قائد اعظم سے دھونس اور اشتعال کی ثقافت تک


لیو ٹالسٹائی نے اینا کیری نینا کے پہلے پیراگراف میں لکھا تھا ۔ ’سب سکھی گھرانے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ہر دکھی گھرانے کی اپنی اپنی کہانی ہوتی ہے‘۔ واقعی دکھ کے ہزار پہلو ہوتے ہیں۔ ہم پر دہشت گردی کا عذاب اترا اور یہ آسیب ابھی دور نہیں ہوا۔ چار برس پہلے ہم نے ایک حکومت منتخب کی تھی ۔ ایک دن ایسا نہیں گزرا کہ معمول کا کاروبار مملکت ممکن ہو سکا ہو۔ طالبان سے مذاکرات ہم نے کئے۔ آپریشن ضرب عضب ہم نے شروع کیا۔ آپریشن ضرب عضب کے ختم ہونے کی خبر ہمیں نہیں ملی ، ردالفساد کا نقارہ البتہ ہم نے سنا۔ اس دوران ایک دھرنا ہوا ، پھر دھرنے کا دوسرا حصہ آیا۔ پاناما کا ایک باب کھلا ۔ اب خبر آئی ہے کہ پاناما (2) کا امتحان شروع ہوا چاہتا ہے۔ اس بیچ میں ڈان لیکس کا ہنگامہ اٹھا ۔ سوال بہت سے ہیں ۔ جواب پوچھنے کا یارا نہیں۔ جواب دہی تو وہاں ہوا کرتی ہے جہاں آئین کے احترام کی روایت ہو۔ اس احترام کا ایک اشارہ برادر گرامی قدر ڈاکٹر صفدر محمود نے آج کے کالم میں بیان فرما دیا ہے۔ پورا کالم ہی تاریخ کی لوح پر کندہ کئے جانے کے قابل ہے۔ ایک جملہ پیش خدمت ہے۔ ’جتنے مرضی ہے ووٹ لے لیں، جتنے انتخابات چاہیں جیت لیں، جتنے نعرے چاہیں لگوا لیں لیکن اب اہم قومی فیصلوں میں اور ملک چلانے میں فوج شریک ِ اقتدار رہے گی‘۔ محترم صفدر محمود قائداعظم کے سوانح اور افکار کے شناور ہیں۔ کیوں نہ قائداعظم ہی کے دو حوالے نذر کر دیے جائیں ۔ تو دانی حساب کم و بیش را….

14 اگست 1947 ءکا دن تھا ۔ گورنر جنر ل ہاﺅس کراچی میں آزادی کی تقریبات جاری تھیں۔ ایک نوجوان فوجی افسر نے قائداعظم کے پاس پہنچ کر شکایت کی کہ فوج کے تینوں شعبوں میں برطانوی سربراہ مقرر کئے گئے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ پاکستانی افسروں کو قوم کی خدمت کا موقع دیا جاتا۔ قائداعظم نے شکایت کرنے والے فوجی افسر کی فہمائش کرتے ہوئے کہا ’مت بھولئے کہ آپ عوام کے خادم ہیں۔ قومی پالیسی بنانا آپ کا کام نہیں ہے۔ ان معاملات پر فیصلہ کرنا ہمارا یعنی سول رہنماﺅں کا اختیار ہے۔ آپ کی ڈیوٹی ہے کہ آپ ان احکامات کی تعمیل کریں۔‘

14 جون 1948 ءکوسٹاف کالج کوئٹہ کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا ’آپ کے چند اعلیٰ افسروں سے بات چیت کے دوران مجھے اندازہ ہوا ہے کہ وہ اپنے حلف کی اہمیت نہیں سمجھتے۔ چنانچہ میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس حلف کے الفاظ دہراتا ہوں…. قائداعظم نے مزید کہا کہ اس حلف کے الفاظ نہیں بلکہ اس کی روح اصل اہمیت رکھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں حاکمیت نافذہ گورنر جنرل کے پاس ہے۔ چنانچہ آپ تک پہنچنے والے تمام احکامات کے لیے گورنر جنرل کی منظوری ضروری ہے‘۔

پارلیمنٹ ، عدلیہ ، حکومت اور دفاعی افواج کے اختیارات کے باہم توازن کو قائداعظم سے بہتر کون جانتا تھا۔ قائداعظم پاکستان کے شہریوں کے قائد ہی نہیں تھے ، محافظ اعظم بھی تھے اور یہ خطاب انہوں نے کراچی کے ایک ہندو صحافی سے بات چیت کرتے ہوئے اپنے لیے پسند کیا تھا۔ قائداعظم کے پاکستان میں گزشتہ دو ہفتے کے دوران پے در پے کچھ واقعات ہوئے ہیں۔ عبدالولی خان یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو بہیمانہ تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ مشال خان کا جنازہ اٹھانے والے درجن بھر افراد تھے اور مبینہ قاتلوں کی حمایت میں دس ہزار افراد سڑک پر نکلے ہیں۔ سیالکوٹ کے قریب تین عورتوں نے ایک شخص کو اہانت مذہب کے الزام میں گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے۔ چترال کے ایک فرض شناس خطیب مسجد کی جرات کے باعث ایک نیم پاگل شخص موت سے بچ نکلا ہے لیکن مشتعل ہجوم نے شہر کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ بلوچستان کے شہر حب میں ایک ہندو بچے پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا ۔ مشتعل ہجوم اور پولیس حکام کی کشمکش کے دوران ایک بچہ ہلاک ہو گیا ۔

ہمارے ملک کے ایک مقتدر مذہبی رہنما فرماتے ہیں کہ حادثاتی واقعات کی بنیاد پر قانون تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ مولانا محترم سے التماس ہے کہ آئین میں یہ حصہ ایزاد کر دیں کہ قانون کے غلط استعمال پر قانون تبدیل نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کے لیے طوفان نوح کا انتظار کیا جائے گا۔ جنوری 2017ء میں کچھ بلاگرز کی جبری گمشدگی کے بعد سے اہانت مذہب کا سوال اٹھایا گیا تو اہل نظر نے جان لیا تھا کہ یہ ایک بڑی تمثیل کا سکرپٹ ہے ۔ طالبان کی دہشت گردی کا جوار بھاٹا اترنے کے بعد ایک نیا محاذ کھولا جا رہا ہے جہاں سوال کی گنجائش نہ ہو اور کٹے ہوئے سروں کی فصل پر برگ و بار آئے۔ مشتعل ہجوم جمہوری عمل کو مفلوج کرنے کا مؤثر ہتھیار ہے۔ تو جان جائیے کہ جمہور کی حکمرانی کے گرد کیسا جلالی حصار کھینچ دیا گیا ہے۔ ایک طرف کرپشن کی دیوار بے روزن ہے ، دوسری طرف اشتعال کی سپاہ کف در دہان ہے ۔ تیسری طرف قومی سلامتی کی موہوم باڑ لگا دی گئی ہے اور چوتھے کھونٹ پر صحافت کا پانچواں کالم بندوق چھتیائے بیٹھا ہے۔

محترم سردار آصف احمد علی پاکستان کے مدبر اذہان میں سے ایک ہیں۔ ایک مجلس میں ان سے دریافت کیا گیا کہ پاکستان کو استحکام اور ترقی کے راستے پر چلانے کے لیے کون سا نسخہ کارگر ہو گا ۔ آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ بزرگ نے مختصر جواب دیا۔ پاکستان کو ایک نارمل ملک بنانا چاہیے۔ واللہ، بصیرت کا کیا مقام ہے۔ نارمل قومیں کون ہوتی ہیں۔ جہاں آئین کی پابندی کی جائے ۔ لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ معمولات زندگی کا احترام کیا جائے ۔ قوم کی اجتماعی فراست اور پیداواری صلاحیت کو بروئے کار لایا جائے۔ اختلاف رائے کو قوت میں تبدیل کیا جائے۔ جنگ کے واہمے کو امن کے خواب میں تبدیل کیا جائے۔

سردار آصف احمد علی اس تدبر میں اکیلے نہیں ہیں۔ ہمارے قانون سازوں ، سیاسی رہنماﺅں ، اساتذہ، صحافیوں اور انتظامی افسروں میں یہ بصیرت موجود ہے ۔ کرنا یہ ہے کہ دیکھنے والی آنکھ پر سے سازش کی پٹی کھولی جائے۔ سمجھنا چاہیے کہ دور دراز قصبوں میں اکا دکا مظلوموں کی اہانت مذہب کے الزام میں اموات کا سلسلہ معنی سے خالی نہیں۔ یہ ایک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا۔ اسی طرح یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ قبلہ چوہدری نثار علی خان نے ابلاغ بذریعہ ٹویٹ کو مسترد کیا ہے تو یقینا پانی خطرے کے نشان تک آن پہنچا ہے۔ مرحوم محمد انور خالد کی ایک نظم کی چند سطریں پڑھ لیجئے۔ بخت خاں کا ذکر ہے اور آج کل مئی کا پہلا ہفتہ ہے۔ 1857ء کا آندولن ایک سو ساٹھ برس پہلے انہی تاریخوں میں میرٹھ سے شروع ہوا تھا۔

بخت خاں آنکھ اٹھاﺅ کہ ہراجنگل ہے
آسماں گیر درختوں نے نظر کی حد کو
روک رکھا ہے کہ اب آنکھ زمیں پر اترے
بخت خاں آنکھ اٹھاﺅ کہ ہوا پاگل ہے
اسی موسم میں کسی شاخ گرہ دار کے بیچ
وہ بدن جھول گیا
جس نے تلوار کو گردن میں حمائل نہ کیا
وہ بدن جھول گیاشاخ گرہ دار کے بیچ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).