آخر احمدیوں کو تحفظ کون فراہم کرے گا؟


رحیم یار خان میں بدھ کی رات جماعتِ احمدیہ سے تعلق رکھنے والے پٹرول پمپ کے مالک بشارت احمد کو نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر قتل کر دیا ہے۔ جماعتِ احمدیہ کے مطابق بشارت احمد کی کسی کے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی، انہیں مذہبی منافرت کے بنا پر قتل کیا گیا ہے۔ تھانہ صدر خان پور کے محرر افتخار احمد نے بی بی سی اردو کی حنا سعید کو بتایا کہ تین مئی کی شب آٹھ بجے بشارت احمد ظاہر پیر روڈ پر واقع اپنے پٹرول پمپ سے گھر کے لیے روانہ ہوئے تو نامعلوم افراد نے اُن پر حملہ کر دیا۔

بشارت احمد کے داماد عطا القدوس نے ان کے قتل کی ایف آئی آر تھانہ صدر خان پور میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کروائی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ سے شہادتیں جمع کر لی گئی ہیں اور کیس کی تفتیش اب ہومِسائیڈ ڈیپارٹمنٹ کرے گا۔ 72 سالہ بشارت احمد کے سوگواران میں دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔

دوسری جانب جماعت احمدیہ کے ارکان نے اس واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بشارت احمد کے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ ترجمان جماعت احمدیہ پاکستان سلیم الدین نے بی بی سی کی حنا سعید سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’احمدیوں کو ان کے عقیدے کے باعث چن چن کر مارا جا رہا ہے اور حکام نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ آخر احمدیوں کو تحفظ کون فراہم کرے گا؟‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گذشتہ 35 دنوں میں بشارت احمد تیسرے احمدی ہیں جنہیں صوبہ پنجاب میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس سے قبل مارچ میں ننکانہ صاحب میں ملک سلیم لطیف اور اپریل میں لاہور میں ڈاکٹر اشفاق احمد کو قتل کیا گیا تھا۔‘

جماعتِ احمدیہ پاکستان کی طرف سے 2016 میں جاری کی جانے والی ایک سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ سال کے دوران احمدی برادری کے خلاف سترہ سو سے زیادہ نفرت انگیز خبریں اور تین سو تیرہ مضامین شائع کیے گئے تھے۔ جبکہ اس دوران احمدی جماعت کے 6 افراد کو قتل کیا گیا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp