پاکستان اور اسرائیل کے مابین خفیہ سفارت کاری (2)


ورلڈ جیوش کانگریس کے نائب صدر لائبلر نے 1993 میں شہباز شریف کو یقین دہانی کروائی کہ اسرائیل کی طرف پالیسی میں تبدیلی سے امریکا میں پاکستان کا خراب امیج مثبت ہوگا۔ شہباز شریف نے جواب دیا کہ پاکستان ہمیشہ سے اپنے عرب اتحادیوں کی حمایت کرتا آیا ہے اور یہ بھی کہا کہ پاکستان بھارتی فورسز کو کشمیر میں اسرائیلی کمانڈوز کی طرف سے تربیت فراہم کرنے پر فکرمند ہے۔ شہباز شریف نے مزید کہا کہ پاکستان اسرائیل کے ان مشتبہ ارادوں کے بارے میں بھی فکرمند ہے کہ اسرائیل بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ لائبلر نے شہباز شریف سے کہا کہ انہیں اسرائیلی حکومت کی طرف سے یہ کہنے کی اجازت ملی ہے کہ یہ دونوں خدشات مکمل طور پر بے بنیاد ہیں۔ شہباز شریف نے سفارتی تعلقات کے حوالے سے کہا کہ ایسی کوئی بھی تبدیلی پاکستان میں فسادات کا باعث بن سکتی ہے لیکن اس ملاقات کے اختتام پر آئندہ لندن میں رابطے کرنے پر اتفاق ہوا۔

اس کے دو ماہ بعد لائبلر نے 19 اپریل 1993ء کو لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر سے ملاقات کی لیکن اس سے ایک دن پہلے پاکستان میں وزیراعظم نواز شریف کو ہٹایا جا چکا تھا۔ اس سے پہلے 12 مارچ کو نئی دہلی میں بھی ایک پاکستانی اور ایک اسرائیلی سفارت کار کی ملاقات ہو چکی تھی۔ اس میں پاکستانی سفارت کار نے بتایا کہ مذہبی جماعتوں کی وجہ سے کوئی سیاسی جماعت تعلقات قائم کرنے کا رسک نہیں لے سکتی۔

دوسری جانب وزیر اعظم آفس کے ڈائریکٹر جنرل اکرم ذکی کے ساتھ اسرائیل کے روابط قائم رہے۔ نواز شریف کی اقتدار سے بے دخلی سے چند ہفتے پہلے 11 مارچ کو اکرم ذکی کی ملاقات واشنگٹن میں کانگریس کے رکن گرے ایکرمین سے ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ امریکا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا خیرمقدم کرے گا۔

Isi Leibler

سینٹرل زینوسٹ آرکائیو کی ایک فائل کے مطابق اس کے چند روز بعد 16 مارچ کو ان دونوں کی نیویارک میں دوبارہ ملاقات ہوئی لیکن اس مرتبہ اسرائیل کے نائب کونسلر مارک سوفر بھی اس میں شریک تھے۔ اکرم ذکی نے ٹوکیو میں ہونے والی ملاقات کا بتایا اور اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ وہ دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر لانے کے خواہش مند ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ان رابطوں کو خفیہ رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس وجہ سے ضروری ہے کہ انہیں سخت مذہبی اپوزیشن کا سامنا ہے۔ اکرم ذکی نے دوبارہ یہ وعدہ دوہرایا کی ایٹمی ٹیکنالوجی دیگر ساتھیوں اور خاص طور پر ایران کو فراہم نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ ڈیووس میں پاکستانی وزیراعظم اور اسرائیلی وزیر خارجہ کی ملاقات اس وجہ سے نہیں ہو سکی تھی کہ وہاں اس وقت کچھ پاکستانی صحافی موجود تھے۔

1994ء میں شیمون پریز نے کچھ پاکستانی صحافیوں سے ملاقات کی (حامد میر صاحب نے بھی ان کا انٹرویو کیا تھا) اور یہ پیغام پہنچایا گیا کہ پاکستان کو اسرائیل کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرنی چاہیے۔ 24 اپریل 1993ء کو نواز شریف حکومت کے خاتمے ساتھ ہی اسرائیل کی طرف نواز حکومت کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور سیدہ عابدہ حسین کو بھی پاکستان واپس آنا پڑا۔

اس کے بعد 30 اپریل 1993ء کو اسرائیل کے روزنامہ معاریف (Maariv) میں ایک آرٹیکل چھپا، جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ پاکستان نے ایک اسرائیلی خاتون صحافی کو چند حکومتی اہلکاروں سے ملنے کی اجازت دی تھی۔ نئی بے نظیر بھٹو حکومت بھی اسرائیل کے ساتھ روابط قائم کرنا چاہتی ہے لیکن عوامی رد عمل کا بھی خوف ہے۔ اسی طرح کے خیالات کا اظہار امریکن جیوش کمیٹی نے 13 مئی 1993ء کو پاکستانی سفارت خانے کے ایک ڈپلومیٹ سے ملنے کے بعد کیا۔

اس دوران ایک پاکستانی اخبار نے خبر شائع کی کہ پاکستان اور اسرائیل کے مابین ایک تیسرے ملک کے ذریعے پوسٹل روابط قائم ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی مہروں والے خطوط براستہ قاہرہ کراچی پہنچتے تھے اور پاکستان سے اسرائیل جانے والے خطوط دو لفافوں میں بند کر کے بذریعہ لندن بھیجے جاتے تھے۔ باہر والے لفافے پر لندن کے پوسٹل مینیجر کا پتا درج ہوتا تھا اور اندر والے لفافے پر اسرائیلی ایڈریس۔

انہی دنوں ایک واقعہ پیش آیا۔ یاسر عرفات نے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو غزہ کے دورے پر مدعو کیا۔ یہ دورہ 4 ستمبر 1994 کو ہونا تھا۔ مصر میں پاکستانی سفیر نے 28 اگست کو دورے کی تیاری کے سلسلے میں غزہ جانا تھا لیکن رفاہ کراسنگ پر اسرائیل نے انہیں روک لیا اور انہیں آگے جانے کی اجازت نہ دی۔ پاکستان نے اسرائیل سے باقاعدہ اجازت مانگنے سے انکار کر دیا کیوں کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کرتا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم رابن نے بے نظیر بھٹو کے اس دورے کو ’برے طور طریقے‘ قرار دیا کہ ایسا دورہ اسرائیل کو بتائے بغیر کیا جا رہا ہے۔

اس سے کچھ دیر پہلے یہ واقعہ بھی رونما ہو چکا تھا کہ ساؤتھ افریقہ کے دورے کے دوران بے نظیر بھٹو کی ملاقات اسرائیلی صدر ایزر وائس مین سے ہوئی تھی۔ اس دورن بے نظیر نے کہا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے فلسطینی امن مذاکرات میں پیش رفت اور او آئی سی کا اس معاملے پر متفق ہونا ضروری ہے۔ اس وقت پاکستانی میڈیا میں ایسی کسی بھی ملاقات کی تردید جاری کی گئی تھی۔ پاکستانی حکومتی ترجمان نے یہ بیان جاری کیا تھا کہ یہ خبر من گھڑت ہے اور اسرائیل کی جانب سے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے بعد محترمہ بے نظیر کی واشنگٹن میں اسرائیلی نمائندوں سے ملاقات ہوئی، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ تعلقات استوار کرنے کے اصولی فیصلے کے حق میں ہیں لیکن مذہبی شدت پسندوں کی مخالفت بہت زیادہ ہے۔

ان تمام واقعات کے باوجود 6 فروری 1996ء کو آٹھ پاکستانی صحافی اسرائیل کے دورے پر گئے اور یہ پاکستانی میڈیا کی طرف سے اپنی نوعیت کا پہلا وزٹ تھا۔ یہ کوئی باقاعدہ سرکاری دورہ نہیں تھا لیکن اس کے پیچھے پاکستان کے ایک سیاسی کردار کا ہاتھ تھا، جس کا نام آج تک خفیہ رکھا گیا ہے۔ شائع ہونے والی اسرائیلی دستاویزات میں ان آٹھ صحافیوں کے نام بھی نہیں ملتے۔

انہی دنوں اسرائیلی تاجر اور سابق خفیہ ایجنسی موساد کے افسر Yaakov Nimrodi نے پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ گوہر ایوب خان سے ملاقات کی اور انہوں نے دونوں ملکوں کے مابین تجارتی کوششوں کے آغاز کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس ملاقات میں نیمرودی نے ٹیلی کمیونیکیشن، ایک طبی مرکز، مختلف زرعی مسائل اور مذہبی سیاحت میں دلچسپی ظاہر کی جبکہ پاکستانی وزیر خارجہ نے جہازوں کو اپ گریڈ کرنے اور متبادل پرزے خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ 4 نومبر 1995ء کو اسرائیلی تاجر نیمرودی نے اسرائیلی وزیراعظم رابن سے ملاقات میں پاکستان میں ہونے والی ملاقات کی تفصیلات بتائیں اور انہوں نے اس رابطے کا مثبت جواب دیا۔

ہیبریو زبان کی اسرائیلی اخبار معاریف (اسرائیلی بزنس ٹائیکون نیمرودی معاریف (Maariv) اخبار کے 1992ء تک چئیرمین بھی رہ چکے ہیں) کے مطابق 1998ء میں نواز شریف کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے چند ہی ماہ بعد اگست میں جماعت علمائے اسلام کے رہنما مولانا اجمل قادری نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ واپسی پر انہوں نے کہا کہ ’فلسطینوں کے وسیع تر مفاد میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی روابط قائم کرنے چاہییں‘۔ ان کی اسرائیل میں مہمان نوازی کرنے والے ایلی ایویدار اپنی کتاب ’بریجنگ دا ڈیوائڈ بیٹوین اسرائیل اینڈ عرب ورلڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ ایئر پورٹ پر مولانا نے انہیں اپنا ایک سوٹ بھی گفٹ کیا۔ اس کتاب کے مطابق مولانا اسرائیل سے لندن گئے اور وہاں سے ناروے میں چند ماہ گزارنے کے بعد پاکستان واپس پہنچے کیوں کہ ان کے اس دورے کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد پاکستانی وزیر خارجہ نے ان کی گرفتاری کا اعلان کر دیا تھا اس کے باوجود کہ مولانا اسی وزیر خارجہ سے مشورہ کرنے کے بعد اسرائیل آئے تھے۔ ایلی ایویدار کے مطابق انہیں گیارہ سال بعد 2008ء نومبر میں دوبارہ پتا چلا کہ مولانا اجمل قادری حالیہ چند برسوں میں اسرائیل کے تین دورے کر چکے ہیں۔

اکتوبر 1998ء میں جدید ترکی کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر اسرائیلی صدر ایزر وائزمین کی انقرہ میں پاکستانی ہم منصب رفیق تارڑ سے ملاقات ہوئی۔ پاکستانی صدر نے وہاں کھڑے اسرائیلی صدر سے ہاتھ ملایا اور کچھ دیر گپ شپ کی۔ رفیق تارڑ کا کہنا تھا، ’’مجھے امید ہے کہ ایک دن ہم دوبارہ ضرور ملیں گے۔‘‘

جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا تو ایٹمی خدشات کے حوالے سے انہوں نے اسرائیل کو ہر لحاظ سے مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہی دنوں اسرائیل کو بالواسطہ طور پر پیغامات بجھوائے گئے کہ پاکستان اسرائیل اور بھارت کے مابین بڑھتے ہوئے تعاون پر بھی فکرمند ہے۔ اسرائیل نے جواب دیا کہ یہ تعاون کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں ہے اور بھارت کے ساتھ تعاون کی نوعیت بتانے سے صاف انکار کر دیا گیا۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان اس تعاون کی نوعیت جاننا چاہتا ہے تو اسے اسرائیل کے ساتھ سفارتی روابط قائم کر لینے چاہیئیں۔

جون 2003ء میں امریکا کے دورے سے پہلے اور بعد میں پرویز مشرف نے متعدد مرتبہ ان خیالات کا اظہار کیا کہ پاکستان کواسرائیل کے ساتھ روابط کے حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ سابق اسرائیلی سفیر ڈاکٹر موشے کے مطابق ایسے اشاروں سے پرویز مشرف نے امریکا میں فائدہ اٹھایا۔

یکم ستمبر 2005ء کو استنبول میں اسرائیلی وزیر خارجہ سیلون شالوم اور ان کے ہم منصب خورشید قصوری کے مابین ملاقات ہوئی۔ شالوم اور وہاں موجود اسرائیلی صحافیوں نے اس ملاقات کو ایک تاریخی کامیابی قرار دیا۔ اسرائیل اس وقت غزہ سے بستیاں خالی کر رہا تھا اور اسے پاکستان کی طرف سے اسرائیل کے لیے ایک ’’گفٹ‘‘ قرار دیا گیا۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد 17 ستمبر کو پرویز مشرف نے امریکی دورے کے دوران امریکن جیوش کانگریس کے ڈنر میں شرکت کا فیصلہ کیا، جہاں مشرف نے ’تاریخی‘ تقریر کی۔

اسکے بعد اسرائیل کے دوسرے بڑے اخبار معاريف (Maariv) نے یہ خبریں شائع کیں کہ بے نظیر بھٹو نے جنوری 2008ء کے انتخابات میں شرکت کے لیے پاکستان جانے سے پہلے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد، سی آئی اے اور سکاٹ لینڈ یارڈ سے اپنی حفاظت کے لیے مدد طلب کی ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق سن 2007ء میں پیپلز پارٹی کی ہائی پروفائل لیڈر شپ نے نیویارک اور واشنگٹن کے دورے کے بعد تل ابیب کا دورہ کیا تھا لیکن ان خبروں کی آج تک تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔ لیکن یہ خبریں مصدقہ ہیں کہ سات مئی 2006ء کو بے نظیر بھٹو کی جانب سے ایک اعلیٰ اسرائیلی شخصیت کی برتھ ڈے پارٹی کا اہتمام واشنگٹن کے ایک مہنگے ہوٹل میں کیا گیا تھا، جس میں واشنگٹن اور تل ابیب کی شخصیات نے شرکت کی تھی اور بے نظیر صاحبہ نے اس کا بل خود ادا کیا تھا۔

یروشلم پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کا کہنا تھا کہ امریکا سے واپسی پر بے نظیر بھٹو نے لندن میں مختصر قیام کیا تھا اور انہوں نے ایک باہمی واقف کار کے ذریعے یہ پیغام بھجوایا تھا کہ وہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے مابین تعلقات مضبوط بنانا چاہتی ہیں۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈین گیلرمین نے اسرائیلی اخبار وائے نیٹ کو بتایا کہ اس کے بعد بے نظیر بھٹو کی کئی ملاقاتیں اسرائیلی صدر شیمون پریز سے ہوئیں تھیں اور انہوں نے کہا کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اسرائیل کا دورہ کریں گی۔

ماضی میں اسرائیل اور پاکستانی سیاستدانوں کے مابین سب سے زیادہ روابط نواز حکومت کے دوران ہوئے ہیں اور پاکستان میں اب بھی نواز حکومت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں ہونے والے رابطوں کی تفصیلات چند برسوں بعد منظر عام پر آئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments