ایک دن دانشور کے ساتھ


سوال: غمگین شیروانی صاحب ! پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ کا نام غمگین کیوں ہے ؟
جواب: میں ملک کے اندر آباد ی کے بے ہنگم پھیلاﺅ کو دیکھ دیکھ کر غمگین ہوا ہوں ، ورنہ پہلے تو تمکین تھا ۔
سوال: لیکن جناب خود آپ کے دس بچے ہیں ، اوپر سے آپ بڑھتی آبادی پر غمگین ہیں ۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟
جواب: (قہقہہ لگا کر ) کھلے تضادات ہی دنیا میں ہماری پہچان ہیں برخوردار۔ میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاﺅں کہ پچھلے ماہ محکمہ بہبود آبادی والے میرے پاس آئے اور مجھے سمجھانے لگے کہ ہم نے سنا ہے آپ کے دس بچے ہیں ۔ ملکی آبادی پہلے ہی زیادہ ہے ، لہٰذا اب آپ بس کریں ۔ میں نے کہا ہمیشہ دیر کر دیتے ہو کم بختو ! میرے سارے بچے شادی شدہ ہیں ۔ بیگم فوت ہو گئی ہے ، تمہیں اب یاد آیا ؟
سوال: غمگین شیروانی صاحب ! تاریخ کے علاوہ ملک کے سیاسی ، معاشی اور سماجی حالات پر آپ کی گہری نظر ہے ۔ یہ فرمائیں کہ آج کی اقتصادی ابتری ، امن و امان کی مخدوش صورتحال ،لاقانونیت ،شدت پسندی ، کرپشن اور بے روزگاری جیسے مسائل کا اصل ذمہ دار کون ہے ۔ کیا ہمارے سیاستدان ؟
جواب: جی نہیں ۔
سوال: تو پھر کیا بیوروکریسی اس کی ذمہ دار ہے ؟
جواب : نہیں ۔
سوال:کیا عسکری قیادت قصور وار ہے ؟
جواب: دیکھئے عزیز ! ملک کو اس حالت میں سیاستدانوں نے پہنچایا ہے ، نہ مولویوں نے ، نہ جرنیلوں نے ، نہ نوکر شاہی نے اور نہ ہی ججوں نے بلکہ ….ان سب نے مل کر یہ کارنامہ انجام دیا ہے اور سالہا سال کی مشترکہ جہد مسلسل کے بعد منزل پائی ہے ۔ آپ تو جانتے ہیں کہ جب اتنی ساری طاقتیں باہم متحدہوکرایک ہی صفحے پر آ جائیں اور مصمم ارادے کے ساتھ کسی مشن کے پیچھے پڑ جائیں تو وہ پایہ تکمیل تک ضرور پہنچتا ہے ۔
سوال: ملک پر اس مشن نے کیا اثرات مرتب کیے ہیں ؟
جواب: ( قہقہہ لگا کر ) ایک بارش نکاسی آب کے دعوﺅں کی ، ایک گرم دن بجلی کے منصوبوں کی اور ایک ٹویٹ سول ملٹری تعلقات کی قلعی کھول دیتا ہے ۔
سوال: ان مسائل کا حل کیا ہے ، کیا جمہوریت کا تسلسل ان کا حل ہے ؟
جواب: بالکل ہے ، لیکن مصیبت یہ ہے کہ جمہوریت کا وقفہ ذرا سا طویل ہو جائے تو تحریک بحالی آمریت کو ’ کھرک‘ شروع ہوجاتی ہے اور ٹی وی پر قوم سے خطاب ’میرے لذیذ ہم وطنو! السلام علیکم ‘ ….آ جاتا ہے ۔
سوال: معاف کیجئے ، لذیذ نہیں ، عزیز ہم وطنو کہا جاتا ہے ۔
جواب:صحیح لفظ لذیذ ہی ہے ۔ اس خوشذائقہ قوم نے جس طرح اپنے اوپر ”بنیادی جمہوریت “ کا جیم لگا کر اپنے آپ کو پیش کیا ، جس طرح اپنے تن پر ’ اسلامی نظام‘ کا مکھن لیپ کر کے اپنا وجود تر نوالہ بنایا اور جس طرح ’روشن خیالی‘ کے ٹماٹو کیچپ کے ساتھ اپنے آ پ کو ڈائننگ ٹیبل پر سجایا ، وہ کسی عزیز نہیں میرے عزیز ،لذیذ قو م ہی کا خاصا ہو سکتا ہے ۔
سوال :کیا آپ کا مطلب ہے کہ سب نے ہمیں کھایا ؟
جواب :سب نے ….لذیذ قو م اور مرغن سر زمین سے جہاں جرنیلوں نے استفادہ کیا ، وہاں سیاسی زعماء، مفتیان دین اور نوکرشاہی نے بھی ان پر خوب ہاتھ صاف کئے ۔
سوال :غمگین صاحب ! آپ نے تحریک بحالی آمریت کا ذکر کیا ہے ، یہ کون سی تحریک ہے ؟
جواب : تحریک بحالی آمریت بھی ایک مشن کا نام ہے ۔ یہ ان کا ”نظریہ“ ہے جن کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔ مفکرین سیاسیات کہتے ہیں کہ تحریک بحالی آمریت بنیادی طور پر جمہوریت ،سماجی انصاف ،مساوات اور شخصی حقوق کے خلاف جہاد کا نام ہے ۔
سوا ل :اس تحریک کی ابتدا کب ہوئی ؟
جواب:جب قدیم یونانی ریاستوں میں چند نامعقول افراد نے جمہوریت کے بیج کی تخم ریزی کر کے نظریہ آمریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تو اس کے ردِ عمل میں تحریک تحفظ آمریت کے بطن سے تحریک بحالی آمریت نے جنم لیا۔ تب سے آج تک اکابرین تحریک اپنے ارفع مقاصد کے حصول کے لیے کمربستہ ہیں۔
سوال :ہمارے ملک میں یہ تحریک کب شروع ہوئی ؟
جواب :بڑا اچھا سوال ہے ۔ وطن لذیذ میں تحریک بحالی آمریت کا آغاز تقسیم ہند سے قبل ہی اسی روز ہو گیا تھا ، جب تحریک کے کسی نابغے نے پہلی دفعہ ’ کافرِ اعظم‘ کا نعرہ مستانہ بلند کیا۔ دراصل مرغان تحریک کی عقابی نگاہوں نے قائد اعظم کے جمہوری چال چلن اور معقول افکارو نظریات کی بدولت بھانپ لیا تھا کہ وہ مفادات تحریک پر کاری ضرب لگانے کے درپے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ فاضل قائدین تحریک نے ’ قیام ناپاکستان ‘ کی سر توڑ مخالف کی مگر جب وطن وجود میں آ گیا تو اسے ’وطن لذیذ ‘ بنانے کی جدوجہد میں جت گئے ۔
سوال :ان مقاصد کے حصول کے لیے اکابرین تحریک کیا طریقہ کار اختیار کرتے ہیں ؟
جواب :اسے طریقہ واردات کہنا زیادہ مناسب ہے ۔ وہ جمہوریت کے وقفے میں اس کے پانی کومقدور بھر گدلا کرتے ہیں اور منتخب حکومت کے خلاف شکوک و شبہات ، افواہیں ، بے چینی ،نااُمیدی ، وسوسے اور ہیجان پھیلاتے ہیں ، تاوقتیکہ آمریت پھر سے جلوہ افروز ہو جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ اکابرین تحریک اپنے ظلِ سبحانیوں کے ہاتھ مضبوط کرنے اور ان کی پرلے درجے کی شرمناک حرکات اور خواہشات کو سند جواز مہیا کرنے میں زبردست آلہ کار کاکردار بھی ادا کرتے ہیں ۔
سوال :مثلاً؟
جواب :مثلاً یہ کہ جب کسی اورنگزیب عالمگیر نے اپنے کسی بھائی کو قتل کرانا ہو تو یہ اسے ملحد قرار دے کر واجب القتل ہونے کا فتویٰ حاضر کر دیتے ہیں ۔ کوئی اکبر اعظم درجن بھر شادیاں کرنا چاہے تو یہ اس کو بیس شادیاں کر سکنے کے حق میں فتویٰ مہیا کر دیتے ہیں اور جب کسی بھٹو سے آمریت کے مستقبل کو خطرہ لاحق ہو جائے تو یہ اکابرین اسے کافر قرار دے کر کسی ’ظلِ الٰہی ‘ کے رستے میں سرخ قالین بچھا دیتے ہیں ۔ کہا جاتاہے کہ جب آمریت جلوہ گر ہوتی ہے تو معاشرے کے بد ترین افراد سے گٹھ جوڑ کر کے اپنی بقا کی راہ ہموار کرتی ہے ۔ یہ بد ترین افراد اصل میں تحریک بحالی آمریت کے فاضل اکابرین ہی ہوتے ہیں ۔
سوال :کیا وطن لذیذ میں اس تحریک کو کوئی کامیابی حاصل ہوئی ہے ؟
جواب : ہماری آدھی تاریخ اس تحریک کی حکمرانی سے داغ داغ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک بحالی آمریت ایک منظم اور فعال تحریک ہے جس کے سیاسی ، مذہبی اور صحافتی ونگز ہمہ وقت اپنے مقاصد اولیٰ کی خاطر مصروفِ عمل ہیں ۔ تحریک کا ہر نابغہ گرو ہے ، جو جمہوری حکومت گرانے کے سارے گر جانتا ہے ۔ اگرچہ ان کی تعداد قلیل ہے مگر ہر ممبر اپنی ذات میں انجمن اور ’بیس کروڑوی‘ ہے ، جسے خواب میں بشارت ہوئی ہے کہ اس کے خیالاتِ بیمار بیس کروڑ آبادی کی بپھری ہوئی رائے عامہ ہے ۔ ان کی دشنہ و خنجر کی زباں بولتی زبانیں ’ ملک بچانے کے لیے سڑکوں پر آنا ہوگا‘ اور’فلاں اور ملک اکٹھے نہیں چل سکتے ‘برانڈ لوکل اور امپورٹڈ بارود مسلسل اگلتی رہتی ہیں ۔
سوال : اس کے بعد کیا ہوتا ہے ؟
جواب :پھر جب ان جاں گسل مراحل سے گزرنے کے بعد آمریت بحال ہوتی ہے تو تحریک شانت ہو جاتی ہے اور آمریت کے دسترخوان سے شکم سیر ہوکر اس کے تحفظ کیلئے سرگرم عمل ہو جاتی ہے ۔
سوال :تحریک بحالی آمریت چاہتی کیا ہے ؟
جواب :معاشرے میں مکمل جمود ۔
سوال :کیوں؟
جواب :آخر ڈینگی مچھر کی افزائش بھی تو ٹھہرے ہوئے پانی میں ہوتی ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).