حب کی ہندو آبادی امتحان میں


بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں جمعے کی نماز تک صورتحال معمول پر تھی اور شہری سیرت چوک پر واقع مرکزی مسجد میں جمع ہوئے۔ جبکہ باہر پولیس اہلکار تعینات تھے اور سڑک پر بلوچستان کے دیگر علاقوں کی جانب گاڑیاں رواں دواں تھیں۔ وقفے وقفے سے ایف سی کی گاڑیاں بھی گشت کرتی نظر آرہی تھیں۔

مسجد کی دیواروں پر کالعدم جیش محمد کے پوسٹر لگے تھے، جس میں جہاد کا مقصد اور تفیسر بیان کرنے کے لیے منعقدہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی، جبکہ سیرت چوک پر سپاہ صحابہ کا جھنڈا جھول رہا تھا۔ ساتھ میں حال ہی میں بنائے گئے بریلوی مسلک کی تنظیموں کے اتحاد لبیک یا رسول اللہ کا جھنڈا لگا تھا۔

نماز کی ادائیگی کے بعد شہریوں کی اکثریت واپس چلی گئی لیکن کچھ مشتعل لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ انھوں نے میڈیا کو بھی دور رہنے کی تاکید کی۔ تاہم اس سے قبل وہ ایک صحافی کا موبائل توڑنے کے علاوہ دست و گریبان بھی ہوچکے تھے۔ یہ جلوس جب سڑک پر گشت کر رہا تھا، ہم قریب ہی لاسی سٹریٹ پر موجود تھے، جبکہ سڑک کے کنارے ایف سی نے اپنی موبائل پارک کر رکھی تھی، تاکہ مشتعل افراد ہندو آبادی کی طرف آگے نہ بڑہیں۔ اس لاسی سٹریٹ سمیت شہر میں ہندو کمیونٹی نے اپنا کاروبار مکمل طور پر بند رکھا تھا، جو نماز جمعہ کے بعد معمول کے مطابق کھل جاتا ہے۔

ہندو محلے میں پولیس اور ایف سی تعینات ہے، جبکہ یہاں ایک خوف اور غیر یقینی کی صورتحال موجود ہے۔ کچھ لوگوں نے اپنے خاندان کراچی بھی منتقل کردیے ہیں۔ ایف سی حکام نے مندر میں آکر ہندو آبادی کو تحفظ اور تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ ایف سی اہلکاروں میں سے ایک اہلکار بار بار گائتری منتر سے ’او سوہا‘ کہہ رہا تھا، جو انڈین فلموں میں عام طور پر مذہبی رسومات میں پڑھا جاتا ہے۔ ہندو نوجوان یہ سن کر مسکرا دیتے اور ہر آنے والے کو ہاتھ جوڑ کر نمستے کہتے۔

ہندو کمیونٹی کے رہنما دھنیش کمار نے ایف سی حکام کا شکریہ ادا کیا اور انھیں بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کے خلاف سازش کی جا رہی ہے۔ سندھ کے کئی ہندوؤں کی طرح لسبیلہ کے ہندو بھی نانک پنتھی ہیں۔ ان کے یہاں گرونتھ کے ساتھ سائیں بابا، سندھ کے علاقے ڈھرکی کے سنت بھگت کنور رام، سلام کوٹ کے سنت نینو رام، اڈیرو لال سمیت دیگر سنتوں کی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔

دھنیش کمار کا کہنا ہے کہ توہین مذہب کے مبینہ ملزم کو انھوں نے خود پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا، لیکن اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بعد میں دوسرے روز اس سمیت دیگر کی دکانیں بند کرائی گئیں۔

’کچھ ایسے لوگ آئے ہیں جو ہمارے کاروبار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مقامی نہیں ہیں، باہر سے آئے ہیں جو چاہتے ہیں کہ اس طرح سے حالات خراب کیے جائیں جو کچھ گذشتہ روز ہوا۔ ان میں کوئی بھی مقامی نہیں تھا۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک کا نام بدنام ہو لیکن وہ ان کے ارادوں کو ناکام بنادیں گے۔‘

اس مندر میں ہنگلاج یاترا کو جانے والے یاتری بھی قیام کرتے ہیں۔ مکی کیئل داس کا کہنا ہے کہ وہ صدیوں سے یہاں آباد ہیں اور مقامی آبادی سے شادی بیاہ میں آنا جانا ہے ان کے ساتھ ایسا واقعہ پہلے کبھی پیش نہیں آیا۔

’جو یہاں کے اصل رہائشی ہیں لاسی وہ شریف لوگ ہیں ان کے ساتھ سارا دن اٹھنا بیٹھنا ہے، کل پولیس اور ایف سی نہ ہوتی تو ہمارے ساتھ پتہ نہیں کیا ہو جاتا۔‘

حب میں ہندو برداری کے 800 خاندان آباد ہیں جن میں سے اکثر موبائل ٹیلیفون اور ان کے آلات، الیکٹرانکس، جنرل سٹور اور زرعی ادویات کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ صنتعی اور تجارتی ترقی نے اس شہر کا روایتی اور ثقافتی رنگ تبدیل کر دیا ہے، اب یہاں بڑی تعداد میں غیر مقامی لوگ بھی آباد ہوئے ہیں۔

حب پولیس نے تھانے پر حملے، پتھراؤ فائرنگ اور بچے کے قتل کا مقدمہ درج کرکے ایک درجن کے قریب افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ جن کی رہائی کے لیے مذہبی جماعتوں کا پولیس پر دباؤ تھا تاہم ایس پی ضیا مندوخیل کا کہنا ہے کہ انھیں کسی صورت میں نہیں چھوڑا جائے گا۔

’ہم سی سی ٹی وی فوٹیج، فیس بک پر ڈالی گئی ویڈیوز اور واٹس اپ کے ذریعے شیئر کی گئی۔ ویڈیوز کی مدد سے ملزمان کی تصاویر حاصل کر رہے ہیں۔ ان مشتعل لوگوں میں کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کے لوگ نہیں تھے نوجوان لڑکے تھے اس لیے شناخت میں مشکلات پیش آرہی ہیں لیکن ایک دو روز میں کریک ڈاون کیا جائے گا۔‘

انھوں نے بتایا کہ جمعرات کو پریس کلب پر احتجاج کے بعد سیرت چوک پر کچھ لوگ جمع ہوئے اور اشتعال انگیز تقاریر کرکے لوگوں کو جمع کیا، ان کی شناخت ہوگئی ہے۔ بقول ضیا مندوخیل کے احتجاج کی وجہ سے ٹریفک جام ہوگیا تھا جب ٹرک ڈرائیوروں نے سنا کہ توہین مذہب کی گئی ہے تو وہ بھی آ کر اس مشتعل احتجاج میں شامل ہوگئے۔

گذشتہ تین روز سے جاری کشیدگی نے یہاں کی ہندو آبادی کو مستقبل کے حوالے سے امتحان میں ڈال دیا ہے، کیونکہ یہاں کے بڑے سیاسی اور روایتی گھرانوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور ان کے پاس کوئی نہیں آیا۔

)ریاض سہیل(


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp