بزرگ جیالے کا بلاول بھٹو کو پیغام


سیاسی جماعتوں کی طاقت عوام کی جڑت سے بنتی ہے۔ راسخ سیاسی نظریات سے لیس جماعتی کارکن جماعت میں موجود تنظیم کو ناقابل تسخیر بنا دیتے ہیں۔ اقتدار ہو یا انقلاب ، منزل خود چلی آتی ہے۔ راسخ نظریات ، نظم ، تنظیم اور بہتر حکمت عملی کا نام ہی جماعت ہے۔ سیاسی جماعت محض جھنڈوں اور نعروں کانام نہیں ہے۔ مختلف خیالات کے حامل لوگوں کے اجتماع کو جماعت قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ سیاسی جماعتیں سماج کی تعمیر کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ سیاسی تعلیم اور انسانی اخلاقیات کی بنیاد پر معاشرہ کی تشکیل کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی درجہ بدرجہ پرتوں میں معیار کو مدنظر رکھا جاتا ہے چونکہ سیاسی جماعت کے ذمہ داران نے قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے تعمیر کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔ اگر نااہل اور غیرمعیاری ذمہ داران ہوں گے تو پارٹی منظم اور فعال نہیں ہوسکے گی اور نہ ہی سماج کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔ وطن پاک میں تشدد ، انتہا پسندی اور عدم برداشت کے رجحانات میں اضافہ سیاسی جماعتوں کی کمزوریوں کا غماز ہے۔ جب سیاسی جماعتیں کمزور ہوں اور نئی قیادت کی تعمیر کا فریضہ ادا نہ کر رہی ہوں تو سماج میں نئی نئی جماعتوں کی بڑے پیمانے پر تشکیل ہوتی ہے۔ نظریات کی بھرمار سے سیاست ایک مذاق بن کر رہ جاتی ہے۔ سیاسی گفتگو کی بجائے لطیفہ گوئی ، فحش گوئی اور گالی گلوچ کا کلچر پروان چڑھتا ہے۔ آج ہمیں سماج میں سیاسی بے راہ روی ، لطیفہ گوئی اور اخلاقیات سے عاری بحثوں کے مظاہر کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لعنت بے شمار ، بے غیرت اور دیگر لغویات کی بہتات ہے۔ دلیل ، منطق ، سائنسی طرز فکر جیسے رویے ناپید ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بنتی بگڑتی ایسی صورتحال کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی اور عوامی جماعت ہونے کی بنا پر پیپلزپارٹی زیادہ قصور وار ہے۔بلکہ پیپلزپارٹی کا کردار مجرمانہ ہے۔ جس نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کی ہیں۔ آج بھی پیپلزپارٹی میں تنظیمی امور نقائص سے بھر پور ہیں۔ تنظیمی ڈھانچے نامکمل ہونے کے ساتھ بہت کمزور بنیادوں پر بنائے جا رہے ہیں۔ جو تنظیمی امور میں قیادت کی عدم دلچسپی کا مظہر ہے۔ حالانکہ پیپلزپارٹی کی نچلی سطح پر بہت تحرک اور جوش و خروش دیکھا گیا ہے۔ راولپنڈی کے علاقے اڈیالہ روڈ جو وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کے حلقہ انتخاب ہے میں پیپلزپارٹی کا بظاہر کوئی نام و نشان باقی نہیں رہا تھا۔ مگر بلاول کے میدان سیاست میں اترتے ہی اڈیالہ روڈ سے پیپلزپارٹی کے پرانے وابستگان میں سے راجہ اعجاز نے نعرہ مستانہ لگایا اور پارٹی کا ترنگا لے کر میدان میں نکل پڑے۔ گزشتہ روز یوم مئی کے موقع پر راجہ اعجاز نے ایک بڑے جلسے کا انعقاد کیا ، مہمان خصوصی پیپلزپارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل نیئر حسین بخاری تھے۔ جلسہ میں محنت کشوں ، پارٹی کارکنوں نے جوش و خروش سے شرکت کی۔ جلسے کی گہما گمی میں ایک بزرگ گلے میں مزدوروں کا سرخ جھنڈا ڈالے ہوئے نوجوانوں کی سی پھرتی سے انتظامی باگ دوڑ میں مگن تھا اور وقفے وقفے سے ساﺅنڈ سسٹم پر محنت کشوں کیلئے شہید بھٹو کی خدمات بھی بیان کر رہا تھا۔ دیکھا تو موصوف ماسٹر حسن اختر راجہ تھے۔ جو کچھ دن پہلے تک مرجھائے چہرے کے ساتھ اپنی بیماری کی روداد سناتے پھر رہے تھے۔ جنہیں اپنی دواﺅں کے علاوہ کچھ یاد نہیں تھا۔ احوال پوچھنے پر گویا ہوئے۔ کون کہتا ہے پیپلزپارٹی ختم ہوگئی ہے۔( چھاتی پر ہاتھ مارتے ہوئے) پیپلزپارٹی ہمارے دلوں میں ہے۔ مزدور کا بھٹو زندہ ہے۔ ماسٹر حسن اختر 1973 سے پیپلزپارٹی سے وابستہ ہیں۔ حقیقی نظریاتی جیالے ہیں۔ عدم بصارت کے باعث سنتے اور سناتے ہیں۔ سناتے کچھ زیادہ ہیں اگر کوئی پیپلزپارٹی کے خلاف بولے تو ماسڑحسن اختر میدان لگا لیتے ہیں۔ مخالف کو تو پھر بھاگنا ہی پڑتا ہے۔ معلوم نہیں خبریں کہاں سے پاتے ہیں۔ کہہ رہے تھے۔ بلاول کو لکھو کہ پارٹی کی تنظیم پر توجہ دے۔ ابھی تنظیم سازی ادھور ی ہے۔ جب تک تنظیم نہیں ہوگی پارٹی منظم نہیں ہوسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے اندرونی حالات کمزور ہیں۔ مضبوط تنظیم سے پارٹی میں نئی روح پھونکی جا سکتی ہے۔ ماسٹر صاحب کا بلاول کیلئے پیغام ہے کہ بلاول صوبائی صدور کو متحرک کریں۔ مرکزی قیادت تنظیمی دورے کرے اور یونین کونسل تک تمام تنظیموں کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).