بچہ پیدا کرنے سے پہلے سوچ لیں


گزشتہ دنوں خواتین کی ایک محفل میں ایک خاتون، جن کی شادی کو ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا، پوچھنے لگیں کہ میں بیاہ کر مشترکہ خاندانی نظام میں آئی ہوں، شوہر کا رویہ بھی میرے ساتھ درست نہیں اور سسرال والوں کا برتاو بھی تکلیف دہ ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ ہر وقت روتی رہوں، طبیعت میں عجیب افسردگی، پژمردگی اور ڈپریشن ہے، کیا کروں؟ یہ بات سن کر کچھ خواتین نے عبادت میں سکون تلاش کرنے کا مشورہ دیا اور کچھ نے سائیکاٹرسٹ سے رجوع کرنے کو کہا مگر کچھ خواتین نے باقاعدہ طور پر یہ مشورہ دیا کہ تم جلد از جلد ایک بچہ پیدا کر لو، بچے کی پیدائش سے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
میری ایک اور دوست ہیں جو دو لڑکوں کی پیدائیش کے بعد اب ایک لڑکی پیدا کرنے کی خواہاں ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ایک بیٹی ہی ان کے بگڑے ہوئے شوھر کو راہ راست پر لا سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب میرے شوھر کی اپنی بیٹی پیدا ہو گی تب ہی وہ ’کسی اور کی بیٹی‘ یعنی میری دوست کو تکلیف دینا بند کرے گا۔
ہمارے معاشرے میں اس حقیقت سے تو سب ہی آگاہ ہیں کہ شادی بیاہ کے مسئلے کے بعد خاندان اور احباب کو سب سے زیادہ تشویش اور انتظار بچے کی پیدائش کا ہوتا ہے۔ ادھر شادی ہوئی ادھر ہر ایک پوچھنا شروع کر دیتا ہے کہ خوشی کی خبر کب آ رہی ہے۔ یہ بھی سمجھایا جاتا ہے کہ بچہ ہی وہ زنجیر ہے جو شوھر کو باندھ کر رکھ سکتی ہے ورنہ شوھر کو شتر بے مہار ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ شادی کی مضبوطی اور پائیداری کی ضمانت بس ایک بچہ ہی تو ہے۔
اس سے کوئی انکار نہیں کہ اولاد ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ بہت سی خوشیاں اولاد سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ اولاد کی خوشی میں جو خوشی اور سکون ہے اس جیسا سکون اور طمانیت اور کوئی نہیں اور بچے کی کھلکھلاہٹ جیسی خوش کن اور پراثر آواز بھی شائد ہی کوئی اور ہو۔ مگر ملک کی آبادی میں مزید اضافہ کرنے سے پہلے اگر تھوڑا سا سوچ لیا جائے تو کیا کچھ برا ہے؟
ہمارے ہاں لڑکیوں کو شادی کے دنوں کے قریب بھی بچہ کی پیدائش کو روکنے کے لئے کوئی تدابیر بتانا یا اس بارے میں کوئی بھی مشورہ دینا بہت برا سمجھا جاتا ہے۔ اب تو انٹرنیٹ کی وجہ سے کسی بھی معاملے میں آگہی حاصل کرنا بہت آسان ہے مگر پھر بھی اس موضوع پر کسی دوشیزہ سے، چاہے اس کی شادی سر پر ہی کیوں نہ ہو، کسی بزرگ خاتون تک کا بات کرنا انتہائی معیوب تصور کیا جاتا ہے۔
میرا تو خیال ہے کی شادی کی تیاری شادی کے جوڑوں اور زیورات کی خریداری کی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس سے ہٹ کر ان باتوں کے متعلق کھل کر گفتگو ہونا چاہیے جو عملی طور پر شادی شدہ زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
اور نئے شادی شدہ جوڑے کو کبھی بھی بچہ پیدا کرنے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ ذھنی ہم آہنگی اور باہمی تعلق کی مضبوطی کسی بھی نئی روح کو اس دنیا میں لانے سے پہلے از حد ضروری چیز ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ رہ کر یہ تو دیکھ لیں کہ آپ مل کر چل بھی سکتے ہیں یا نہیں، آپ کو ایک دوسرے پر اعتبار بھی ہے یا نہیں۔ جب تک آپ کو یہ یقین نہ ہو جائے کہ آپ دونوں ایک مضبوط اور شفاف رشتے میں بندھے ہیں بچہ پیدا مت کریں ورنہ خدانخواستہ طلاق کی صورت میں بچوں پر بہت برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں سنگل ماں کا مستقبل تو ویسے ہی اچھا نہیں ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بچہ ایک زنجیر، تعلق، آلہ یا ٹوٹکا نہیں ہوتا بلکہ وہ تو بذات خود ایک جیتا جاگتا انسان ہے جس کی اپنی جسمانی، ذھنی ، نفسیاتی اور تعلیمی ضروریات ہیں اور یہ ضروریات والدین صرف اس صورت میں بہترین طریقے سے پوری کر سکتے ہیں جب وہ خود صحتمند، مطمئن اور آسودہ ہوں۔
میں نے بہت سی خواتین، جن کی نسبتاً کم عمری میں شادی ہو گئی کو یہ شکائت کرتے بھی دیکھا کہ میں تو اپنے خوابوں کی تکمیل کرنا چاہتی تھی اور اپنے کیریر میں آگے بڑھنا چاہتی تھی مگر بچوں کی پیدائش اور ذمہ داریوں نے سب خواب توڑ دیے۔
بچہ پیدا کرنے سے پہلے یہ جان لیجیے کہ یہ ایک کل وقتی ذمہ داری ہے جس سے پھر آپ پوری زندگی کے لئےبندھ جاتی ہیں اور پھر آپ کو اپنی زندگی کا ہر فیصلہ اس کی بھلائی ذھن میں رکھتے ہوئی کرنا ہو گا۔ اس لئے اگر آپ ابھی اپنے کچھ شوق یا کچھ خواب پورا کرنا چاہتی ہیں تو پہلے ان کی جستجو کر کے دیکھ لیجیے اور ایک نئی جان کو اس دنیا میں تب ہی لائیے جب آپ دل و جان سے اس کو پالنے کے لئے تیار ہوں۔
اچھا میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اگر یہ سننے میں آئے کہ کسی کی بہو ابھی بچہ پیدا نہیں کرنا چاہتی تو اس کو پہلے ہی بہت تیز طرار قرار دے دیا جاتا ہے، حالانکہ ایسی خواتین تو میرے نزدیک بہت سمجھدار ہوتی ہیں۔ بچے کی پیدائش میاں بیوی کا باہمی اور ذاتی فیصلہ ہونا چاہیے اور اس بارے میں کسی اور فرد کی رائے، مشورہ یا دباو قبول نہیں کرنا چاہئیے اور ہونا تو یہ چاہیے کہ رشتہ طے ہو جانے کے بعد، ہونے والے میاں بیوی سنجیدگی سے یہ طے کر لیں کہ وہ اپنی زندگی سے کیا چاہتے ہیں۔ آیا کہ وہ بچوں کو جلد سے جلد اس دنیا میں لا کر خوش رہ سکیں گے یا وہ پہلے اپنی تعلیم یا کیریر وغیرہ پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس فیصلے سے پہلے اپنے مالی حالات کا جائزہ لے لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
بچہ کی پیدائش سے پہلے شادی شدہ جوڑے کی جسمانی اور ذھنی صحت کو مد نظر رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ ڈپریشن وغیرہ جیسی ذھنی بیماریوں کا شکار لوگ بچے پر بھرپور توجہ نہیں دے سکتے اس لئے پہلے ان عوارض کا علاج ضروری ہے۔ اس کے علاوہ تھیلیسیمیا کی بیماری اور ایسی تمام بیماریوں کے ٹیسٹ بھی کروانے چاہییں جو کہ موروثی ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ قسمت کے فیصلے اللہ کے ہاتھ میں ہیں مگر احتیاط اور سوجھ بوجھ سے کام لینا تو ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim