیجے پر پہنچا کہ پولیس کی تفتیش بادی النظر میں درست تھی۔ مشکل یہ تھی کہ ٹوانہ صاحب کے حکم سے کیسے نپٹا جائے۔

اُن سے ملاقات کی درخواست بھجوائی تو دو دن بعد کا وقت ملا۔ موقعہ ملنے پر اُن کی شخصیت کا جائزہ لیا تو وہ نہایت ایماندار اور راست باز شخص نظر آئے۔ مسئلہ تھا تو اُن کی سوچ میں ایک انتہا پسند رویے کا۔ اپنے علاوہ سب کو بد دیانت سمجھتے تھے اور الزام کی حتمی تحقیق سے پہلے ہی ملزم کو مجرم سمجھ لیتے تھے۔ میں نے مودبانہ گزارش کی کہ فی الوقت آپ نے مدعی کا پرائیویٹ استغاثہ، صرف سماعت کے لیے منظور کیا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ غلط تفتیش کرنے والے ڈی ایس پی صاحبان کو نوکری سے نکالنے کا معاملہ آپ کے حتمی فیصلے تک مؤخر کر دیا جائے۔ اُنہوں نے کرخت لہجے میں جواب دیا ”میں نے گواہوں کے بیانات لکھے ہیں اور مجھے کوئی شک نہیں کہ جن ملزمان کو تفتیش میں بے گناہ قرار دیا گیا ہے وہ اصلی مجرم ہیں‘‘۔

ایک بد دیانت کو قابو کرنا آسان ہوتا ہے مگر ایک سر پھرے ایماندار سے ٹکر لینا مشکل۔ اپنی انا کو سلا دیا۔ لہجے میں مزید لجاجت پیدا کی ۔ عرض کیا کہ قانون کے بارے میں آپ سے بحث نہیں ہو سکتی۔ میں سورج کو چراغ نہیں دکھا سکتا۔ فیصلہ آپ کر چکے ہیں اور میں آپ کی حکم عدولی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں حکومت پنجاب کو آپ کے حکم پر عمل درآمد کے لیے مجبور کروں گا۔

میری بات سننے کے بعد اُن کے رویے میں کچھ نرمی آئی۔ اُنہیں کم از کم یہ یقین ہو گیا کہ میں بطور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اُن کا تابع فرمان ہوں۔ چائے منگوائی گئی۔ میرے پیش رو کی بد تعریفی اور میری سمجھ داری کی تعریف ہوئی۔ گفتگو کے دوران ماحول موافق ہوا تو عرض کی ”سر! کیا یہ ممکن ہے کہ پرائیویٹ استغاثہ میں جب ملزم فریق، گواہوں پر جرح کے بعد اپنا قانونی دفاع پیش کرے تو آپ استغاثہ خارج بھی کر سکتے ہیں؟‘‘ اُنہوں نے کچھ دیر سوچا۔ پھر کہنے لگے ”ہو تو سکتا ہے مگر یقین ہے کہ ایسا نہیں ہو گا‘‘۔ وہ نرم ہوئے تو چند لمحوں بعد میں اُنہیں قائل کرنے میں کامیاب ہوا۔ ٹوانہ صاحب رضامند ہوئے اور وہی ہوا جس کی توقع تھی۔ آخر کار استغاثہ خارج ہو گیا۔ اِس واقعہ سے سبق ملا کہ جب تک شہادت کو چھان پھٹک نہ لیا جائے، غلط فیصلے کا احتمال باقی رہتا ہے۔ حتمی فیصلے کو مکمل تحقیق تک مؤخر کرنا ہی بہتر ہے۔

یہ واقعات اتنے عرصے کے بعد مجھے کیوں یاد آئے؟ پاناما کیس کا فیصلہ میڈیا میں زیرِ بحث ہے۔ ماہرین کی رائے اپنی سیاسی پسند اور ناپسند کی دو انتہائوں کے درمیان جھول رہی ہے۔

فضل کریم صاحب فیصل آباد میں سیشن جج تھے۔ بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج بنے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اُنہوں نے کتابیں بھی لکھیں اور لمز یونیورسٹی میں درس و تدریس سے منسلک رہے۔ اُنہوں نے 1981ء میں میرے خود راستی کے جذبے کے تحت‘ شوق انصاف کو بے لگام ہوتے دیکھا تو مجھے سمجھانے کے لیے فرمایا: “Crusaders do not make good judges.” اس جملے کا آسان فہم ترجمہ یہی ہو سکتا ہے کہ ”صلیبی جنگیں لڑنے والے جنگجو اچھے منصف نہیں بن سکتے‘‘۔

 بشکریہ روز نامہ دنیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood