ایم ایم اے کی بحالی جے یو آئی کی ناکامی ہو گی


سیاسی منظر نامے پر مذہبی جماعتوں کی حیثیت ہمیشہ سے پریشر گروپ کی سی رہی ہے۔ کبھی یہ حیثیت بڑھ کر جز وقتی اعتبار سے ایک بڑی انقلابی قوت بھی اگرچہ بنی ہے لیکن پاکستان کی تاریخ میں مذہبی سیاسی جماعتوں بشمول غیر سیاسی مذہبی جماعتوں کے کبھی بھی فیصلہ کن پوزیشن حاصل نہیں کر پائیں۔ نہ ہی ان کی موجودہ ہیئیت دیکھ کر یہ امید لگائی جا سکتی ہے کہ آئندہ یہ جماعتیں پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر فیصلہ کن پوزیشن حاصل کر پائیں گی۔ یہ وہ حقیقت ہے جو اگرچہ خاصی تلخ ہے لیکن تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ اکثر مذہبی سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں کو اس کا ادراک بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کی سیاسی و تحریکی پالیسی جمود کا شکار ہے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ اکثر مذہبی جماعتوں کی نظریں غیر مرئی طاقتوں کی جانب لگی رہتی ہیں کہ کوئی اشارہ ملے تو پرانی شراب نئی پیکنگ میں ڈال کر عوام کو بیوقوف بنایا جائے۔ افسوسناک امر تو یہ بھی ہے کہ ان غیر مرئی طاقتوں میں فرق بھی نہیں روا رکھا جاتا، خواہ اندرون ملک کی ہوں یا بیرون ملک، خواہ جمہوری ہوں یا جمہوریت دشمن، جہاں سے امید بھر آنے کا آسرا ہو اسی آشیانے پہ ان کا سر جھک جاتا ہے۔

لیکن گذشتہ عشرے میں خاص طور پر میثاق جمہوریت کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی مذہبی جماعت جمعیت علماء اسلام نے ان حقائق کا ادراک کیا ہے اور اپنی پالیسی میں واضح تبدیلی بھی لائی ہے۔ جے یو آئی نے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں ہمیشہ جمہوری اقدار اور آئین پاکستان کے ساتھ چلنے کی مثبت پالیسی اپنائے رکھی ہے لیکن اس کے باوجودکئی مواقع پر غیر جمہوری یا زیادہ مناسب لفظوں میں کنفیوز جمہوری جماعتوں کے ساتھ سیاسی و تحریکی تعلقات رکھنا بھی اس کے دامن کا کانٹا بنے رہے ہیں اور یہی وہ پالیسی تھی میثاق جمہوریت کے بعد جس میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ آج کل پرویز مشرف کی آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والی ایم ایم اے کی دوبارہ بحالی کی بات چل رہی ہے۔ صد سالہ اجتماع کے سٹیج پر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب نے یہ اعلان کرتے ہوئے اپنے تئیں اچھی چال چلی تھی کہ میں تمام مذہبی جماعتوں کے اتحاد کا اختیار مولانا فضل الرحمن کو دیتا ہوں، لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا واقعی جے یو آئی کو اس اتحاد کی ضرورت ہے؟

مذہبی جماعتوں کی حالیہ پوزیشن پر ایک نظر ڈالیں تو تصویر واضح ہو جاتی ہے۔ جماعت اسلامی اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گذر رہی ہے، حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ جماعت اسلامی پورا ملک چھوڑ واپس کراچی کی مقامی سیاست میں سمٹ کر ری کنسٹرکشن کی کوشش کر رہی ہے۔ خیبر پی کے میں ان کے گڑھ دیر تک میں ان کی پوزیشن انتہائی نازک ہو چکی ہے۔ خیبر پختونخواہ کا سیاسی مزاج دیکھا جائے تو کبھی بھی حکمران جماعت آئندہ الیکشن میں اچھے نتائج نہیں دے سکی۔ ایسے میں ایم ایم اے کی بحالی جماعت اسلامی کی ضرورت تو ہو سکتی ہے جے یو آئی کی نہیں، خاص طور پر صد سالہ جیسا عظیم اجتماع منعقد کرنے کے بعد تو ہرگز نہیں۔

دیوبندی حلقوں کی بات کی جائے تو جمعیت علماء اسلام سمیع الحق گروپ کا اب سیاسی جماعتوں میں نام لینا بھی شاید زیادتی ہو گی کہ جماعت میں اتنے ہی ارکان باقی بچے ہیں جتنے جماعت میں عہدے، اس لیے وہ تین میں ہیں اور نہ ہی تیرہ میں۔ ایم ایم اے کی بحالی ان کی ضرورت ہو سکتی ہے لیکن جے یو آئی کی ہرگز نہیں۔ الٹا مولانا سمیع الحق کی افتاد طبع کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اتحاد کی صورت جے یو آئی کو آئے روز نان ایشوز کا سامنا ہو گا جو بجائے فائدہ کے الٹا نقصان کا باعث بنیں گے۔ کالعدم سپاہ صحابہ یعنی اہلسنت والجماعت کا پورے پاکستان میں ایک ہی حلقہ ہے جس کے جیتے ہوئے امیدوار پہلے ہی جے یو آئی میں شامل ہو چکے ہیں اس لیے ان کے ساتھ بھی اتحاد کی ضرورت نہیں بلکہ مولانا احمد لدھیانوی کو جتنی مراعات مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بیٹھنے اور ان کی مان کر چلنے کی بنیاد پر مل رہی ہیں انہیں دیکھتے ہوئے اہلسنت والجماعت کو غیر مشروط طور پر ملک بھر میں جے یو آئی کی حمایت کرنی چاہیے۔ بلوچستان میں نظریاتی گروپ کے ساتھ مفاہمت ہو چکی ہے۔ مولانا عصمت اللہ جماعت میں واپس آ چکے ہیں بقیہ ماندہ چند لوگ اگر اب بھی ناراض ہیں تو انہیں دور ہی رہنے دیں کیونکہ جو آج جماعت کے نہیں وہ حکومت میں آنے کے بعد بھی نہیں ہوں گے بلکہ جماعت کے اندر انتشار کا سبب بنیں گے۔ پاکستان علماء کونسل کی نئی قیادت نے مولانا فضل الرحمن کو اپنا غیر اعلانیہ سرپرست مان رکھا ہے اس لیے وہ بھی الیکشن کے دوران بھلے خاموش ہی سہی لیکن جے یو آئی کے ساتھ مل کر چلیں گے۔

اہلحدیث مکتب فکر کا اپنا کوئی ووٹ بینک نہیں ہے ویسے بھی ان کی اکثریت جمہوریت کے بارے میں کنفیوژن کا شکار ہے اس لیے ان کے ساتھ آنے سے بھی الیکشن میں کوئی فائدہ نہیں ہونا، البتہ اگر اہلحدیث مکتب فکر میں کوئی ایسی شخصیات ہوں جو واقعی اپنا حلقہ اور ووٹ بینک رکھتی ہوں اور الیکشن کی سیاست پر یقین رکھتی ہوں تو بلا تردد جے یو آئی میں شامل ہو کر الیکشن لڑ سکتی ہیں۔ کم و بیش یہی حالت اہل تشیع کی بھی ہے۔ رہی بات بریلوی مکتب فکر کی تو سب جانتے ہیں کہ ان کے رہنماؤں کی اکثریت گدی نشینوں کی ہے جو کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک یا تو مسلم لیگ اور یا پیپلز پارٹی کا حصہ ہیں جو باقی بچ جاتے ہیں وہ ہوا کا رخ دیکھ کر ہر اس سیاسی جماعت میں بے دھڑک شامل ہو جاتے ہیں جس کا مستقبل شاندار نظر آتا ہو۔ جہاں تک مولانا احمد شاہ نورانی ؒ کی پارٹی جمعیت علماء پاکستان کی بات ہے تو شاہ صاحب کی آنکھ بند ہونے کی دیر تھی کہ ان کی پارٹی بھی خاموشی کی چادر اوڑھے بیٹھ گئی۔

ایسے حالات میں جے یو آئی اگر دینی جماعتوں کے اتحاد کی طرف بڑھتی ہے تو یہ فیصلہ گزشتہ عشرے کی ڈیولپمنٹ کو رول بیک کرنے کے مترادف ہو گا۔ ویسے بھی صد سالہ اجتماع میں بے مثال شو آف پاور کرنے کے بعد جے یو آئی کو اپنے کارکنوں پر بھروسہ کرنا چاہیے جن کی اپنی جماعت اور جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ ہر شک و شبہ سے بالا ہے۔ مذہبی جماعتوں کی اس پوزیشن کو دیکھتے ہوئے بھی اگر جے یو آئی اپنے ووٹروں اور کارکنوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے ایم ایم اے یا کسی دوسرے دینی اتحاد کا حصہ بننا چاہتی ہے تو کم از کم یہ ضرور سوچ لے کہ اس اتحاد میں شاہ نورانیؒ اور قاضی حسین احمدؒ جیسی پروقار اور وضعدار شخصیات نہیں ہوں گی تو ایسےمیں مولانا فضل الرحمن کی بات کون مانے گا؟ جے یو آئی کو بھولنا نہیں چاہیے کہ میثاق جمہوریت کے لیے ملک سے باہر جانے اور لال مسجد کے معاملے کو شیخ سلیم اللہ خانؒ اور دیگر علماء دین کے حوالے چھوڑنے پر ”دینی جماعتوں“ نے آج تک انہیں معاف نہیں کیا۔ کل کو اگر خدانخواستہ ایک اور کٹھن مقام آ گیا تو یہی دینی جماعتیں پھر کسی کے اشاروں پر سڑکوں پر ہوں گی اور جے یو آئی کا کارکن پشیمانی کی حالت میں صفائیاں دیتا پھرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).