ہمارے یہ پولیٹکل اینکرز۔۔۔


 صحافت ایک مقدس پیشہ ہے۔ گذشتہ چند برسوں سے صحا فت کا معیار محض کاروباری ہوکر رہ گیا ہے اور کیوں نہ ہو جب بزنس پرسنز صحافت کی دکان چمکائیں گے تو ظاہر ہے کہ پھر خبریت کو نہیں، فروخت کو اہمیت دی جائے گی۔

سب جانتے ہیں کہ صحافت میں سب سے زیادہ اہم کردار رپورٹرز یعنی خبر لانے والے کا ہوتاہے۔ لہذا اس لئے مختلف فورمز رپورٹرز کی تربیتی نشیتںوں کا انتظام کرتے ہیں۔ میرا ہمیشہ ان فارمز پر ان کی انتظامیہ سے کہنا ہوتا ہے کہ جناب، رپورٹرز کے علاوہ چینلز کے سیھٹوں کو بھی مدعو کریں تاکہ وہ خبر برائے خبریت اور خبر برائے فروخت کے فرق کو سمجھ سکیں، اب جب خبر نشر کر نے کی برق رفتاری کا مقابلہ سخت اور وقت کم کی تلوار دھوپ میں کھڑے رپورٹر کے سر پر ہو گی تو وہ سورج کےآگ برسانے کی خبر بھی ایسے پیش کرے گا جسے قیامت آ گئی ہے یا LOC کی ایک بار پھر خلاف ورزی ہو گی ہے، جب بار بار یہ کہا جا رہا ہو گا کہ خبر لاؤ ورنہ کل دفتر نہ آ نا تو رپورٹر بھلا کیا کرے۔ خبر کا اخلاقی تقاضا دیکھے یا روزی روٹی کا ذریعہ محفوظ کرے، لہذا ایک تربیتی نشیت سیٹھ صاحبان کے لئے بھی..

دور حاضر کے تقاضوں کے پیش نظر وطن عزیز میں شو اینکرز خاصے متحرک ہیں۔ یہ معززین شام 7 بجے سے رات 12 بجے تک ٹی وی پر راج کرتے ہیں۔ ان صاحبان میں خصو صیات ہی خصوصیات ہو تی ہیں، یہ کبھی تھانے دار بن جاتے ہیں تو کبھی حوالدار، کبھی جج کا رول پلے کرتے ہیں تو کبھی وکیل کے روپ میں بھی نظر آتے ہیں، یہ ہی نہیں اکثر تو اس برداری سے تعلق رکھنے والے افراد باوردی تحقیاتی افسر کا کردار بھی با خوبی ادا کرتے ہیں۔ اتنے ساری انتھک محنت و جدوجہد کے بعد ملک و قوم کی محبت کے جذبے سے چور یہ حضرات اپنے اپنے سو شل میڈیا اکاونٹ پر رٹینگ کی رنگ بر نگی لکیروں کے ساتھ بڑے فخر سے کھڑے نظر آتے ہیں۔

ہمارے متحرک اینکرز کا چاک و چو بند انداز بتاتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ہمارے یہ اینکرز سرحدوں پر دشمن کو منہ توڑ جواب دینے چلے جائیں گے اور مقابل فوج کے سامنے سینہ سپر ہوکر پوچھیں گے کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرنے کی، کس نے کہا تھا یہ کرنے کو؟ کیا اسباب تھے اور کون سے محر کات تھے؟ کم از کم حالیہ منظر نامے سے تو یہ ہی لگتا ہے کہ ہما رے اینکرز بہترین فوجی بھی ہیں اب جو ڈی جی آئی ایس پی آر کو ان کا دائرہ کام سمجھا سکتا ہے، جو سیاست دوانوں کے ایسے لتے لیتے ہیں کہ الا مان الا حفیظ..۔

اس کی بنیادی وجہ ان کے پے در پے سوالات کی بوچھاڑ ہوتی ہیں جبکہ لاکھ جواب ملنے کے بعد بھی ان کو تشفی نہیں ہوتی جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ جواب سوچ کر سوال کرتے ہیں اور جب تک اپنے مطلب کا جواب نہیں مل جاتا تب تک ان کو قرار نہیں آتا ہے، سوال در سوال کے بعد جب اپنے مطلب کا جواب حاصل کر لیتے ہے تو فخر سے کہتے ہیں اب گری ہے دیوار یہاں یہ واضح نہیں کرتے کہ یہ دیوار کسی کے سر پر گری ہے یا نئے آ نے والے صحافی کے لئے رکاوٹ کا باعث بن رہی ہے؟ خیر اس سے ان کو کیا ان کو تو ریٹنگ مل رہی ہے، یہاں ایک بات اور ہمارے اینکرز کا مستقبل تاریک ہرگز نہیں ہے کیوں کہ ہمارے اینکرز اشتہار بنانے والی کمپنیوں کی تو قعات پر بھی پورے اتررہے ہیں اور فلموں میں بھی کام کر رہے ہیں ہمارے قابل اینکرز رمضان کی شان اور کرکٹ کی جان بھی ہیں، بھئی یہ بات ماننے کی ہے کہ بڑے ہر فن مولا ہیں ہمارے یہ پولیٹکل اینکرز …


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).