عوام کے ساتھ کوئی کھیل نہ کھیلا جائے!


پاکستان جب کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا میں تو اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ ہمارا کپتان ایک دن صدر یا وزیر اعظم ضرور بنے گااور اب تو لگتا ہے چند ماہ بعد ہمارا کپتان چمکتی دمکتی شیروانی اور چمکتے دمکتے و شرمائے ہوئے چہرے کے ساتھ وزیر اعظم کا حلف اٹھا رہا ہوگا۔ میں توبھئی اس دن مٹھائی کا ٹوکرا بانٹوں گا۔ ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے، بخشو نے سگریٹ کا ایک طویل کش لگایااور دھویں کے مرغولے چھوڑتے ہوئے، مستقبل کے خوش کن مناظر میں جھانکنے لگا۔ رمضو سن تو سب کچھ رہا تھا لیکن چپ بیٹھا رہا، جب بخشو نے دوبارہ سگریٹ کا ایک طویل کش لگایا اور پرسکون انداز میں مسکراتے ہوئے رمضو کو دیکھا تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اب رمضو سے نہ رہاگیا، ترنت بولاجو بھی من میں آتا ہے بے تکان بولتے چلے جاتے ہو ایسا کون سا خواب دیکھ لیا کہ کپتان کی حلف برداری کا نقشہ کھینچ دیا۔ رمضو بھائی عدالت عظمی کا جے آئی ٹی پر عمل درآمد اور نگرانی کے لیے، نیا تین رکنی بنچ بن گیاہے اور ایک معززو فاضل جج نے تو ابھی سے کہہ دیا ہے کہ جے آئی ٹی کے کچھ ارکان ہم اپنی مرضی سے نامزد کریں گے۔ ایک اور معززو فاضل جج نے کہا ہے کہ ہمارے ساتھ کوئی کھیل نہ کھیلا جائے۔ بس ماہ دو ماہ کی بات ہے میں بھی یہیں ہو ں اور تم بھی، اپنے ہاتھ سے دیسی گھی سے بنا لڈو تم کو کھلاوں گا۔ رمضو بھی چپ رہنے والوں میں سے تو ہے نہیں فورا ًبولا، میرے جیتے جی تو ایسا ہونے سے رہا، یہ بال دھوپ میں ایسے ہی سفید نہیں ہوگئے ۔میں بھی عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں بندہ زمانے اور سیاست کی اونچ نیچ سے واقف ہو جاتا ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والا نہیں جس کی تمہیں خوش فہمی ہے۔ بخشو نے بھی فوری جواب دیا، رمضو تمہارا ایسا بولنا تمہاراحق بنتا ہے کیونکہ موٹر وے جو تمہارے علاقے سے گزرتی ہے۔

بخشو اور رمضو ہیں تو نائب قاصد اور چپڑاسی لیکن بعض دفعہ بات پتے کی کرجاتے ہیں۔ یہ نوک جھونک اکثر و بیشتر سننے کو ملتی رہتی ہے۔ نوکو جھونک بڑھ نہ جائے اس خاطرقدرے درشت لہجہ اختیار کرتے ہوئے دونوں سے کہا، اب تم دونوں چپ کرجاؤ، دفتری کام ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور اوپر سے تم دونوں کی فضول بحث ! ان دونوں کو تو چپ کرا دیا لیکن خود سوچ میں پڑگئے کہ جب ہوش سنبھالنے کی عمر تھی تو ملک میں ہر باشعور شخص کے ہوش اڑے ہوئے تھے کیونکہ ملک میں فوجی حکومت تھی اور جنرل ضیا الحق کی مطلق العنان حکمرانی اپنے عروج پر تھی۔ جیسے تیسے ہوش تو سنبھال لیا لیکن وہ وقت ہے اور آج کا، اکثر و بیشتر ہوش اڑانے والی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔ لڑکپن میں جب قدم رکھا تو سقوط ڈھاکہ کے زخم تازہ تھے۔ ہر کسی کو امید تھی کہ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ آنے کی دیر ہے بس، ایک دفعہ سقوط ڈھاکہ کے ذمے داروں کا تعین ہولے سب ٹھیک ہوجائے گا۔ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کا انتظار کرتے کرتے تین بچوں کے باپ بھی بن گئے تب 2000ء میں عوام کو سرکاری طور پر رپورٹ سے آگا ہ کیا گیا۔ سقوط ڈھاکہ کے ذمے دار اس وقت تک فوجی اعزاز کے ساتھ دفن بھی ہوچکے تھے۔

1996 ء میں بھی ایک کمیشن مرتضی بھٹو کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے بنا۔ کمیشن نے رپورٹ دی کہ قتل ایک سازش کے تحت ہوا ہے لیکن کمیشن سازشیوں کا تعین کرنے میں ناکام رہا۔ اسی طرح ایک کمیشن سابق چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری کے ساتھ پولیس اہلکار کی بدسلوکی کی تحقیقات کے لیے بھی جسٹس بھگوان داس کی سربراہی میں بنا اس کی بھی کوئی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔ 2011 ء کے جون میں صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنااس کی بھی کوئی رپورٹ جاری نہیں ہوئی۔ ایک کمیشن اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی اور امریکی آپریشن کے حوالے سے مئی 2011 ء میں جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں بنا۔ دو سال بعد جنوری 2013 ء میں حکومت کو رپورٹ پیش کردی گئی لیکن رپورٹ سے عوام کو اب تک آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔ حامد میر حملہ کیس کے لیے بھی کمیشن بنا۔ کمیشن نے حکومت کو تو رپورٹ دے دی لیکن عوام کو سوشل میڈیا پر رپورٹ لیک ہونے سے پتا چلا کہ کمیشن نے ذمہ داروں کا تعین کرنے سے معذرت کرلی۔

یوں تو قیام پاکستان سے لے کر اب تک نہ جانے کتنے تحقیقاتی کمیشن، ٹریبونل مختلف قومی سانحات کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے بن چکے ہیں لیکن نتیجہ ندارد بلکہ ذمہ دار آج بھی قوم کے سینے پر مونگ دلنے کے لیے چوکس ہیں۔ اس لیے حالیہ دو اہم قومی معاملات یعنی پانامہ لیکس اور ڈان لیکس کی رپورٹس کے حوالے سے رمضو کے موقف میں وزن نظر آیا کہ کچھ نہیں ہونے والا۔ عوام کو ہمیشہ لارا لپا دیا جاتا رہا ہے اس دفعہ بھی کچھ مختلف ہونے کی امید نہیں۔ ایسے میں عوام کی طرف سے بھی یہ مطالبہ سامنے آنے کی قوی امید ہے۔ ہمارے ساتھ کوئی کھیل نہ کھیلا جائے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).