گلبدین حکمتیار، تصویر کا دوسرا رخ


7 نومبر 2008 کو پاکستان کے کچھ اخباروں میں ایک تصویر شائع ہوئی تھی، یہ تصویر بنوں کے انڈس ہائی وے پر کھڑے ایک سائن بورڈ کی تھی جس میں پاکستان اور افغانستان کے پشتون علاقوں کا جغرافیہ ایک مستقل شکل اور متصل صورت میں پینٹ کیا گیاتھا اور اس کے نیچے یہ الفاظ لکھے تھے ” پشتون سب ایک ہیں ”۔

جے یوآئی نے اس ایشو کو اے این پی کے خلاف استعمال کیا جس کی اس وقت صوبے میں حکومت تھی اور ان سائن بورڈوں کا تعلق ” گریٹر پختونستان ” کے اس پرانے تصور سے ہے جس کا خواب اے این پی کی تاریخ اور لٹریچر میں ملتا ہے۔ جے یو آئی کی یہ الزام مگر مبنی بر حقیقت اس لیے نہ تھی کیونکہ یہ پراسرار سائن بورڈز ان دنوں بلوچستان میں بھی دکھائی دیے جہاں اے این پی کی حکومت نہیں تھی بلکہ خود جے یوآئی مخلوط صوبائی حکومت کا حصہ تھی۔ سیاسی جماعتوں کے اعتراض اور نشاندہی کے بعد مذکورہ اشتہاری بورڈز تو ہٹا دیے گئے مگر یہ بورڈز ایک سوال ضرور چھوڑ گئے کہ اس خطے میں کونسی قوت یہ چاہتی ہے کہ خطے میں لسانی بنیادوں پر مستقبل میں تنازعات، تصادم اور یوں تقسیم کو ہوا دی جایے؟

اسی دوران افغانستان میں مسلسل ایسے واقعات پیش آنے لگے جس سے لسانی تعصب کو ہوا ملنے لگی، یہاں تک کہ صدراشرف غنی کی کامیابی کے بعد جب ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ نے انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا تو جان کیری نے اس مسئلے کے ’حل‘ کے لیے چیف ایگزیکٹو کا ایک ایسا عہدہ ایجاد کردیا جس کی نہ تو دنیا کے کسی دوسرے نظام میں مثال ملتی ہے اور نہ ہی خود افغان آئین میں اس کا وجود تھا، یہ بات درست ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ایسے غیرپشتون لیڈر بھی تھے جو اشرف غنی کی حمایت کررہے تھے اور ایسے پشتون بھی تھے جو ڈاکٹر عبداللہ کے حامی تھے لیکن حقیقی صورتحال یہ تھی کہ ڈاکٹر عبداللہ کو تاجک نمایندہ ہی سمجھا جا رہا تھا، پھر نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے اگر ان کو بھی حکومت کا حصہ بنانا ضروری ہوگیا تھا تو ان کو نائب صدر یا وزیر بنادیا جاتا نہ کہ چیف ایگزیکٹو۔ اس لیے کہ جب اختیارات کی لحاظ سے صدر ہی چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے تو اس کے ساتھ دوسرا چیف ایگزیکٹو چہ معنی دارد؟

اس کے ساتھ ساتھ چھوٹے واقعات بھی ایک تسلسل کے ساتھ پیش آنے لگے، مثلاً یہ مطالبہ کیا گیا کہ کابل پوھنتون ( یونیورسٹی ) جس کا نام قیام کے دن سے ہی پوھنتون تھا اس کا نام تبدیل کرکے دانشگاہ کابل رکھا جایے۔ افغانستان کے قومی شناختی کارڈ میں قومیت کے خانے میں افغان لکھنے کی یہ کہہ کر مخالفت کی گئی کہ ’ما افغانستانی ہستم ولی افغانی نیستم‘ ( ہم افغانستانی توہیں مگر افغانی نہیں ہیں ) اس کے بعد 1929 میں مذہبی بنیاد پر افغان حکمران آمان اللہ خان کے خلاف کامیاب بغاوت کرکے 9 ماہ تک اقتدار سنبھالنے والے بچہ سقہ کی لاش یہ کہہ کر قبر سے نکالی گئی کہ ”امیر حبیب اللہ کلکانی خادم دین رسول اللہ“ کو جس جگہ دفن کیا گیا ہے وہ اس کی شایان شان نہیں اور ہم اس کو شہر آراء کی پہاڑی پر دفن کرنا چاہتے ہیں۔ ستمبر 2016 میں 87 سال بعد جب بچہ سقہ کی لاش نکالی گئی تو اس کا جنازہ بھی ادا کیا گیا جس میں سابق نائب صدر یونس قانونی، سابق وزیر دفاع بسم اللہ محمدی، سابق انٹیلی جنس چیف امراللہ صالح جیسی اہم تاجک شخصیات سمیت فوجی آفیسروں تک نے بھی شرکت کی۔ بچہ سقہ افغانستان میں پشتون اقتدار کے خاتمے کی علامت ہے ان کی صورت میں نادر افشار کے ایک ہزار سال بعد تاجک کو اقتدار ملی تھی اس واقعے کے ردعمل میں ایک پشتون حاضر سروس جرنیل نے یہ بیان دیا کہ اگر آپ بچہ سقہ جیسے جرائم پیشہ شخص کو ہیرو بناتے ہیں تو ہم ملاعمر کو کیوں اپنا ہیرو تسلیم نہ کریں؟

اب آتے ہیں اس معاملے سے گلبدین حکمتیار کے تعلق کی طرف، کابل میں سابق مجاہدین کے نام پر شمالی اتحاد کی تمام عسکری اور افرادی نظم ابھی تک موجود ہے۔ ہرسال 9 ستمبر کو ’امیر صاحب‘ ( احمدشاہ مسعود ) کی برسی کے علاوہ جب بھی کوئی خاص واقعہ ہو جاتا ہے تو یہ مسلح جتھے کابل کی سڑکوں پر نمودار ہو جاتے ہیں اور چند گھنٹوں کے اندر شہر کا منظر تبدیل ہوکر 90 کی دہائی کا کابل دکھنے لگتا ہے۔ اس مسئلے کا درست اور قانونی حل تو یہی ہے کہ تمام غیر سرکاری عناصر کو غیر مسلح کیا جائے مگر اس حل سے شاید امریکہ کے مدنظر مقاصد پورے نہیں ہوتے اس لیے گلبدین حکمتیار کو لایا گیا جو کابل کے متوازی جہادی قوت کے طور پر اہم پس منظر رکھتے ہیں۔

پرسوں جب حکمتیار بیس سال بعد کابل میں داخل ہورہے تھے تو ان کی اسلحہ بردار ذاتی ملیشیا کا لشکر بھی ہمراہی کر رہا تھا۔ دو ہفتہ پہلے سے جب حکمتیار منظر عام پر آئے ہیں اب تک، ان کی تقریروں میں ایک بات کی مسلسل تکرار ہورہی ہے کہ افغانستان میں نظام ’ملی‘ نہیں ہے، افغانستان کی نیشنل آرمی ’ملی‘ نہیں ہے، اس بات سے ان کا اشارہ لسانی بنیادوں پر موجود عدم توازن کی جانب ہے، یہی وجہ ہے کہ کل کابل کے صدارتی محل میں حکمتیار کی تقریب پزیرائی میں سوائے ڈاکٹر عبداللہ کے، رشید دوستم، یونس قانونی، صلاح الدین ربانی سمیت شمالی اتحاد اور جمعیت اسلامی کے کسی بھی رہنما نے شرکت نہیں کی۔ 2013 کے عیدالفطر کے موقع پر حکمتیار نے نام لے کر کہا تھا کہ افغانستان کی ہزارہ برادری کی جاری روش کی وجہ سے انہیں مستقبل میں کہیں جائے پناہ نہیں ملے گی اور انہوں نے کھل کر ارزگان صوبے کے ضلع دایکنڈی کو 34 واں صوبہ بنانے کی بھی مخالفت کی تھی جو افغانستان کی آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے اور اس کی آبادی 86 فیصد ہزارگی زبان بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ حکمت یار کی اس عصبیت کی وجہ مسلکی نہیں لسانی ہے کیونکہ 1998/99 میں تو وہ خود تہران ریڈیو سے تفسیر کا درس دے رہے تھے۔

اس پہلو کے علاوہ حکمتیار کے امن معاہدے کی دوسری وجہ مجوزہ اسلامی فوجی اتحاد اور سعودی کے حوالے سے ان کی سوچ بھی ہے۔ 2015 میں جب سعودی عرب نے یمن پر حملہ کیا تو 17 اپریل کو حزب اسلامی کے ترجمان ہارون زرغون نے کھل کر یہ پیشکش کردی کہ اگر سعودی عرب کو ضرورت ہو تو حزب اسلامی اس کی دفاع کے لیے اپنے مجاہدین بھیجنے کے لیے فوری طور پر تیار ہے۔

بعض حلقے حکمتیار کے امن معاہدے کو اس تناظر میں ایک مثبت پیشرفت کے طور پردیکھ رہے ہیں کہ اس معاہدے کا فیصلہ گویا کہ حکمتیار کا اپنا فیصلہ ہے مگر جب قضیے کو اس پہلو سے دیکھا جائے کہ حکمتیار تو پہلے بھی امن معاہدے کے لیے تیار تھے مگر امریکہ اس کے راستے میں رکاوٹ تھا تو پھر یہ دیکھنا ضروری ہوجاتا ہے کہ اب حکمتیار کو قبول کرنے کے پس پردہ امریکی حکمت عملی کیا ہے؟

سن 2001 میں امریکہ کی افغانستان آمد اور بون کانفرنس کے بعد حکمتیار نے ایران سے اپنے ساتھیوں کو فون کرکے ہدایت کی تھی کہ اہم سرکاری منصبوں پر قبضے کی کوشش کریں، تاکہ افغانستان کے نئی حکومت میں حزب اسلامی کی بھی ایک مضبوط پوزیشن ہو مگر اسی دوران جب اس وقت کے عبوری افغان صدر کرزئی صوبہ ننگرہار کے ضلع ” سرہ رود ” میں کمانڈر عبدالحق کی دوسری برسی کی تقریب میں شرکت کرنے گئے تھے تو اس تقریب میں ہی انہوں نے حزب اسلامی کے رہنما حاجی کشمیرخان کو الگ کرکے انہیں بتایا تھا کہ امریکہ آپ لوگوں کو حکومت کاحصہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ اسی رات کو جلال آباد میں کشمیرخان کے گھر پر امریکیوں نے چھاپہ مارا، کشمیرخان تو بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے مگر حزب اسلامی کو امریکہ کی پالیسی سمجھ آگئی۔

اس کے بعد کرزئی کے دور میں بھی پیغامات کا تبادلہ اور خط وکتابت کا سلسلہ جاری رہا اس سلسلہ جنبانی کو سنبھالنے والے حزب اسلامی کے ڈاکٹر غیرت بھیر نے کہاتھا کہ ان مذاکرات کی کامیابی میں امریکہ رکاوٹ تھا۔

گلبدین حکمت یار اب بے شک امن کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں یہاں تک کہ گزشتہ دنوں جلال آباد میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کمیونسٹ دور میں جلال آباد پر مجایدین کے حملے تک کو بھی غلطی تسلیم کرلیا، اسی تقریب میں افغانستان کے نیشنل سیکورٹی کے موجودہ ایڈوائزر حنیف اتمر بھی موجودتھے جو کمیونسٹ رژیم کے انٹیلی جنس ادارے ” خاد ” میں کام کررہے تھے اور 1988 میں جلال آباد پر مجاہدین کے اسی حملے میں شدید زخمی ہوئے تھے۔ حکمت یار نے تقریب میں شریک خواتین کی کم تعداد کی بھی نشاندہی کی اور آئندہ کے لیے سیاسی سرگرمیوں میں خواتین کی اضافے کو یقینی بنانے کی ہدایت کی۔

امریکہ کے عزائم فی الحال امن کے قیام کے نظر نہیں آتے اس لیے حکمت یار کے امن معاہدے پر دستخط کے باوجود اس اقدام کو قیام امن کی طرف پیشرفت کا فیصلہ قرار دینا زیادہ آسان نہیں، اور مذکورہ بالا پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے یہ عمل جنگ کی ایک نئی شکل کی صورتگری ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).