مریم نواز اور بلاول کو جیل جانا پڑے گا


یہ حقیقت ہے کہ پری چہرہ مریم نواز کی موجودگی اس روکھے سوکھے اور دن بہ دن پھیکے اور تنگ نظر ہوتے پاکستان میں کسی غنیمت سے کم نہیں۔ اور بلاول کی موجودگی بڈھے کھوسٹ انکل نما ہی نہیں بلکہ گرینڈ پا ہو چکے چہروں کے بیچ ایک فریش احساس کی طرح ہے۔ ان دونوں کی پاکستانی سیاست میں موجودگی ہوا کے ایک خوشگوار جھونکے کی طرح ہے۔ ویسے بھی یہ طے ہے کہ کوئی کتنا بھی جلے بھنے مگر ان دونوں نے ہر قیمت پر سیاست کرنا ہی ہے۔ مریم نواز کو تو خوش قسمتی سے حکومت کرنے کا بھی موقع مل گیا ہے۔ اتنی بڑی opportunity شاید ہی کسی خوش نصیب بچے کو ملی ہو کہ ملک کے وزیرِ اعظم تو ابا جی ہوں مگر کھیل کھیل میں اور لاڈ پیار میں بچہ اکثر وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ جایا کرے۔ ابا جی کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا کہنا ہے، بچہ الفاظ ابا جی کے لیے منتخب کرے۔ وزیراعظم ابا جی کس طرح بیمار پڑیں یہ بھی بچہ طے کرے اور جب ابا جی کو بیمار پڑنا سکھا دے تو خود ملکی معاملات کو چلائے۔ پوری کابینہ بچے کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑی رہے۔ سیاست دانوں کی ایسی قابل اولاد صرف پاکستان جیسے خوش نصیب ملک میں ہی ممکن ہے۔ اس لیے اس بچے کا بھی حق بنتا ہے کہ کبھی کبھی اگر وہ شرارت کرتے ہوئے اپنے بچپنے میں اندر کی بات باہر پہنچا دے تو اس قابل بچے کو زمانے کے سرد و گرم سے بچانے کے لیے پرانے وفاداروں کو سزا کے لیے زمانے کے حضور پیش کر دیا جائے۔

مریم نواز کو دیکھ کر مجھے ایک سنا ہوا دلچسپ واقعہ یاد آیا کرتا ہے۔

امیر امام صاحب پاکستان ٹیلی ویژن کے بڑے ناموں میں سے ایک تھے۔ ان کے آخری دنوں میں ہم جیو ٹیلی ویژن میں ایک ہی فلور پر بیٹھا کرتے تھے اور اکثر ان کے ساتھ گپ شپ رہتی تھی۔ ضیاء کے دور میں وہ پاکستان ٹیلی ویژن اسلام آباد سینٹر میں تعینات تھے۔ ایک دن سرکاری فون آیا کہ صدرِ پاکستان کی لاڈلی صاحب زادی ٹیلی ویژن سینٹر گھومنے کے لیے آنا چاہتی ہیں۔ ضیاء کی یہ صاحب زادی ذہنی طور پر ایک کمزور بچی تھی۔ باپ کی اتنی لاڈلی تھی کہ اس کا پسندیدہ بھارتی اداکار شتروگھن سنہا خصوصی طور پر پاکستان مدعو کیا جاتا اور سرکاری مہمان کی حیثیت سے صدارتی محل میں ٹھہرتا تھا۔ ضیاء کی یہ صاحب زادی اکثر سرکاری تقریبات کی تصویروں میں بھی باپ کے ساتھ بیٹھی نظر آتی تھی۔ پی ٹی وی کی سرکاری نیوز ریل میں بھی باپ کے ساتھ ساتھ نظر آ رہی ہوتی۔ سو صاحب زادی سرکاری پروٹوکول میں باوردی افسروں کے ساتھ اسلام آباد ٹیلی ویژن سینٹر پہنچیں تو بقول امیر امام صاحب کہ پروٹوکول دیکھ کر ہمارے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔

خیر اسی پروٹوکول کے ساتھ صاحب زادی کو ٹیلی ویژن اسٹیشن گھمانے کی ابتدا ابھی کی ہی تھی کہ صاحب زادی اچانک بضد ہو کر ڈٹ گئیں کہ مجھے تو قوم سے خطاب کرنا ہے۔ فوراً حکم کی تعمیل میں اسٹوڈیو میں ایک ٹیبل کرسی لگا دی گئی۔ صاحب زادی اڑ گئیں کہ یہ وہ کرسی نہیں ہے۔ جیسی ابو کی ہوتی ہے،  وہی کرسی چاہیے۔ ساتھ آئے افسران بھی صاحب زادی کے حکم کی تعمیل کی ہدایات دے رہے تھے، جس کی وجہ سے ٹیلی ویژن اسٹاف اور امیر امام صاحب کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ اصل کرسی حاضر کی گئی۔ کیمرے آن کیے گئے۔ صاحب زادی کرسی پر براجمان ہوئیں۔ اچانک فرمایا کہ قائداعظم کی تصویر کہاں ہے جو کرسی کے پیچھے لگتی ہے۔ فوراً تعمیل کی گئی اور قائداعظم کو بھی حاضر کیا گیا۔ پھر اچانک صاحب زادی کو یاد آ گیا کہ پانی کا گلاس کہاں ہے جو ابو کے سامنے رکھا ہوتا ہے، قوم سے خطاب کے وقت۔ اس کی بھی تعمیل ہوئی تو سوال آیا کہ پاکستان کا جھنڈا کہاں ہے؟ سو پرچمِ پاکستان بھی پیش کیا گیا۔ پھر حکم ہوا کہ پہلے قومی ترانہ بجاؤ۔ سو وہ بھی ہوا۔ اب کہیں جا کر صاحب زادی نے اس بدنصیب قوم سے خطاب فرمایا۔۔۔۔۔۔

ایک کمزور ذہن بچی کا وہ جو بھی خطاب تھا اسے رکارڈ کیا گیا۔ حکم ہوا کہ ٹیپ ایڈٹنگ کے بعد صدارتی محل بھجوا دی جائے۔ بقول امام صاحب، صاحب زادی روانہ ہوئیں اور ہم نے اپنے پسینے پونچھے اور فوری طور پر ٹیپ ایڈٹ کر کے صدارتی محل بھجوا دی۔

ایسے ہوتے ہیں ہمارے حکمرانوں کے نٹ کھٹ بچے۔ اوپر سے ان نٹ کھٹ بچوں کے ہاتھ میں ٹوئٹر جیسی غلیل اگر آ جائے تو پاکستان کیا چیز ہے، جرمنی تک نشانہ مارا جاتا ہے۔

ادھر بلاول کو بھی شریر بچوں کی طرح پڑوس کے انکلز کو چھیڑنے میں مزہ آتا ہے۔ ہر انکل تو مذاق نہیں برداشت کر سکتا نا۔ کچھ اور نہیں تو ابو سے یہ شکایت لگانے کا تو حق بنتا ہی ہے پڑوس کے انکلز کا کہ بھائی صاحب اپنے بچے کو سمجھائیں۔ ہمیں انکل انکل کہہ کر چھیڑتا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ہم عورتوں کو بھی وہ دکاندار بہت ہی برے لگتے ہیں جو آنٹی آنٹی کہہ کر بلاتے ہیں۔

میرا ان دونو‍ں بچوں کو مفت کا مشورہ ہے کہ اگر پاکستانی سیاست کا زہر پینا ہی ہے تو ایک بار جیل ضرور جاؤ۔ اس جیل نے پاکستان کو بڑے بڑے کمال کے لیڈرز، سیاسی ورکرز، کامریڈز اور ادیب و شاعر اور شاطر سیاست دان تک دیے ہیں۔ جیل کی تربیت گاہ میں جائے بغیر پاکستانی سیاست کا بھاری پتھر چوما ہی نہیں جا سکتا۔ پورا دھرنا بھی مل کر اٹھائے تو بھی نہیں اٹھتا۔

اگر مریم نواز کے شریف النفس اور انتہائی حساس اور نازک مزاج ابا جی ذرا جم کے جیل میں بیٹھتے تو آج یوں بار بار آواز بھر نہ آتی۔ ایک ٹھوکر مارتے لیہ کے جلسے میں مائک کو اور سچ مچ کے شیر کی طرح دھاڑ کر کہتے کہ میرے سر پر بندوق کی نوک رکھی ہے۔۔۔۔ بتاؤ میرے ساتھ مرو گے؟ عوام ہم آواز ہو کر کہتے کہ مریں گے۔ پوچھتے کہ جمہوریت کے لیے لڑو گے؟ عوام دھاڑتے کہ لڑیں گے۔ انہیں دکھی آواز میں اصلی شیر تے نقلی شیر کی مری ہوئی کہانی نہ سنانی پڑتی۔

جیل کا پروگرام بنانا مریم نواز کے لیے تو کوئی مشکل ہی نہیں۔ اڈیالہ جیل میں وزیراعظم ہاؤس سے ایک کال چلی جائے گی کہ صاحب زادی جیل میں کچھ وقت گزارنا چاہتی ہیں۔ ایک کھولی تیار کر دی جائے۔ بلاول کو البتہ تھوڑی سی مشکل پیش آئے گی۔ جیل جانے کے لیے بلاول کو اوپر کی منزل والے انکل کو انکل کہہ کر چھیڑنا پڑے گا۔۔۔ کہ دیکھیے انکل انکل۔۔۔ آسمان سے قمر جھانک رہا ہے ہمارے گھروں میں۔۔۔۔ پھر شاید جیل جانے کا کوئی بہانہ نکل آئے۔ مصیبت یہ ہے کہ اسے ابو نے سمجھایا ہوا ہے کہ کسے انکل کہنا ہے اور کسے سر کہنا ہے۔

مگر ان دونوں بچوں کو جیل کی تربیت کی بہت ضرورت ہے۔ باہر کی دنیا سے کٹ کر جیل کی کھولی میں جب بندہ پگھلتا ہے تو اپنے ہی پگھلے وجود کو نئے سرے سے مروڑ مروڑ کے بناتا ہے۔ کھولی کی تنہائی میں ایک عجب جہان بستا ہے! ننگے پاؤں، میلے پھٹے کپڑوں میں عوام نام کا ہجوم ملتا ہے جیل کی بند کھولی میں، جن کی رگوں میں خون نہیں ہیپاٹائٹس سی دوڑتا ہے۔ بے دم ہو کر کھٹمل زدہ بستر پر سیدھے پڑ جاؤ تو کھولی کی چھت پر وہ وہ الفاظ قطاریں بنائے گزر رہے ہوتے ہیں، جنہیں اگر عوام کے سامنے ادا کرو تو عوام آتش فشاں سے اُبلتا ہوا لاوا بن جاتا ہے۔ پھر نہ تو کارزارِ  سیاست میں کرکٹ کے میدان کے الفاظ بولنے کی ضرورت پڑتی ہے کہ وہ رہی ایمپائر کی انگلی اور یہ رہا کپتان اور نہ ہی ٹوئٹر پر جرمنوں کو بلاک کرنے کی نوبت آتی ہے۔ کھولی کی چھت پر دھمال ڈالتے الفاظ سے پھر  شاعر شاعری کے سُرخ ہار لیڈروں کے گلے میں ڈالتے ہیں مریم بی بی کہ ۔۔۔۔ ڈرتے ہیں بندوقوں والے، ایک نہتی لڑکی سے ۔۔۔۔۔اور یہ کہ ۔۔۔۔۔ نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں۔۔۔۔۔۔ چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سراُٹھا کے چلے۔۔۔۔۔ جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے۔۔۔۔۔۔ نظر چُرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے۔۔۔۔۔

ہیپاٹائٹس سی زدہ عوام کھولی کی سلاخوں کو جھنجوڑتے ہوئے ملتے ہیں ۔۔۔۔ کہ اٹھ اے دیدہ ور ۔۔۔۔اٹھ ۔۔۔۔ اور بول ۔۔۔۔بول کہ زباں اب تک تیری ہے ۔۔۔۔۔۔

کچھ نہیں کچھ نہیں تو بھی جیل کاٹ کر بندہ میکاولی کا کورس پاس کر کے میکاولین ہی بن جاتا ہے اور سب پر بھاری پڑ جاتا ہے۔ کم سے کم سیاست کی بساط پر چال تو چل سکتا ہے۔

مریم نواز اگر جیل کا کورس اعزازی نمبروں سے ہی پاس کر لیں تو کم سے کم نہ تو ابا جی کی ٹوئٹر سے جان جائے گی اور نہ خود انہیں ٹوئٹر کی غلیل سے غلط نشانے لگانے پڑیں گے۔  اور اگر بلاول نے جیل کاٹ لی تو اسے انکلز بچہ کہنا چھوڑ دیں گے۔ کیونکہ یہ جیل ہی تھی جس نے اس کی کم عمر ماں کا قد انکلز سے اونچا کر دیا تھا اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ کوئی اسے بچی کہے۔

اور یہ جو بختاور اور آصفہ کا نشانہ ٹوئٹر پر ٹھیک ٹھیک بیٹھتا ہے اس کی وجہ بھی یہ جیل ہی ہے۔ بیٹیوں نے اگر ماں کی انگلی پکڑ کر جیل کے چکر کاٹتے ہوئے بچپن کے دن گزارے ہوں اور ماں کی گود میں لیٹ کر نہتی لڑکی کا بندوقوں والوں سے سامنا کرنے کا معرکہ سنا ہو اور قید و بند کا کرب اور عذاب سنا ہو اور پولیس کی لاٹھی سے نانی کا لہولہان ماتھا تصویروں میں دیکھ رکھا ہو اور ننگی پیٹھ بینظیروں کو چوراہوں پر کوڑے کھاتے ہوئے سنا اور تصویروں میں دیکھ رکھا ہو اور پھانسی کا پھندہ کیا چیز ہوتا ہے، اس کی تصویر راتوں کو ماں کی آنکھوں کی نمی میں دیکھ رکھی ہو اور جمہوریت کے لیے قربانی کس قیامت کا نام ہے اور آمریت کا آسیب کس طرح پوری نسل کو آدم بوُ آدم بوُ کرتا ہوا نگل جاتا ہے، اس تجربے کو سن کر جوان ہوئی بیٹیوں کا نشانہ ٹوئیٹر کی غلیل سے اسی طرح ٹھیک ٹھیک بیٹھتا ہے۔ بلکہ کسی دن بہت ہی قریب کا نشانہ بھی نہ لے بیٹھیں یہ بچیاں۔

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah