مولانا فضل الرحمن سے انتہا پسندی کے اسباب پر گفتگو (پہلا حصہ)


جمعیت علمائے اسلان کے سربراہ اور پاکستان کے ممتاز سیاسی رہنما مولانا فضل الرحمن صاحب نے ہم سب کی ٹیم کی درخواست پر 4 مئی 2017 کو اسلام آباد میں عدنان خان کاکڑ، فرنود عالم اور وسی بابا سے ملاقات کی۔ عام تاثر یہ ہے کہ مولوی کسی فکری مخالف کو برداشت نہیں کرتے۔ مگر مولانا سے مل کر یہ تاثر دور ہوتا ہے۔ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ انٹرویو کرنے والے لبرل اور سیکولر خیالات کے حامل افراد ان کا انٹرویو کر رہے ہیں اور ایک ایسی ویب سائٹ کے لئے کر رہے ہیں جس کا موقف لبرل ویب سائٹ کا ہے، نہایت ہی دوستانہ انداز میں پیش آئے۔ ان کے کچھ خیالات سے آپ اختلاف کریں گے، کچھ آپ کو منطقی اور قابل قبول لگیں گے، اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے خیالات فریق مخالف پر مسلط کرنے کی بجائے اس سے مکالمہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور مذہبی طبقے میں آئین پاکستان اور جمہوریت کے بڑے حامیوں میں سے ہیں۔

مولانا نے کئی موضوعات پر کھل کر گفتگو کی۔ انتہا پسندی کے اسباب کیا ہیں؟ جمہوریت اسلامی نظام حکومت ہے یا غیر اسلامی؟ کشمیر کمیٹی کے معاملے میں ان پر اعتراضات کیوں کیے جاتے ہیں؟ مولانا پر کرپشن کے الزامات کیوں لگائے جاتے ہیں؟ ایم ایم اے کا مستقبل میں کوئی کردار ہو سکتا ہے؟ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت پر مولانا کے کمنٹس، صد سالہ میں مولانا سمیع الحق کے شریک نہ ہونے پر تبصرہ۔ کیا نواز حکومت جا رہی ہے اور جمہوریت کی بساط لپیٹی جا رہی ہے؟ شریعت کے نفاذ کے لیے اسلحہ اٹھانا جائز ہے یا غلط؟ مولانا نے بہت سے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے اپنا موقف واضح کیا۔ آئیے اس گفتگو کا پہلا حصہ پڑھتے ہیں

٭٭٭ ٭٭٭

عدنان کاکڑ: انتہا پسندی کے اسباب کیا ہیں جو پچھلے کچھ عرصے میں بہت بڑھی ہے؟

مولانا: انتہا پسندی کے حوالے سے جو مسئلہ ہے وہ صرف پاکستان کا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک عالمی اور بین الاقوامی ایشو بن گیا ہے۔ اور یہ ایک ڈیبیٹ ہے۔ ایک مکالمہ ہے۔ اور اس اعتبار سے بین الاقوامی میڈیا یا جو ذرائع ابلاغ ہیں ان کے وہ طاقت ور ہیں۔ انہوں نے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ جس کے نتیجے میں انتہا پسندی ہو یا شدت پسندی ہو یا دہشت گردی ہو یہ سارے عنوانات انہوں نے مذہب اور مذہبی طبقے سے وابستہ کر دیے ہیں۔ تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ انتہا پسندی یا شدت پسندی یہ مذہب یا مذہبی دنیا کی فطرت ہے یا یہ کہ یہ اس کا رد عمل ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ مذہب اور بالخصوص مذہب اسلام، اس کے جو محور ہیں اور اس کا جو منبع ہے اور اس کی جو اساس ہے وہ تو قرآن کریم ہے۔ اور ظاہر ہے کہ انسان ویسے تو ایک خالی الذہن چیز ہے لیکن جب وہ علم حاصل کرتا ہے، جب وہ باہر سے تجربات، مشاہدات، معاشرت اور ماحول سے رابطہ کرتا ہے تو وہ اس پر اثر انداز ہوتا ہے اور وہ اس کی طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے۔ اب قرآن کریم اگر مسلمانوں کی تعلیم ہے جس طرح کا ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ میرا علم میرا قرآن ہے تو قرآن کریم نے خود اس امت مسلمہ کو اپنی تعلیمات کی روشنی میں جو طبیعت اور فطرت بخشی ہے وہ ہے اعتدال کی۔ ‘ہم نے تمہیں ایک میانہ رو امت بنایا ہے’۔ یعنی انسان من الحیث انسان انتہا پسند ہے۔ اس کی خواہشات کی کوئی حد نہیں ہے۔ لیکن تعلیمات قرآنیہ کی بنیاد پر پھر اللہ نے ان کو میانہ رو بنایا ہے۔ تو ایک چیز تخلیقی ہوتی ہے، تخلیقی اعتبار سے انسان ہے، لیکن جب اللہ تعالی ایک انسان کو پیدا کرتا ہے تو پھر اس کو بناتا ہے خلیفہ، نائب بناتا ہے، وہاں پر جلعنا کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ یہاں بھی امت وسط کے ساتھ جلعنا کا لفظ استعمال ہوا کہ میں نے تمہیں بنایا ہے۔ تو اس اعتبار سے خود رسول اللہ صلعم کی حیات طیبہ ہو یا صحابہ کرام ہوں، اگر وہ پوری دنیا میں پھِیلے ہیں، اعتدال اور نرم رویوں کے بغیر کوئی نظریہ فروغ نہیں پاتا۔

آج اگر اسلام دنیا میں ہے، جہاں جہاں تک پھیلا ہے، تو وہ ظاہر ہے کہ نرم رویوں کے ساتھ پھِیلا ہے۔ شدت کے رویوں کے ساتھ کوئی نظریہ فروغ نہیں پاتا ہے۔ تو اس اعتبار سے مذہب کی بنیاد یہ ہے کہ سب سے اولین چیز جو انسان کو اللہ تعالی نے ایک حق ادا کیا ہے وہ آزادی کا ہے۔ آزادی، حریت، شرف انسانیت، احترام آدمیت، یہ قرآن کریم کے بنیادی اصولوں میں سے ہے، ‘ہم نے انسان کو محترم بنایا ہے’۔ اور پھر اس کو خشکی اور تری کا حاکم بنایا ہے۔ یعنی ایک ایسی آزادی کا تصور کہ اس کو وسائل کا حاکم بنا دیا ہے۔ تو آپ اس سے وہ چھینتے ہیں اور اس کو سلب کرتے ہیں تو پھر پوری دنیا میں تمام قومیں چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم ہوں، آزادی کو اپنا حق بھی سمجھتی ہیں اور آزادی کے لئے جنگ بھی لڑتی ہیں اور آج بھی آپ کی اقوام متحدہ نے اپنی آزادی کے لئے مسلح جنگ کو بھی جائز قرار دیا ہے۔ اس وقت بھی دنیا میں اگر کوئی قوموں کی آزادی کی جنگ لڑتا ہے تو اس کو مسلح جنگ کے لئے بھی اجازت عطا کرتا ہے پورا اقوام متحدہ اور اس کا انسانی حقوق کا چارٹر۔ اب اس سارے تناظر میں آپ دیکھیں، آپ نے افغانستان میں اپنی فوجیں اتار دیں۔

کہاں گیا آپ کا 1945 کی جنگ عظیم دوئم کے بعد بین الاقوامی اداروں کے ذریعے دنیا کو چلانے کا اصول۔ قوانین اور ضابطوں کے ذریعے دنیا کا اصول۔ آپ کے سیاسی ادارے، آپ کے مالیاتی ادارے، آپ کے دفاعی معاہدات، اس کی حیثیت رہ گئی ہے کہ نائن الیون کے بعد آپ نے پوری دنیا میں جا کر، افغانستان پر قبضہ کر کے یا عراق پر قبضہ کر لیا، لیبیا پر قبضہ کر لیا، شام پر آپ یلغار کر رہے ہیں، یمن کی جو صورت حال ہے، صومالیہ کی صورت حال ہے، مالی کی صورت حال ہے، چاڈ کی صورت حال ہے، ادھر وسطی ایشیا میں جائیں، آپ شمالی یورپ میں جائیں، چیچینا میں جائیں، بوسنیا میں جائیں، اس ساری دنیا میں جہاں جہاں مسلمان موجود ہیں، چاہے وہ ایشیا میں ہیں، چاہے وہ مشرق وسطی میں ہیں، چاہے وہ وسطی ایشیا میں ہیں، چاہے وہ رشین فیڈریشن کے علاقوں میں ہیں، چاہے وہ یورپ کے علاقے میں ہیں، چاہے وہ افریقہ میں ہیں، وہاں وہاں آپ نے جنگیں مسلط کر دی ہیں اس کے اوپر۔

جنگ بھی میری زمین پر لڑی جا رہی ہے، خون بھی میری زمین پر بہایا جا رہا ہے اور دہشت گرد بھی مجھے کہا جا رہا ہے۔  یہ وہ چیز ہے کہ جس طرح ہم اپنے چھوٹے سے ماحول میں تھانے کے ماحول میں، کہ پولیس گردی جسے کہتے ہیں کہ وہ تھانے میں مارتا بھی ہے اور اس کے باوجود دہشت گرد بھی وہ ہوتا ہے جس کو پیٹا جاتا ہے (قہقہ)۔ یہ پوری دنیا کی تھانے داری ہے۔ یہ نظریہ دنیا کو قابل قبول نہیں ہے۔ آپ قوموں کو ابھار رہے ہیں، اکسا رہے ہیں، برانگیختہ کر رہے ہیں اس بات پر کہ وہ انتہا پسندی کا مظاہرہ کریں۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، دیکھیے پاکستان میں کوئی انتہا پسند نہیں ہے۔ یہاں پر مذہبی لوگ رہتے ہیں۔ مذہبی جماعتیں ہیں۔ ان کا ایک پولیٹیکل رول ہے۔ اور وہ آئین اور قانون کے دائرے میں ہے۔ اب مجھے سمجھ میں نہیں آ رہی بات کہ اگر کوئی مذہبی شکل کا آدمی جس کی داڑھی بھی ہو، جس کی پگڑی بھی ہو، وہ تھوڑے سے بال بڑے کر لے، تو وہ پہاڑوں پر چلا جائے، وہ سو میں ایک یا دو بھی نہیں ہیں۔ ہزار میں کوئی دو چار ہو گا۔

وہ جو چھوٹا سا ایک طبقہ ہے جو کسی شمار میں نہیں ہے اس کے نام پر آپ نے اسلام کو الاٹ کر دیا ہے۔ سارے اسلام کو اسی سے تعبیر کر دیا آپ نے۔ اور یہاں جو ساری دنیا آپ کی مذہبی آپ کے ساتھ ہے، جمعیت علما کے صد سالہ میں پچاس سے ساٹھ لاکھ تک لوگ اکٹھے تھے، اس کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے؟ اس نے پوری دنیا کو ایک مثبت میسیج دیا۔ اگر ایک آدمی جو ہے جو داڑھی پگڑی کے ساتھ اسلحہ اٹھا لے وہ اسلام کی تعبیر بن جاتا ہے، یہ انصاف کے خلاف ہے۔ ایک ہے بنیادی بات۔

دوسری بات یہ کہ اگر انتہا پسندی کو کسی حد تک ہم تسلیم کر بھی لیں تو اس کو جہاد کہیں۔ پاکستان بنا، پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی بنی۔ پہلی دستور ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد بنائی۔ سنہ 1973 میں آپ کا آئین بنا۔ اس کے بعد قرار داد مقاصد اسی آئین کا حصہ بنی۔ اس کے اندر آپ نے اس ملک کی نظریاتی حیثیت کا تعین کیا۔ آپ نے اس ملک کو ایک اسلامی ملک کہا۔ آپ نے طے کیا کہ یہ پاکستان سیکولر نہیں ہو گا یہ مذہبی ہو گا۔ آپ نے مذہب کا تعین کیا کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہو گا۔ آپ نے آئین میں کہا کہ قانون سازی قرآن و سنت کے مطابق ہو گی۔ آپ نے آئین میں کہا کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون سازی نہیں ہو گی۔

پاکستان میں فرقہ واریت ہے کس فرقے کا اسلام؟ تو آپ نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل بنائی۔ سنہ 1973 سے لے کر آج تک تمام مکاتب فکر کے لوگ اس کونسل میں بیٹھ کر متفقہ سفارشات دے رہے ہیں۔ آج تک اس پر قانون سازی کیوں نہیں ہو رہی؟ ایک قدم ہم آگے نہیں بڑھ رہے۔ اب ظاہر ہے کہ جب آپ ایک مسلمان قوم کو ایک ملک دیتے ہیں اور اس کو آپ ایک خواب دکھاتے ہیں اور اس کو آپ ایک سر سبز و شاداب مستقبل دکھاتے ہیں، قوم کو دکھاتے ہیں۔ ستر سال ہو گئے آپ اس کی پیاس بجھانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ تو پیاسا آدمی بھی بدک کر سڑک پر آ جاتا ہے اور چیختا چلاتا ہے اور اپنی پیاس بجھانے کے لئے وہ شور بھی مچاتا ہے، احتجاج بھی کرتا ہے۔ آپ اس نظریاتی پاکستان میں اس کے نظریہ اور آئین کے مطابق اگر کوئی طبقہ مطالبات کرتا ہے، میدان میں آتا ہے تو آپ اس کو انتہا پسند کہیں گے؟

سیاسی طور پر جو لوگ صرف اقتدار کے حصول کے لئے سڑکوں پر نکلتے ہیں اور آئے روز وہ لوگوں کی نیندیں حرام کر دیتے ہیں، بد اخلاقی کے آخری حد کو چھو لیتے ہیں، اس کو تو کوئی انتہا پسند نہیں کہتا۔ وہ تو آزادی، روشن خیالی ہے۔ دیکھیں اگر مذہب اور حیا اور اقدار اور شائستگی کی بنیاد پر کوئی شخص کہتا ہے کہ پاکستان میں قانون سازی ہونی چاہیے تو آپ ان کو پیچھے دھکیلنے کے لئے ان پر الزام لگاتے ہیں کہ تم انتہا پسند ہو۔ کیونکہ آپ نے ایک فضا بنائی ہوئی ہے دنیا میں۔

تو یہ جو ناپسندیدہ عنوانات کو آپ نے مذہب سے جوڑ دیا ہے، مذہبی طبقے کے ساتھ جوڑ دیا ہے، اس سے شاید آپ کوئی اعتدال کا ماحول نہیں پیدا کر رہے۔ صرف مذہبی دنیا کو دفاعی پوزیشن پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اس قابل ہی نہیں رہے کہ وہ اپنے عقیدے اور مذہب کی بنیاد پر بات کر سکیں۔ باقی ہوتے ہیں حادثات اور واقعات۔ حادثات اور واقعات کے کوئی ضابطے نہیں ہوتے۔ وہ اچھے واقعات بھی ہوتے ہیں برے واقعات بھی ہوتے ہیں۔ ایک شخص کو لوگ پکڑ کر قتل کر دیتے ہیں، ایک شخص کو لوگ پکڑ کر بچا لیتے ہیں۔ یہ بھی واقعہ ہوتا ہے وہ بھی واقعہ ہوتا ہے۔ کل اگر کوئی مردان میں واقعہ ہوا تو اس کے اگلے روز چترال میں واقعہ ہوا ہے۔ کیوں مردان کے واقعے کو اچھالا جا رہا ہے اور کیوں چترال کے واقعے کی تعریف نہیں ہوتی۔

آپ سیاسی ماحول میں مملکتی ماحول میں اجتماعی ماحول میں قومی ماحول میں انصاف پیدا کریں۔ جب تک رویوں میں انصاف نہیں آئے گا۔ ہم ان کے حق میں اتنے معتدل ہیں کہ ستر سال سے ہم ان کو برداشت کر رہے ہیں۔ آج پاکستان میں آپ ایک اسلامی قانون سازی کریں دیکھیں آپ کے سول سوسائٹی اور لبرل طبقہ جو ہے وہ کیا شور مچانے لگ جاتا ہے۔ تو اسلام کے خلاف انتہا پسندی ہے۔ مذہب کے خلاف انتہا پسندی ہے، اپنے گریبان میں جھانک کر ان کو خود احتسابی کرنی چاہیے کہ وہ خود اسلام کے بارے میں کتنے تنگ نظر ہیں۔ ہم نے تو ہر محاذ پر ان کے لئے اتنے۔۔۔ یہ آج کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ یہ مسلسل ہماری تاریخ ہے۔ کتنی وسعت نظر کے ساتھ ہم نے اس دنیا کو قبول کیا، ان کے ساتھ بیٹھے، ان کے ساتھ ہم نے سیاسی اتحادیں کیں لیکن ایک ذرہ بھر وہ مذہبی کاز کے حوالے سے، مذہبی دنیا کو آگے بڑھانے کے لئے تیار نہیں ہو رہے۔

فرنود: بھارت کا جو انتہا پسند مذہبی طبقہ ہے۔ پاکستان میں بھی انتہا پسند پہاڑوں پر چڑھ رہے ہیں۔ کالعدم تنظیمیں بھی ہیں۔ ان کو آپ سے خاص طور پر پر شکوے ہیں۔ مطلب کہ وہ ریاست سے تو شکوے کرتے ہیں حکومتوں سے بھی کرتے ہیں لیکن آپ سے وہ تواتر سے شکوہ کرتے ہیں کہ جو پیاس ہماری ہے اس کے بجھانے کے لئے آپ اپنا پارلیمانی کردار ادا نہیں کر پا رہے ہیں۔ اور اپنی محفلوں میں یا اپنے لٹریچر کے اندر وہ باقاعدہ اظہار بھی کرتے ہیں۔ عام پاکستانی شہری کے علاوہ اس انتہا پسند طبقے کو آپ سے خاص طور پر بڑی شکایت ہے۔

وصی: میرا بھی ایک ملتا جلتا سوال ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے جمعیت علما ہند پاکستان کے حامی نہیں تھے۔ پاکستان بننے کے بعد آپ لوگوں نے 73 کے آئین کو تسلیم کیا اور ہم نے آپ سے ہمیشہ آئین، جمہوریت اور قانون کی بات ہی سنی ہے۔ تو اب بھی آپ نے جو بات کی ہے وہ ایک حوالے سے ہمارے لئے نئی ہے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ مذہب کے خلاف انتہا پسندی ہے۔

مولانا فضل الرحمن: بالکل صحیح ہے۔ اور مجھے اس کا ادراک ہے کہ ایک طبقہ ہے جو ہم سے شکایت کرتا ہے۔ میں دوبارہ اپنے جواب کی طرف واپس جاؤں گا کہ انتہا پسندی کو تو آپ نے ماحول دیا اور لوگوں کو انتہا پسندی کی طرف لے گئے۔ اب چاہے وہ فرقہ وارانہ انتہا پسندی ہے یا اسلام کے حوالے سے انتہا پسندی ہے، جو پہاڑوں میں چلے گئے ہیں تو ان کا ہم سے بھی یہی شکوہ ہے اور یہ اسی رد عمل کا شکار ہیں کہ آپ نے اس پاکستان میں مذہبی طبقے کی اسلام کی پیاس کیوں نہیں بجھائی۔ اب اس کو ہم فیس کر رہے ہیں کہ ہمارے اوپر جد و جہد لازم ہیں۔ ہمارے اوپر محنتیں لازم ہیں۔ میں صرف سیاسی جدوجہد کو آخری اور حتمی جدوجہد نہیں کہہ رہا اسلام کے حوالے سے۔ میں تمام ادارے جو اسلام کے لئے کام کرتے ہیں ان سب کو شامل کر رہا ہوں اپنی جدوجہد کے ساتھ۔

چاہے وہ دینی مدارس کا ہے، چاہے وہ خطیبوں کا ہے۔ چاہے وہ مبلغین کا ہے۔ چاہے وہ تحقیق و تصنیف کے لوگوں کا ہے۔ جس محاذ پر یہ لوگ دین اسلام کی خدمت کر رہے ہیں وہ ہمیں سپورٹ کرتے ہیں اور ہم ان کو سپورٹ کرتے ہیں۔ لیکن ان ساری چیزوں نے پاکستان میں اسلام اور مذہب کے حوالے سے ماحول کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ اسے بجھنے نہیں دیا۔ اس جدوجہد کو چلانے کے لئے نتائج اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ ماحول ہم بناتے رہیں گے۔ بڑھاتے رہیں گے۔ سیاست میں ضرور تھوڑی سی ہلچل رہتی ہے۔

ایک ہوتا ہے عام دعوت کا ماحول۔ دعوت کا ماحول ایک بڑا پرسکون ماحول رہتا ہے۔ اس میں کوئی زیادہ شور و غوغا کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مدارس اور خانقاہوں میں بھی زیادہ شور و غوغا نہیں ہوتا۔ لیکن سیاست کے ماحول میں شور و غوغا ہوتا ہے۔ تو ظاہر ہے جی کہ قانون سازی اور پارلیمان کے محاذ پر جو قوت کام کر رہی ہو گی اس کی طرف لوگوں کی نظریں ہوں گی، اس پر لوگ تنقید بھی کریں گے۔ لیکن تنقید اور تائید کا تناسب کیا ہے؟

ایک فیصد یا دو فیصد لوگ انتہا پسندی کا شکار ہیں اور پہاڑوں میں چلے گئے ہیں لیکن اس وقت پورے ملک کے تمام مکاتب فکر بیک آواز ایک پیج پر ہیں۔ چاہے ان کے دینی مدارس ہیں، چاہے ان کے سیاسی جماعتیں اور مکاتب فکر ہیں۔ مرحلہ بہ مرحلہ ایشوز کے اوپر وہ اکٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ان موضوعات کے اوپر اتفاق رائے کا مظاہرہ کیا ہے۔ اور آج بھی آپ ملک بھر میں دینی مدارس کا ماحول دیکھیں جہاں اس وقت لاکھوں بچے ہمارے دینی مدارس میں پڑھ رہے ہیں۔ وفاق المدارس کا ابھی امتحان ہوا ہے۔ اتنا بڑا نیٹ ورک گورنمنٹ کے پاس نہیں ہے۔ اتنا معیاری نیٹ ورک نیٹ تو آپ کے بورڈ کے پاس نہیں ہے۔ یہ سارا کا سارا چاہے وہ تعلیم کے میدان میں ہے، چاہے دعوت اور خانقاہوں کے میدان میں ہے، مختلف مکاتب فکر کے وہ آئین و قانون سے وابستہ ہیں۔

اسی کے اندر رہ کر جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی کے اندر رہتے ہوئے انہوں نے جدوجہد کو تسلسل دیا ہوا ہے۔ لہذا کسی کی شکایت ضرور ہو سکتی ہے۔ وہ اس کو حق ہے۔ لیکن اس شکایت کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ شکایت صحیح ہے اور جو لوگ کام کر رہے ہیں اور ننانوے فیصد اس پر اتفاق کر رہے ہیں اس پر آپ سوالیہ نشان لگا کر اس کی اہمیت ختم کر دیں۔ یہ بہت بڑا اہم کام ہے۔ اور کن حالات میں ہم کر رہے ہیں جبکہ آپ کو ان کی مشکلات کا اندازہ نہیں ہے۔ ستر سال سے اس پر پیش رفت کیوں نہیں ہوئی؟ مذہبی لوگوں کو تو حکومت نہیں ملی۔ پارلیمنٹ میں کوئی حصہ بن گئے۔ چار لوگوں کی کچھ آوازیں آ گئیں۔ اس میں آپ کو جدوجہد نظر آئے گی، فتوحات نظر نہیں آئیں گی۔

عدنان کاکڑ: مولانا، آپ نے مذہبی انتہا پسندی پر سیر حاصل بات کی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ دوسرے طبقات میں بھی انتہا پسندی موجود ہے۔ جب میں کسی مذہبی کارکن سے بات کرتا ہوں تو کہتا ہوں کہ آپ ریال لیتے ہیں، وہ مجھے کہتا ہے کہ آپ ڈالر لیتے ہیں۔ ہم اختلاف رائے برداشت کیوں نہیں کر سکتے ہیں؟ برداشت باہمی کا ماحول کیسے بنایا جائے؟

مولانا فضل الرحمن: حضرت کچھ ہمارے اندر اس قسم کے امراض موجود ہوتے ہیں۔ یہاں پر این جی اوز آتی ہے، سول سوسائٹی کے نام سے آتی ہیں، لبرل اور سیکولر کے تصورات کے ساتھ آتی ہیں اور وہ فنڈڈ ہوتی ہیں۔ این جی اوز کبھی ایسا نہیں ہے جو باہر سے فنڈڈ نہ ہو۔ اگر کوئی مسلمان یا اسلامی دنیا کی تنظیمیں رفاہ عامہ کے کام کرتی ہیں تو چونکہ کانسیپٹ ایک ہے این جی او کا، تو اس میں وہ خلط ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر میں این جی او ہوں اور ناجائز ہوں تو آپ بھی تو این جی او ہو۔ چلو یہ جو دینی مدرسہ ہے وہ بھی تو این جی او ہے۔ اس طرح خلط کرتے ہیں۔ اس طرح بات نہیں ہے۔ ایک مدرسے میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ کچھ اور ہے۔ دوسرا مدرسہ ہے اب مدرسے کا اشتراک تو دونوں کا ہے۔ لہذا اگر ایک مدرسہ ہے تو دوسرا بھی ہے۔ لیکن اس کے اندر پڑھایا کیا جا رہا ہے، نصاب تعلیم کیا ہے، تربیت کیا ہے، اخلاقیات کیا ہیں اس کے، اس میں تو فرق ہے نا جی۔ اسی طریقے سے ہمارے ہاں جو قوتیں باہر دنیا سے ایجنڈا لے کر ان کے ایجنڈے پر کام کرتی ہیں تو پھر ان کو پیسے بھی دیتی ہیں۔

اسی طریقے سے اگر کوئی مذہبی دنیا کے اندر کوئی ایسے لوگ ہیں جو باہر کا پیسہ لے کر یہاں کام کرتے ہیں تو اس کی نفی تو سو فیصد نہیں کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ ہماری دلیل بھی نہیں ہے۔ ہمیں وہ دیکھنا چاہیے کہ جو لوگ سنجیدگی کے ساتھ اور ایسے پروگرام کے ساتھ جس کو پبلک قبول کر رہی ہے، تو اس پر خوامخواہ کی تنقید۔  اگر ہم اپنے وسائل پر، اپنے کارکنوں کے چندوں پر اتنے بڑے جلسے کر سکتے ہیں، پروگرام کر سکتے ہیں اور احتجاج کر سکتے ہیں، جلوس نکال سکتے ہیں، تو ہم بھی تو ایک جماعت ہیں۔ اخراجات کی ہمیں بھی ضرورت ہوتی ہے لیکن کیا کیا وجہ ہے کہ ہم اس قسم کے دھندوں میں شریک نہیں۔

(جاری ہے)

اگلا حصہ: مولانا فضل الرحمن ایم ایم کی حکومت اور انتہا پسند تنظیموں پر اظہار خیال کرتے ہیں   

مکمل سیریز کے لنک

مولانا فضل الرحمن سے انتہا پسندی کے اسباب پر گفتگو  (پہلا حصہ)۔

مولانا فضل الرحمن ایم ایم کی حکومت اور انتہا پسند تنظیموں پر اظہار خیال کرتے ہیں   (دوسرا حصہ)۔

مولانا فضل الرحمن: اسلامی حکومت کا ماڈل، جمہوریت اور بلاسفیمی قانون (تیسرا حصہ)۔

مولانا فضل الرحمن: ایم ایم اے، کشمیر کمیٹی، صد سالہ تقریبات، مولانا سمیع الحق، عمران خان (چوتھا حصہ)۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments