استاد مرحوم


الہ دین نام تھا اور چراغؔ تخلص۔ وطن مالوف ریواڑی جوگڑ گاوں کے مردم خیز ضلع میں اہل کمال کی ایک بستی ہے اور آم کے اچار کے لیے مشہور۔ وہاں دھنیوں کے محلے میں ان کی خاندانی حویلی کے آثار اب تک موجود ہیں۔ نگڑ دادا ان کے اپنے فن کے خاتم تھے۔ شاہ غازی اورنگ زیب عالم گیر نے شہرہ سنا تو خلعت و پارچہ دے کر دلی بلوایا اور اپنی محل سرا کے لحاف بھرنے پر مامور کیا۔ اﷲ دتّہ نام تھا لیکن نداف الملک کے خطاب سے مشہور تھے۔ دلی میں یہ بارہ برس رہے۔

وجاہت خاندانی کے ساتھ دولت روحانی بھی استاد مرحوم کو ورثے میں ملی تھی۔ ننھیال کی طرف سے سولھویں پشت میں ان کا سلسلہ نسب نو گزے پیر سے جا ملتا ہے جن کا مزار اقدس پاکستان اور ہندُستان کے قریب قریب ہر بڑے شہر میں موجود ہے اور زیارت گہ خاص و عام ہے۔ انھی دونوں نسبتوں کا ذکر کر کے کبھی کبھی کہا کرتے کہ شاعری میرے لیے ذریعہ عزت نہیں۔ اپنے نام کے ساتھ ننگ اسلاف ضرور لکھا کرتے۔ دیکھا دیکھی دوسروں نے بھی انھیں یہی لکھنا شروع کر دیا۔

استاد مرحوم کہ پورانام ان کا حضرت شاہ الہ دین چراغؔ چشتی نظام ریواڑوی تھا؛ ہمیں ہائی اسکول میں اُردو اور فارسی پڑھاتے تھے۔ وطن کی نسبت سے اردو تو ان کے گھر کی لونڈی تھی ہی، فارسی میں کمال کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ پچیس پشت پہلے ان کے مورثِ اعلیٰ خراسان سے آئے تھے۔ کیوں آئے تھے؟ یہ سوال راقم کے دل میں بھی اکثر اُٹھتا تھا۔ آخر ایک روز موقع دیکھ کر پوچھ لیا اور احتیاطاً وضاحت کر دی کہ مقصد اعتراض نہیں، دریافت معلومات ہے۔ فرمایا، ”بابر کیوں آیا تھا؟ احمد شاہ ابدالی کیوں آیا تھا؟“

اب جو راقم نے اس سوال نما جواب کی بلاغت پر غور کیا تو اپنی کم فہمی پر بے حد شرمندگی ہوئی۔ بابر نہ آتا تو ابراہیم لودھی کس سے شکست کھاتا؟ خاندان مغلیہ کہاں سے آتا؟ اتنی صدیاں ہندُستان کی رعایا بادشاہوں کے بغیر کیا کرتی؟ مالیہ اور خراج کس کو دیتی؟ کچھ ایسی ہی حکمت استاد مرحوم کے مورث اعلیٰ کے ہندُستان آنے میں ضرور ہوگی، جس تک معمولی ذہن کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ خیر یہ ذکر تو ضمناً آگیا۔ مقصود کلام یہ کہ خراسان کی نسبت سے فارسی ایک طرح ان کے گھر کی زبان تھی۔ عربی کے بھی فاضل تھے، اگرچہ باقاعدہ نہ پڑھی تھی۔ عزیزم اسرار احمد کا نکاح خان بہادر ولایت علی کی پوتی سے ہوا، تو استاد مرحوم ہی نے نکاح پڑھایا تھا اور کوئی کاغذ پرچا سامنے رکھے بغیر۔

ماشا ﷲ، استغفر اﷲ، نعوذ باﷲ، لاحول ولا قوۃ الا باﷲ اور ایسے ہی کئی اور عربی کے جملے بے تکان بولتے تھے۔ خیر خراسان بھی کہیں عرب ہی کی طرف کو ہے۔ لہذا عربی پر ان کا عبور جائے تعجب نہیں۔ ہاں انگریزی کی لیاقت جو انھوں نے ازخود پیدا کی تھی، اس پر راقم کو بھی حیرت ہوتی تھی۔ ایک بار ایک دیہاتی منہ اٹھائے ان کی کلاس میں گھس آیا، حضرت نے فوراً انگریزی میں حکم دیا۔ گٹ آوٹ۔ اسے تعمیل کرتے ہی بنی۔ علاقے کا مال افسر انگریز تھا۔ ایک روز اسکول میں نکل آیا اور آدھا گھنٹا گفت گو کرتا رہا۔ استاد مرحوم برابر سمجھتے گئے اور سر ہلاتے گئے۔ بیچ بیچ میں موقع بہ موقع یس یس اور پلیز پلیز بھی کہتے جاتے تھے۔

پرانے بزرگوں سرسید، حالی، شبلی وغیرہ کے متعلق سنا ہے کہ انگریزی سمجھتے خوب تھے لیکن بولنا پسند نہ کرتے تھے۔ ہمارے استاد کا بھی یہی عمل تھا۔ ہمیں انگریزی میں ان کے تبحر کا پہلے علم نہ تھا۔ ہوا یہ کہ ایک روز ہماری انگریزی کی کلاس میں نکل آئے اور پوچھا لڑکو بتاو تو ماش کی دال کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں؟ سب چپ۔ کون بتاتا۔ پھر سوال کیا۔ کریلے کی انگریزی کیا ہے؟ یہ بھی کوئی نہ بتا سکا۔ سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ آخر استاد مرحوم نے بتایا اور ’انگلش ٹیچر‘ کھول کر اس کی تصدیق بھی کرا دی۔

یہ کتاب جو انگریزی کے علم کا قاموس ہے، سفر و حضر میں استاد مرحوم کے ساتھ رہتی تھی اور بڑے بڑے انگریزی دان ان کے سامنے آنے سے کتراتے تھے کہ جانے کب کس ترکاری کا انگریزی نام پوچھ لیں۔ انگریزی تحریر پر ان کی قدرت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ دست خط انگریزی ہی میں کرتے تھے۔

استاد مرحوم نے اہل زبان ہونے کی وجہ سے طبیعت بھی موزوں پائی تھی اور ہر طرح کا شعر کہنے پر قادر تھے۔ اردو فارسی میں ان کے کلام کا بڑا ذخیرہ موجود ہے جو غیرمطبوعہ ہونے کی وجہ سے اگلی نسلوں کے کام آئے گا۔ اس علم و فضل کے باوجود انکساری کا یہ عالم تھا کہ ایک بار اسکول میگزین میں جس کے یہ نگران تھے، ایڈیٹر نے استاد مرحوم کے متعلق لکھ دیا کہ وہ سعدی کے ہم پلہ ہیں۔ انہوں نے فوراً اس کی تردید کی۔ اسکول میگزین کا یہ پرچا ہمیشہ اپنے پاس رکھتے اور ایک ایک کو دکھاتے کہ دیکھو لوگوں کی میرے متعلق یہ رائے ہے، حالاں کہ من آنم کہ من دانم۔ ایڈیٹر کو بھی جو دسویں جماعت کا طالب علم تھا، بلا کر فہمائش کی کہ عزیزی یہ زمانہ اور طرح کا ہے۔ ایسی باتیں نہیں لکھا کرتے۔ لوگ مردہ پرست واقع ہوئے ہیں۔ حسد کے مارے جانے کیا کیا کہتے پھریں گے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5