سیاست اور قانون کے دہرے امتحان میں الجھی سپریم کورٹ (2)


جے آئی ٹی کے ارکان کی نامزدگی کے معاملہ پر بھی سپریم کورٹ کے بینچ نے تندوتیز تبصرے کئے اور دو اداروں کے نامزد افسروں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ ’’عدالت کو تو ہیروں کی تلاش ہے۔‘‘ اس کے نتیجہ میں ایک ادارے نے اڑھائی سو اور دوسرے نے 400 افسروں کی فہرست ججوں کے حوالے کر دی۔ عدالتی بینچ نے کوئی مافوق الفطرت صلاحیت استعمال کرتے ہوئے چند ہی گھنٹوں میں ان ساڑھے چھ سو افسروں میں سے  دو ہیرے تلاش کر لئے۔ اپنی غیر جانبداری اور چابکدستی پر یہ غیر ضروری اعتماد، معاملات کو سلجھانے کی بجائے الجھانے کا سبب بنے گا۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے اس عمل کے دوران جو تبصرے کئے ہیں اور جس غم و غصہ کا اظہار کیا ہے، وہ بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر معمولی ہے۔ ججوں سے کاٹ دار جملوں کی نہیں ٹھوس فیصلوں اور دور رَس قانونی وضاحتوں کی توقع کی جاتی ہے۔ عدالت کے جج اگر رائے عامہ اور سیاسی دباؤ سے بے نیاز ہیں اور وہ صرف قانون کے تقاضوں کے مطابق عمل کر رہے ہیں تو دوران سماعت انہیں ہر ادارے کے بارے میں تلخ اور منفی رائے کا اظہار کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ سپریم کورٹ کے جج بھی اس دباؤ کو محسوس کر رہے ہیں جو سیاسی جلسوں، تبصروں اور میڈیا کے پرجوش ٹاک شوز کے ذریعہ پیدا کیا جا رہا ہے۔ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے جج ہر کسی کی توقع پر پورا اترنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایسا ہونا تو ممکن نہیں ہے۔

پاناما کیس کا سارا معاملہ سیاسی اور میڈیا مباحث پر استوار ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی قانونی میرٹ کی بجائے سیاسی بنیادوں پر ہی اس کی سماعت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ورنہ صرف نواز شریف کے خلاف ہی تحقیقات کیوں ضروری ہیں۔ یہ تحقیقات تو ہر اس شخص کے خلاف ہونی چاہئیں جس نے ملک سے باہر سرمایہ رکھا ہوا ہے یا جائیداد بنائی ہوئی ہے۔ اس تخصیص سے ہی اس معاملہ کی سیاسی نوعیت کا تعین ہو جاتا ہے۔ اس لئے جے آئی ٹی خواہ کسی نتیجے پر پہنچے اور اس کی روشنی میں کوئی بھی فیصلہ کیا جائے، اس سے ملک کی سیاست متاثر ہوگی اور اس کے سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ فیصلہ اپنی ماہیت اور حیثیت میں سو فیصد سیاسی ہوگا جسے قانون کے خوشنما غلاف میں لپیٹ کر پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جے آئی ٹی میں مختلف محکموں کے افسر شامل ہیں۔ ان میں فوج کے دو نمائندے بھی شامل ہیں۔ موجودہ حالات میں فوج اور سول حکومت کے درمیان جو خلیج حائل ہے اس میں فوج کے نمائندوں کی رائے اور دلائل باقی ارکان سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں قوم جس طرح منقسم بینچ کے فیصلہ کا مفہوم اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق نکالنے کی کوشش کر رہی ہے، وہی کام سہ رکنی عدالتی بینچ کو بھی کرنا ہوگا۔ یعنی یہ طے کرنا ہو گا کہ وہ تحقیقاتی کمیٹی کے کس رکن یا ارکان کی رائے کو اہمیت دیں۔ اس طرح جس مشکل کو ججوں نے کمال ہوشیاری سے جے آئی ٹی کی طرف لڑھکا دیا تھا، وہ مشکل واپس انہی کی طرف لوٹ سکتی ہے۔

جے آئی ٹی متفقہ طور پر یا منقسم ہو کر دو میں سے ایک ہی فیصلہ کرے گی۔ یا وہ نواز شریف اور ان کے خاندان کو بری کر دے گی یا قصور قرار دے گی۔ قصوروار قرار دینے کی صورت میں سپریم کورٹ کو وزیراعظم کو معزول کرنا پڑے گا۔ عدالت عظمیٰ کے دو جج تو پہلے ہی یہ فیصلہ دے چکے ہیں۔ اس طرح ملک میں ایک نئی اور عجیب تاریخ رقم ہوگی کہ ناقص معلومات کی بنا پر اخذ کئے گئے نتیجہ کی بنیاد پر ایک منتخب وزیراعظم کو متنازعہ آئینی شقات کے تحت یہ کہتے ہوئے معزول کر دیا جائے کہ وہ صادق اور امین نہیں رہا۔ اگر جے آئی ٹی نواز شریف کو بری قرار دیتی ہے تو سپریم کورٹ سمیت اس عمل میں شامل ہر شخص کو یہ الزام قبول کرنا پڑے گا کہ وہ درپردہ حکومت سے ملے ہوئے تھے۔ اس طرح ایک نیا قانونی اور سیاسی بحران سامنے آئے گا۔ کیوں کہ سپریم کورٹ کے ججوں کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ نواز شریف کی دیانت اور صداقت کے بارے میں ہر شخص کی اپنی رائے ہے۔ فیصلہ جوبھی ہو وہ اس رائے کو تبدیل نہیں کرے گا۔ تب جج بھی اپنے چیمبر میں بیٹھ کر جیسے چاہیں متنبہ کرتے رہیں کہ انہوں نے تویہ نہیں کہا، ان کے منہ میں زبان نہ ڈالی جائے۔ سپریم کورٹ کے تین جج 20 کروڑ عوام میں سے کس کس پر گرفت کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali