نرگس ماول والا ۔۔۔۔ خوشبو  کو کوئی قید نہیں کر سکتا


جیو نرگس ماول والا! کائنات کی جہتوں کی دریافت میں میرا وجود بھی شامل کر کے ایک اور اعزاز میرے نام کردیا، تمہاری کامیابی قابل فخر ہے ،تم نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ مردوں کے معاشرے میں اپنا وجود منوانا مشکل ہے لیکن ناممکن تو نہیں اس صنفی برتری کے ماحول میں تمہاری جیت نے امید کے دئے روشن کر دئیے ہیں، بھلا خوشبو کو کوئی روک سکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 سوچتی ہوں تم بھی میری اور بہت سی دوسری خواتین کی طرح ان حالات کا مقابلہ کر کے یہاں پہنچی ہو تمہیں بھی کوئی پلیٹ میں سجی ہوئی تو نہیں ملی یہ کامیابی ، کچھ نہ کچھ قیمت تو اداکرنا پڑا ہوگا، چاہے وہ  سخت حالات ہوں یا محنت طلب کام، دشوار زندگی  اور معاشرہ کا ڈٹ کر مقابلہ سب ہی کا سامنا کیا ہو گا تم نے بھی تمہیں بھی ا س ابن آدم کے معاشرے میں اپنا وجود تسلیم کرانے کے، تم پر دہری ذمہ داری ہے کہ بیک وقت تم نے اپنی زندگی بھی جینی ہے اور اپنے اوپر لگا کم عقل، کم ہمت اور کم شعوری کا لیبل بھی ہٹانا ہے۔

لیکن کتنی ہی کثیف فضا ، گھٹن کیوں نہ ہو بھلا خوشبو کا راستہ کون روک سکا ہے، تمہارے میرے لئے اس ابن آدم کے معیار  ہمیشہ سے دہرا  رہا ہے، اگر میں اس کے گھر بیٹی کی صورت میں آ جاؤں تو قابل احترام و مقدس سمجھی جاؤں اور  اگر میں بیوی کی حیثیت سے داخل ہو خدمت گذار، وفا شعار ہونا میرا عین فرض ہے۔ اس ابن آدم کی بستی میں انداز نرالے ہی ہیں یہاں شیونگ ریزر سے پین کلر کی تشہیر تک میرا وجود استعمال کیا جاتا ہے لیکن اگر میں اس مقام سے ہٹ کر عاصمہ جہانگیر کا راستہ اختیار کروں تو  آزاد خیالی، بے باک سمجھی جاتی ہوں۔ یہ  خام خیال لوگ تصور کرتے ہیں  کہ جسمانی کمزوری اور  فطری ساخت میرے نقائص ہیں  جو ان کے خیال میں  میرے کم عقل ہونے کی دلیل ہیں  لیکن یہ نہیں جانتے  کہ جب یہ عقل اور وجود  اپنی افادیت اور اہمیت سے آگاہ ہوتا ہے تو پھر محض  سائن بورڈز  کی تشہیری مہم تک نہیں  رہتا یہ مجھے وزارت کے اعلیٰ منصب تک لے جاتا ہے۔

تاریخ اٹھاؤ ابن آدم اور بتاؤ کہ کب کون خوشبو کو قید کرسکا ہے۔ یہ جب پھیلی ہے اس نے پتہ دیا زند گی ہمت کا نام ہے، لطافت ہے اس وجود کے سبب، دیکھو ذرا تاریخ کے صفحات میں ایک جرنیل کا ذکر ہےجس نے ایک ثابت قدم عورت کو  ہرانا چاہا  لیکن کیا ہوا  آج دنیا اس شخص کو آمر، قانون شکن اور بنت حوا کو مادرملت کہتی ہے۔ یہ کب ممکن ہو سکا ہے کہ اونچے منصب پر بیٹھ کر اونچا مقام بھی مل جائے،  میں اور مجھ جیسی لاکھوں، ہزاروں، سیکڑوں خواتین ان کے جبری رویہ کو تبدیل کر نے کے لئے ان کی سوچ، ذہنیت کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لئے پرعزم ہیں ، کچھ جابر اٹھے تھے اپنی بہادری کے زعم میں اس وجود کو ختم کر سکیں جو جہالت کو اندھیرا ، ظالموں کو غلط کہنے کی ہمت رکھتا تھا ، علم کی روشنی سے جاہل کو چراغ دکھانا چاہتا تھا اسے اپنی تضحیک بری لگی  کہ ایک کم تر وجود ان کو آئینہ دکھا سکتا ہے انہوں نے چاہا اس کے وجود کو مٹادیں ، دنیا سے خاتمہ کردیں بھول جائے دنیا کہ کوئی گل مکئ بھی اس دنیا میں وجود رکھتی تھی لیکن کیا ہوا َ؟

بھلا خوشبو کو کون روک پایا اور ایسی پھیلی کہ دنیا کوعلم کا راستہ بتاتے ہوئے خلا میں پرواز کاراستہ بھی بتادیا کہ کس انداز سے کہکشاں تک سفر کیا جاتا ہے۔ جب  اس  وجود نے چاہا کہ دکھی دلوں کی دادرسی کرے ، دنیا کو ان بہادر مردوں کی داستان سنائے جس نے اس کی عزت کا گوہر چھین لیا ان کے پھول سے چہروں پر تیزاب پھینک دیا تو پھر دنیا نے جانا کہ مختاراں مائی بھی ہمت کر سکتی ہے ، شرمین چنائے بھی آسکر لاسکتی ہے۔

تو سمجھو اس خوشبو کو اے ابن آدم اونچے منصب پر فائز ہو کر ان پر حکومت کی جاسکتی ہے، اپنے عہدے کا استعمال  کرکے ان کی صلاحتیوں پر سوال اٹھا یا جاسکتا ہے، اپنے وسائل کا استعمال کرکے ان کی ترقی کا رواستہ محدود کیا جا سکتا ہے لیکن یاد رکھو کبھی کوئی اس خوشبو کو قید نہیں روک سکا یہ اپنا وجود اپنی اہمیت تسلیم کرالیتی ہے چاہے وہ فاطمہ جناح ہو، رعنا لیاقت،نسیم حمید ہو ارفع کریم اس یا پرزور قلم کی مالک کشور ناہید و فہمیدہ ریاض، نڈر سبین محمود ہو یا پاکستان کی ترقی کے لئے سرگرم اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی پروین رحمن،  ملک کا نظم و نسق سنبھالنے والی بے نظیر بھٹو ہو یا گھر کا منتظم میرے جیسی عام عورت ۔ کوئی کسی خو شبو کو قید نہیں کر سکتا۔

(خوشنود زہرا ماس کمیونکیشن میں ماسٹرز کرنے کے بعد ایک صحافتی ادارے سے وابستہ ہیں اور تعلیم کا سلسلہ تاحال جاری ہے، خوشنود زہرا کی خواہش ہے کہ تمام افراد کو بنیادی حقوق میسر آسکیں۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments