جنم بھومی…. اور ہجرت کا دکھ


 \"mirzaشکر ہے کہ میں اور میرے جیسے بہت سے تارکین وطن مہاجر نہیں ہوئے۔ اپنی جنم بھومی میں جا سکتے ہیں، لوٹ سکتے ہیں۔ یہ شکر ستیہ پال آنند صاحب کا مضمون ’ میری جنم بھومی اور میں‘ پڑھ کے کر رہا ہوں کیونکہ ایسے ان گنت لوگ تھے جو اپنی جنم بھومی کو ایک بار بس ایک بار دیکھنے کی آس میں اس دنیا سے کسی دوسری دنیا کے لیے روانہ ہو گئے اور ابھی ایسے بہت سے ہیں جو اپنی جنم بھومی دیکھنے کی خواہش کرنا ہی بھول گئے ہیں۔ ان میں یقیناً میرے بڑے بھائی صاحب اور میری دو بہنیں بھی شامل ہیں۔ چھوٹی بہن ہجرت کے وقت بہت چھوٹی تھی اور بڑی بہن جو آج 84 برس کی ہیں ہجرت کے بعد دو بار اپنی جنم بھومی دیکھ چکی ہیں اور بقول ان کے شہر کے لوگوں نے ان کی ویسے ہی پذیرائی کی تھی جیسے بیٹی میکے آتی ہے۔

میں کبھی کیتھل نہیں گیا لیکن مجھے ایسے لگتا ہے جیسے میں کیتھل کی گلیوں میں پھرتا رہا ہوں۔ وہاں کی جامع مسجد میں نماز پڑھتا رہا ہوں، وہاں کی باو¿لی ’بدھ کیار‘ کے نزدیک کھیلتا رہا ہوں۔ نانی نانے کے گھر جاتا رہا ہوں، مولانا مولوی شمس الاسلام تو میری والدہ کے بچپن میں فوت ہو گئے تھے لیکن ہماری نانی اپنی بیٹی کے ساتھ علی پور ضلع مظفرگڑھ تک آئی تھیں اور میری پیدائش سے پہلے انتقال کرکے علی پور میں ہی زمین اوڑھی۔ بلکہ یہاں تک دیکھ سکتا ہوں کہ میرے ماموں مولانا فضل قدیر ظفر ندوی تحریک خلافت کے سلسلے میں کس طرح اپنے والد محترم کی مخالفت کرتے ہیں۔ نانا کو چونکہ معزز شخص کی حیثیت سے ’کوٹھی‘ (انگریز کا دفتر) تک رسائی تھی، انہیں چپڑاس اور مہر رکھنے کی اجازت تھی چنانچہ ماموں نے ان پر انگریز کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگا کر شہر میں ان کا حقہ پانی کیسے بند کروا دیا تھا۔ اپنے ماں باپ کے کرائے کے اس گھر کو دیکھ سکتا ہوں جس میں 1947 سے بھی پہلے برقی قمقمے روشن ہوتے تھے۔ اس سے ذرا ہٹ کے دہنولہ ریاست نابھہ میں والد کے گھر کا وہ اڑجنگ دروازہ دیکھ سکتا ہوں جس میں سے ہاتھی گذر سکتا تھا، ظاہر ہے ایک زمانے میں ہاتھی ہوگا۔ کوٹھڑی در کوٹھڑی اندرونی حویلی دیکھ سکتا ہوں۔ دادا کو اپنے کمی کو سانٹے سے بہت زیادہ پیٹتے ہوئے دیکھ سکتا ہوں جس کے بعد وہ اسے کہتے ہیں،\” جا اوئے کم بختا اوہ گھوڑی کھول کے لے جا\”۔ کمی کو گھوڑی کھول کر کمر سہلاتے اور دعائیں دیتے ہوئے جاتے دیکھ سکتا ہوں۔ دادا کو پلیگ کی وبا کے دوران شہر سے باہر لوگوں کی خبر گیری کرنے کی خاطر جاتے ہوئے گھڑ سوار دیکھتا ہوں۔ ایک روز آ کر یہ کہتے ہوئے دیکھتا ہوں \” محمد رفیق بہت تھک گیا واں، لتاں دبا دے\”۔ رات کا وقت ہے، گھر کے اندر ملازم کو بلایا نہیں جا سکتا، شاید ملازم رہے ہی نہ ہوں، پلیگ کا شکار ہو گئے ہوں یا بستی سے باہر اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ کھلے کھیتوں میں موت سے فرار ہونے کی آس میں بیٹھے ہوں۔ میرا باپ مرزا محمد رفیق جو لڑکا ہے، اپنے والد کی ٹانگیں دباتا ہے تو ایک جگہ پر ابھار محسوس ہوتا ہے،\” میاں جی تہانوں وی\” مرزا رفیق کہتا ہے اور دادا جی لوگوں کا خیال رکھتے رکھتے موت کی دیوی کے چرن چھو لیتے ہیں۔

پھر دیکھتا ہوں کہ مفتاح العلوم شرح مثنوی مولانا روم کے مصنف و شارح، استاد عطاری اور بیاض کریمی جیسی مسند طبی کتب لکھنے والے اور خطبات عرشی کے خالق مولانا مولوی حکیم مرزا نذیر احمد عرشی صاحب بڑھاپے کے عالم میں یکے بعد دیگرے اپنے نو بیٹوں کی خون آلود لاشوں کو کھینچ کھینچ کر برابر رکھتے جاتے ہیں۔ جب آخری لاش کھینچ کر تھکاوٹ کے علم میں زمین پر بیٹھنے کے لیے مڑتے ہیں تو ان کی اہلیہ میری پھوپھی کہتی ہیں،\” مولوی صاحب آپ کی تو اپنی کمر میں اتنا بڑا گھاو¿ ہے\”۔ \”اچھا\” یہ کہہ کر شہر بھر کا استاد اور معالج بھی بیٹوں کی لاشوں کے ساتھ لیٹ جاتا ہے اور کلمہ پڑھتے ہوئے ان کی روحوں کے ساتھ اپنی روح کو شامل کر دیتا ہے۔

یہ سب باتیں مجھے اپنی ماں کی زبانی معلوم ہوئی تھیں۔ وہ بہت اچھی داستان گو تھیں پھر اگر کہانیاں سچی ہوں تو انہیں موثر بنانے کے لیے رنگ نہیں بھرنے پڑتے۔ میری ماں رو رہی ہے۔ بتاتی ہے کہ ان کا چھوٹا اور پیارا بھائی محمد زبیر جو باپ اور بڑے بھائی کی طرح عالم دین نہیں تھا۔ مصور اور ستار نواز تھا، گھر سے باغی تھا، بچوں کا استاد تھا۔ اپنی بیوی، میری چھوٹی پھوپھی کے ساتھ شاہ آباد (شاباد) میں مقیم تھا۔ وہ گھر سے اپنے شہر جانے کے لیے نکلتے ہیں، بلوائی روک لیتے ہیں۔ ماں کے بھائی کے ہاتھ میں پوٹلی ہے۔ وہ بلوائیوں سے کہتے ہیں کہ یہ زیور لے لو ہمیں جانے دو۔ بلوائی کہتے ہیں کہ تمہارا لہو اس دھرتی کو بھرشت کرے گا چلو ندی کنارے۔ اطلاع ہے کہ انہیں مار دیا جاتا ہے بقول میری ماں کے شہید کر دیا جاتا ہے، میری پھوپھی بھاگ کھڑی ہوتی ہیں، جوان ہیں ، ہاتھ نہیں آتیں اور نزدیکی کنویں میں چھلانک لگا کر جان دے دیتی ہیں۔ یہ سنا کر میری ماں کہتی ہے،\” کیا پتہ یہ غلط ہو، اٹھتی ہیں اور دروازے کی ریکھ سے آنکھ ٹکا دیتی ہیں کہ شاید ان کا بھائی زبیر اپنی ستار پکڑے گلی میں ان کے گھر آ رہا ہو۔ 1998 میں اپنی موت تک وہ بھائی کا انتظار کرتی رہیں اور ان کے ساتھ میں اپنی پھوپھی کا جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ بہت خوبصورت تھیں۔

میری ماں کو اس کیتھل میں جانے کی خواہش نہیں رہی تھی جہاں سے انہیں نکلنا پڑا تھا مگر وہ اس کو بھلا بھی نہیں پائی تھیں۔ انہوں نے اسے اپنے پاکستان میں پیدا ہونے والے آخری دو بچوں کے دل میں بسا دیا تھا۔ سسرال کا قصبہ جہاں سے وہ اپنے شوہر کو نکال کر اپنی ماں کے قریب بسنے آ گئی تھیں، کو بھی انہوں نے بچوں کے دل میں ڈالنے کو قطعی نہیں بھلایا تھا۔

شالا مسافر کوئی نہ تھیوے

شکر ہے کہ میں اور میرے جیسے بہت سے مہاجر نہیں ہیں، جنم بھومی کو دیکھنے جا سکتے ہیں، لوٹ سکتے ہیں مگر مسافر ہم بھی ہیں جن پر تنکے بھاری ہیں۔ یا خدا! دنیا کے ہر انسان کو ہجرت کے دکھ سے محفوظ رکھ۔ ہجرت کوئی بھی خوشی سے نہیں کرتا۔ ایک بار جب میں اپنے تئیں \”روشن خیال\” نوجوان بن چکا تھا، میں نے ماں کے سامنے کہا تھا کہ اچھا تھا پاکستان نہ بنتا۔ میری ماں یک لخت بہت اداس ہو گئی تھیں اور بس اتنا کہا تھا،\”اگر تم نے اسے بنتے دیکھا ہوتا تو کبھی ایسا نہ کہتے\”۔ یہ ملک گلزار صاحب، ستیہ پال آنند صاحب اور میری ماں قریشی فاخرہ کی خون ہو چکی آرزووں سے بنا ہے، اس میں اب مزید خون کی آمیزش ہونے سے ہم سب کو روکنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments