ٹیلی ویژن پروگرام ، ریٹنگ کی دوڑ اور عوام کا رجحان


ہمارے یہاں ٹیلے ویژن پروگراموں کی بھِیڑ چال اور یکسانیت عام آدمی کو حیران کرتے ہیں۔ ٹیلے ویژن چینل کس بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں کہ ناظرین کیا چاہتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے جاننے والے ہم سے پوچھتے ہیں کہ آپ لوگ ایک ہی طرح کے ڈرامے کیوں بناتے ہیں۔ ایک دو موضوعات کے سوا، کوئی تیسرا موضوع کیوں نہیں، جس پر لکھا جائے۔ بعض اوقات سمجھانا مشکل ہوتا ہے۔

پہلے اس بات کو سمجھیے کہ کسی بھی نجی ٹیلے ویژن چینل کا دار و مدار اشتہارات پر ہوتا ہے۔ اشتہاری کمپنیاں سروے کی بنیاد پر اشتہارات کی تقسیم کرتی ہیں۔ پاکستان کی اشتہاری کمپنیاں 2007ء سے پہلے گیلپ کے سرووں پہ بھروسا کرتی تھیں۔ گیلپ کی ملک بھر میں ایک ہزار کے قریب ”ڈایریاں“ تھیں۔ ان کے نمایندے چنیدہ شہروں کے منتخب علاقوں میں جا جا کر، سوال کرتے، جواب اکھٹے کرتے تھے۔ یہ ادارہ اب بھی کام کرتا ہے۔ ایسے ادارے جو سروے کرتے ہیں، ان کے نتیجے کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ یہ جاننا بھی اہم ہوتا ہے، کہ سروے کے دوران کس طرح کے سوال اٹھائے گئے تھے۔ مثلا یہ کہا جائے کہ زید سب سے زیادہ مقبول ہے، تو دیکھنا ہوگا، کہ سروے کرتے سوال کیا منتخب کیا گیا تھا۔ اگر سوال تھا، کہ زید، اور بکر میں سے آپ کسے پسند کرتے ہیں، تو نتیجہ کا اعلان یوں ہونا چاہیے کہ زید کو بکر سے زیادہ پسند کیا گیا۔ نا کہ یہ کہا جائے کہ زید سب سے زیادہ پسند کی جانے والی شخصیت ہے۔ لیکن یہ بھی مکمل جواب نہیں ہے، دیکھنا یہ ہوگا، کہ کس شہر، شہر کی کون سی آبادی میں جا کر ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔ کتنے شہر منتخب کیے گئے، کتنے صوبوں کو سروے میں شامل کیا گیا، اور اسی طرح کے مزید معلومات کے بغیر نتیجے کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔

2007ء میں میڈیا لاجک کے ”پیپلز میٹر“ کے آنے کے بعد ”ٹارگٹ ریٹنگ پوائنٹ“ کو معیار تصور کرلیا گیا ہے۔ عرف عام میں اسے ”ٹی آر پی“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 2013ء میں سینٹ میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق، میڈیا لاجک نامی کمپنی پاکستان بھر میں نصب 900 میٹروں کی بنیاد پر ”ٹی آر پی“ کا اعلان کرتی ہے۔ سینیٹ میں پیش کی گئی اس رپورٹ کی تفصیل کچھ یوں ہے، کہ میڈیا لاجک کے 4000 ملازم ہیں، نو بڑے شہروں سے ڈیٹا اکھٹا کرتی ہے۔ ان میں کراچی، حیدر آباد، سکھر، ملتان، لاہور، فیصل آباد، گوجرنوالہ، راول پنڈی/ اسلام آباد، اور پشاور شامل ہیں۔ کوئٹہ یا بلوچستان کا کوئی شہر اس لسٹ کا حصہ نہیں۔ پرویز رشید نے سینیٹ میں بتایا کہ میڈیا لاجک کے مطابق، کراچی میں 1300 پیپلز میٹر، لاہور میں نو سو پیپلز میٹر، راول پنڈی/ اسلام آباد میں 600 پیپلز میٹر، جب کہ باقی 6 شہروں میں صرف 200 پیپلز میٹر نصب ہیں۔ جب کہ بلوچستان میں امن و امان کی کشیدہ صورتِ احوال کے باعث کوئی پیپلز میٹر نصب نہیں کیا گیا۔

پیپلز میٹرز ہو یا کوئی اور سروے ان کے نتائج ”سیمپل“ کہلاتے ہیں۔ یعنی محدود حلقے کے رحجانات کو دیکھ کر، ایک بڑے گروہ کے رحجانات کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ احوال یہ ہے، کہ تقریبا 45 فی صد پیپلز میٹر صرف کراچی شہر میں نصب ہیں۔ اسی سے اندازہ کیجیے کہ نیوز چینل ہوں، یا تفریحی، ان کی پروگرامنگ کراچی کی نمایندہ کیوں ہوتی ہے۔ باقی 55 فی صد بھی پاکستان کے شہری علاقوں میں ہیں۔ شہروں کے بھی وہ علاقے جنھیں امیر طبقے کا کہا جاتا ہے۔ جب کہ پس ماندہ علاقوں میں کوئی پیپلز میٹر نصب نہیں ہے۔ وجہ یہ بیان کی جاتی ہے، کہ یہ آلہ منہگا ہے، اور اس کی تنصیب وہاں نہیں کی جاتی، جہاں اس کے نقصان کا زرا سا بھی اندیشہ ہو۔ قیاس کیا جاتا ہے، کہ اورنگی ٹاون، لانڈھی کے ناظرین کس طرح کے پروگرام یا کون سا چینل دیکھتے ہیں، پیپلز میٹرز یہ بتانے سے قاصر ہے۔

اسی طرح پاکستان کے چھوٹے شہروں، اور دیہات میں کیا رحجان ہے، اس کا اندازہ لگانے کا انتظام نہیں۔ چوں کہ بلوچستان میں ایک بھی پیپلز میٹر نصب نہیں، اس لیے ٹی وی چینلوں پر بلوچستان کی نمایندگی کرتا کوئی پروگرام نہیں ہوتا، کوئی بڑا سانحہ ہو، تو ہو، ورنہ بلوچستان کی معمول کی خبروں کو نیوز بلیٹن میں جگہ نہیں ملتی۔ اس نکتے پر غور کیجیے، کہ پیپلز میٹر کے ڈیٹا سے ”رحجان“ کا اندازہ لگایا جاتا ہے، تو جہاں پیپلز میٹر نصب نہیں، وہاں کے رحجان کا ڈیٹا نہیں ملے گا، اور جہاں یہ آلہ تعداد میں زیادہ ہے، کہنے کو وہاں کے ناظرین کو متاثر کرنے کوشش کی جاتی ہے۔ یہ الگ بحث ہے، کہ کوشش کرنے والے اس معاملے میں کتنے بھٹکے ہوئے ہیں۔

اس طریقہ کار کے ناقدین کئی سوالات کرتے ہیں، پہلے تو یہ کہ نو شہروں میں نصب تین ہزار پیپلز میٹر فی آلہ 700 گھروں کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس لیے پیپلز میٹر کی بتائے گئے رحجان کو پورے ملک کا رحجان کیوں کر تسلیم کیا جائے۔ پھر یہ کہ کیسے ممکن ہے، پیپلز میٹر کی ٹیلے ویژن سے جڑی فریکوینسی سے اندازہ ہو، کہ کون سا پروگرام یا چینل زیادہ دیکھا جا رہا ہے۔ ایک تو یہ کہ کیبل آپریٹر چینل کی فریکوینسی تبدیل کرتے رہتے ہیں، دوسرا یہ کہ کوئی ایک چینل لگا کر بھول گیا اور کام کاج میں مصروف ہے، تو کیسے پتا چلے گا، وہ پروگرام دیکھا بھی جا رہا ہے، یا نہیں۔ اسی طرح دیگر اعتراضات ہیں، جن کے تسلی بخش جوابات نہیں ملتے۔

اگر ”ٹی آر پی“ کو سو فی صد درست بھی مان لیا جائے، تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دیکھا جانے والا پروگرام ”معیاری“ تھا، اس سے دیکھنے والوں کے ذوق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہی ”معیار“ ہمارے پروگراموں سے عنقا ہے۔ اسی طرح ہم ان الزامات کا تذکرہ نہیں کرتے، کیوں کہ ان کا کوئی ثبوت نہیں ہے، جن کے مطابق، اداروں کے مالکان ”ٹی آر پی“ خریدتے ہیں، تا کہ اپنے چینل کی زیادہ سے زیادہ ”ریٹنگ“ دکھائی جائے، کیوں کہ یہی ”ریٹنگ“ اشتہار کی تقسیم اور بہتر قیمت کا فیصلہ کرتی ہے؛ تو جب ”ٹی آر پی“ بتائے کہ فلاں پروگرام مقبول ہو گیا ہے، تو سبھی اس طرح کے پروگرام کی نقالی کرتے ہیں، کہ ایک ”ہِٹ“ ہے، تو سب ”فِٹ“ ہے۔ پیپلز میٹر پہ اشہاری کمپنیاں، اور اشتہاری کمپنیوں پر ٹیلے ویژن چینل کا انحصار ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے، کہ بالواسطہ طور پہ ہمارے ٹیلے ویڑن چینل کو مشتہر چلاتے ہیں، انھی کے فیصلے حرِف آخر ہوتے ہیں۔ دروغ بہ گردنِ راوی، راحت کاظمی کہتے ہیں، اب تلو گھی بنانے والا فیصلہ کرتا ہے، کہ ڈرامے کا ہیرو کون ہوگا، اور ہیروین کون؟

نوٹ: پہلی بار یہ کالم 25 فروری 2016ء ”ہم سب“ پر شایع ہوچکا ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments