مولانا فضل الرحمن: اسلامی حکومت کا ماڈل، جمہوریت اور بلاسفیمی قانون


عدنان کاکڑ: مولانا آپ نے فرمایا کہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے کوشش نہیں کی گئی۔ کیا آپ دیکھ رہے ہیں کہ مستقبل میں ایسی کوئی کوشش کامیاب ہو گی۔ اور جب اسلامی قوانین کی بات کرتے ہیں تو موجودہ دور میں کوئی ماڈل آپ کے ذہن میں؟ سعودی عرب، ایران یا کوئی اور ماڈل جس کو فالو کر کے اس طرح کے قوانین بنانا چاہیں گے؟

مولانا: یہ سیکولر طبقے کا اعتراض ہے۔ (زوردار قہقہہ)۔

عدنان کاکڑ: یعنی ہمارے ممبران اسمبلی ہی اچھے نہیں ہیں یا پھر۔۔۔

مولانا: نہیں نہیں ایسا نہیں ہے۔ دیکھیے آپ ماڈل کو چھوڑیے۔ آپ خود ماڈل بن جائیے۔ جب ہم خود ماڈل بنیں گے تو پھر سوال پیدا ہو گا۔ کیا یہ حضرت عمرؓ کے زمانے کے اقدام ہیں؟ کیا یہ حضرت عمر فاروقؓ کا انصاف ہے؟ کیا یہ ابو بکر صدیق کے زمانے کی فقر و فاقے کی زندگی ہے؟ یہ سوالات پیدا ہوں گے۔ تو اس ذہنیت نے نہ اسلامی نظام کو اس کے ماڈل کو قبول کرنا ہے جی۔ یہ ایک خاص طے شدہ فکر ہے کہ آپ لوگ انصاف جو ہے وہ آسمان سے اتار کر پبلک کے سامنے رکھ دیں تب بھی ان کو اس پر اعتراض ہو گا کیونکہ یہ معاشرہ آج کا ہے، پندرہ سو سال کے بعد کا معاشرہ ہے۔

میں اگر حکمران ہوں میرے اندر بیسیوں کمزوریاں ہوں گی۔ آپ حکمران ہوں گے بڑے اچھے مسلمان ہیں، نمازی ہیں لیکن بیسیوں کمزوریاں ہمارے اس معاشرے کے اندر ہیں۔ اور جو معاشرہ اتنی کمزوریوں سے بھرا ہو تو ہم بھی اسی معاشرے کے افراد ہوتے ہیں۔ لیکن آپ نے اپنے معاشرے، اس کی ساخت، اس کے مزاج، اس کی خواہشات کو اور اس کی ترجیحات کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔

ایک قانون سازی ہے ایک قانون سازی پر عمل درآمد ہے۔ آپ کی جو سیاسی جماعتیں ہیں جو پارلیمنٹ میں مسلط ہیں۔ آپ کی جو بیوروکریسی ہے، جو کل ملک کے نظام کو اپنے ہاتھ میں لیتی ہے۔ آپ کی جو اسٹیبلشمنٹ ہے، آپ کی جو عدلیہ ہے، افراد ہو سکتے ہیں لیکن مجموعی جو نظام ہے آپ کا، مذہب اس کی ترجیحات میں نہیں ہے۔

اب جب ملک کو چلانے والی دنیا کی ترجیحات میں مذہب ہے ہی نہیں، وہاں آپ ایک فرد و رہنما اور مولوی صاحب سے یہ سوالات کر رہے ہیں کہ آپ کے پاس اسلام کا ماڈل کیا ہو گا؟ میں ماڈل بنا کر دینے کو تیار ہوں۔ کیا آپ مجھے ضمانت دے سکتے ہیں کہ میری ترجیحات کے مطابق پاکستان کی بیوروکریسی چلے گی؟ اگر وہ تعاون نہ کرے تو سیاستدان حکومت کر سکتا ہے؟ اسٹیبلشمنٹ تعاون نہ کرے تو سیاستدان حکومت کر سکتا ہے؟ کیا حشر کر رکھا ہے آج کل؟ قہقہہ۔ تو یہ چیزیں بھی مدنظر رکھیں۔ ہم اپنے ماحول کو، اپنی صلاحیتوں کو، اپنی استعداد کو پوری طرح سمجھتے ہیں لیکن اگر ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو آپ مجھ سے فوری طور پر اسلام کا ماڈل پوچھتے ہیں؟ آپ اس کے تطبیق کو سیدھا خلافت راشدہ میں لے جاتے ہیں۔ قرون اولی کی طرف لے جاتے ہیں۔

میں تو جمہوری آدمی ہوں میں نے پبلک سے ووٹ لینا ہے، میرے تو کچھ لوگ آئیں گے اور کوئی آپ کے رنگ کا ہو گا کوئی اس کے رنگ کا ہو گا کوئی میرے رنگ کا ہو گا اور ان کا مجموعہ اسمبلی میں آ جائے اور پھر وہ کسی کے ساتھ مخلوط حکومت بنائے گا، پتہ نہیں بنا بھی سکے گا یا نہیں بنا سکے گا، لیکن پھر جو اس نے ملک کو چلانا ہوتا ہے، اس میں آپ کو انتظامیہ کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے، آپ کو عدلیہ کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے، آپ کو مقننہ کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے، اس پورے ماحول کو آج آپ دیکھ لیں۔ یہ آپ مجھ سے سوال کریں گے؟

جب میں حکومت مکمل بنا لوں گا، تب بھی اپنی حکومت کو انقلاب سے تعبیر نہیں کروں گا۔ جمہوری حکومتیں، انتخابات سے آنے والی حکومتیں، حکومتیں جانے کے بعد بھی جدوجہد کا حصہ ہوتی ہیں۔ وہ پھر بھی آخری حد نہیں ہوتی اور نہ ہی انقلاب کہلاتی ہیں۔ لہذا اگر ہم حکومت بھی کہلاتے ہیں، عارضی حکومت ہے چار سال پانچ سال کے واسطے۔ جلد ہی ختم ہو جائے گی۔ ایک ڈیڑھ سال سمجھنے میں لگ جاتے ہیں۔ اور ایک ڈیڑھ سال آگے انتخابات میں لگ جاتے ہیں، کشمکش میں لگ جاتے ہیں۔ تو آرزو میں گزر جاتے ہیں دو انتظار میں۔ قہقہہ۔ تو یہ آپ کی پولیٹیکس جو ہے، آپ کی زندگی ہے، مستقل حکمران تو آپ کی بیوروکریسی ہے، مستقل حکمران تو آپ کی اسٹیبلشمنٹ ہے جو ایک ترتیب کے ساتھ پورے ملک کے نظام کو سنبھالتی ہے۔ اس پورے ماحول کو چینج کرنا، اس میں تبدیلی لانا، اس کو اپنی فیور میں لانا، یہ ایک مستقل محنت چاہے گی، ان کو کنونس کیسے کریں گے، ان کو آمادہ کیسے کریں گے اور پھر آپ کا میڈیا ہے، آپ کے تجزیہ نگار ہیں، آپ کے تبصرہ نگار ہیں، ان کی اپنی دنیا ہے۔ وہ کتنی ہماری حوصلہ افزائی کرے گی؟ دو فیصد حوصلہ افزائی کرے گی۔ اٹھانوے (تنقید) کرے گی۔ اس ماحول میں ہم کام کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے ماحول میں جانے کے لئے کام کرنے دیجیے۔ کیونکہ مجموعی ماحول جو ہے وہ اس تصور کے بالکل خلاف ہے جو تصور ہم لے کر جا رہے ہیں لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں کچھ اعتماد کرنا ہو گا۔

چاہے وہ سوٹڈ بوٹڈ لوگ ہیں، چاہے وہ کلین شیو لوگ ہیں، مسلمان تو ہیں۔ قرآن کی تلاوت بھی کرتے ہیں، نماز بھی پڑھتے ہیں، مسجدیں بھی بھری ہوتی ہیں۔ مسلمان تو ہوتے ہیں جی۔ تو ان کو آپ کس طرح اپنی فیور میں لا سکتے ہیں اس کے لئے کچھ رول ہونا چاہیے آپ کا۔ وہ سمجھیں کہ یہ دیانت دار لوگ ہیں۔ ایسے ایسے ہم نے بیوروکریٹ دیکھے ہیں جو انتہائی ذہین ہوتے ہیں۔ بڑے گھاگ قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ہمارا ایک مولوی صاحب جو ہے وہ منسٹر بن جاتا ہے۔ وہ بچارا تجربہ کار بھی نہیں ہوتا۔ کہتا ہے کہ میں سپورٹ کروں گا اس آدمی کو۔ اس کو کامیاب منسٹر کے طور پر دکھانا ہے۔ اسی کو نیک نیت کہتے ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ میں خدمت کروں۔ تو یہ چیز بھی تو دنیا میں ہے کہ اگر ایک کرپٹ قسم کا سیاستدان منسٹر بنتا ہے تو اس کے ساتھ ان کا تعاون کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ لیکن جو نیک نیتی سے کرتا ہے تو بیوروکریٹ بھی چاہتا ہے کہ میں اس کے ساتھ تعاون کروں۔ تو ہم ایک ایسے ماحول میں کام کر رہے ہیں چاہے ان تمام چیزوں کو دیکھ کر ہم نے چلنا ہوتا ہے اور ایک خاص آئیڈیا جو ہے ہم کہیں کہ جی ماڈل کون سا ہے اور کس ماڈل پر چلیں تو یہ بڑا مشکل کام ہو جاتا ہے۔

وصی: مولانا آپ نے بہت اچھے طریقے سے بتایا کہ لمیٹیشن کیا ہیں۔ اگر کوئی ان جیسے لبرل سیکولر سن رہے ہوں تو ان کا ڈر اتر گئے ہوں گے کہ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ان مولوی سے۔ (قہقہہ)۔ لیکن مولانا صاحب یہ جو بلاسفیمی کا قانون ہے اس میں اگر ایک آدمی پوچھا جائے جس نے اس میں ترمیم روک رکھی ہے تو وہ آپ ہیں۔ ابھی آپ نے عندیہ دیا ہے کہ اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہونے دیں گے۔ یہ بتائیں کہ اس کا جو غلط استعمال ہے اس کے لئے نیا قانون یا طریقہ نہیں ہونا چاہیے؟ اس پر آپ کیا کہتے ہیں؟

مولانا: آپ پہلے مجھے یہ بتائیں کہ استعمال کب ہوا ہے؟ غلط استعمال تو بعد میں ہو گا جب استعمال ہو گا تو پھر غلط استعمال ہو گا۔ تو یہ بتا دو کہ کب استعمال ہوا ہے؟

فرنود: اسستعمال کی بات آپ سے عرض کروں تو جتنے بھی کیس سپریم کورٹ میں، خاص طور پر لاہور ہائی کورٹ میں ہوئے ہیں اس میں جو پروسیڈنگ چلتی ہیں اس کے دوران زیادہ تر کیسز ایسے ہوئے ہیں جن میں یا تو ثبوت نہ ہونے پر بری کر دیا یا یہ کہ اس کیس کو باقی رکھتے ہیں۔ باقی رکھنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ حمید اقبال ہیں وہ مار دیے جاتے ہیں یا راشد رحمان کیس لڑ رہے ہوتے ہیں وہ مار دیے جاتے ہیں۔ اس طرح کی صورت حال پیدا ہوتی ہے جیسا کہ ابھی پندرہ مہینے کے بعد سپریم کورٹ میں آسیہ مسیح کو اپنی بات کہنے کا، صفائی دینے کی تاریخ دی لیکن جیسے ہی پہنچے تو بینچ میں سے ایک جج اٹھ کر معذرت کر گیا۔ میرا خیال ہے کہ یہ ایک انگارہ بن گیا ہے جس کو کوئی جج اپنے ہاتھ میں لینا نہیں چاہ رہا ہے۔ وجہ مجھے بادی النظر میں یہ دکھائی دیتی ہے کہ ان کے پاس آسیہ مسیح کے حوالے سے ثبوت نہیں ہیں۔ اب اس کو بری کرنے کا وقت آیا ہے تو ایسا طبقہ ہے جو قمیضیں اتار کر باقاعدہ گجرات اور لاہور میں مظاہرے کرتے ہیں کہ ججز نے ان کے حق میں فیصلہ کیا تو پھر ہم میدان میں آ جائیں گے۔ اس صورت حال سے کیسے نکلا جائے؟

مولانا: قانون پر عمل درآمد جب نہیں ہو گا تو پھر اس قسم کے لوگ تو نکلیں گے جی۔ میں تو یہی کہہ رہا ہوں کہ یہ چیزیں جو انتہا پسندانہ رویے ہیں، یہ پیدا کیے گئے ہیں۔ جب آپ کا ملک ہے، اسلامی ملک ہے، اور اٹھارہ کروڑ مسلمان یہاں پر اسلامی جذبے کے ساتھ ہیں تو مسلمان کی ایک خصوصیت ہے۔

مسلمان بہت کچھ برداشت کر لے گا لیکن وہ اپنے رسولؐ اللہ کے بارے میں کچھ برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اب یہ نہ آج کی بات ہے، یہ پندرہ سو سال کی پوری تاریخ ہے۔ اور بہت سے لبرل قسم کے لوگ ہم نے دیکھے ہیں جو نماز نہیں پڑھتے، شراب پیتے ہیں، لیکن رسولؐ اللہ کے موضوع پر کوئی کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ کلمہ گو ہیں۔ اور دوسری چیز یہ ہے کہ آج تک قرآن میں کوئی تحریف نہیں کر سکا۔

عدنان کاکڑ: مولانا کچھ مذہبی عناصر ہیں جو کہتے ہیں کہ جمہوریت خلاف اسلام ہے۔ جب کہ آپ ہمیشہ جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں۔ دوسرا اسی سے جڑا ہوا سوال ہے کہ مولانا حسین احمد مدنی صاحب نے فرمایا تھا کہ وطن مذہب سے تشکیل نہیں پاتا۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں جمعیت کا اس پر کیا موقف ہے؟ پاکستان میں امت کا تصور اور جمہوریت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

مولانا: یہ تو ڈیبیٹس ہیں جو اہل علم کے درمیان چلتے ہیں کہ قومیں وطن سے بنتی ہیں۔ امت جو ہے وہ مذہب سے بنتی ہے۔ قہقہہ۔ پھر یہ امت کے الفاظ ہیں۔ آپ اقوام متحدہ کہتے ہیں، عرب الامم المتحدہ کہتے ہیں، افغانستان میں ملت متحد کہتے ہیں۔ ملت کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ تو انہوں نے اپنے برصغیر کی جو ساخت تھی اس حوالے سے کہ آپ پوری دنیا میں جائیں تو آپ مسلمان ہوں یا ہندو ہوں، آپ امریکہ میں جائیں گے تو آپ کو انڈین کہا جائے گا۔ کیوں کہا جا رہا ہے؟ تو وہ ایک وطنیت کا جو تصور ہے وہ اپنی جگہ پر ہے لیکن یہ علمی باتیں ہیں۔ اور علمی ڈیبیٹس ہیں، اس میں علامہ اقبال کی اور مولانا مدنی صاحب کی خط و کتابت بھی ہوئی ہے، علامہ اقبال نے حضرت مدنی کے خلاف ایک قطعہ بھی لکھا تھا۔ بعد میں انہوں نے بانگ درا سے وہ قطعہ نکال دیا جو پاکستان میں ابھی تک چھپ رہا ہے لیکن انہوں نے نکال دیا تھا۔

تو یہ علمی معاملات ہوتے ہیں اور اس کی بنیاد پر اس کو سیاسی بنا دیا جاتا ہے اور اس پر تنقید عام آدمی کرنا شروع کر دیتا ہے لیکن وہ باقاعدہ علمی مباحث ہوا کرتے ہیں۔ اب تو ہندوستان تقسیم ہو گیا ہے۔ اب جب ہندوستان تقسیم ہو گیا تو ہم نے منقسم ہندوستان کی بات کرنی ہے۔ اب پاکستان بھی منقسم ہو گیا ہے تو اب ہم نے منقسم پاکستان کی بات کرنی ہے۔ تو یہ جو بچا کھچا پاکستان ہے، اللہ اس کو محفوظ رکھے، تو اس کو تو چلانا ہے ہم نے۔ کچھ چیزیں ہوتی ہیں جو تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اگر آپ ستر سال کے بعد بھی سنہ سینتالیس سے باہر نہیں آتے تو یہ کس قدر رجعت پسندی ہے۔  آج بھی ہماری سیاست کانگریس میں پھنسی ہوئی ہے۔ آج بھی ہماری سیاست سنہ سینتالیس میں پھنسی ہوئی ہے۔ تو یہ رجعت پسندی ہے۔ آئیں اور پاکستان کی بات کریں۔ یہ ہمارا ملک ہے۔ ہمارے تمام جمعیت علمائے ہند کے جتنے لوگ پاکستان میں تھے وہ سب جمعیت علمائے اسلام میں شامل ہو گئے تھے۔ پوری جمعیت علمائے ہند تحلیل ہو گئی تھی اور ہندوستان میں پوری جمعیت علمائے اسلام تحلیل ہو گئی۔

کتنے بڑے لوگ تھے۔ کتنی وسعت نظری کا انہوں نے مظاہرہ کیا۔ پبلک کے فیصلے کو تسلیم کیا۔ پبلک کا فیصلہ آ گیا، اختلاف رائے تھا ختم ہو گیا۔ مولانا حسین احمد نے فرمایا کہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک مسجد ہے، جب تک مسجد بنی نہیں ہے تو اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ مسجد بننی چاہیے یا نہیں، لیکن جب بن گئی تو وہ مقدس ہے۔ اب پاکستان بن گیا ہے۔ اس کی خدمت کرو۔

عدنان کاکڑ: یہ اس تناظر میں ہے کہ جمہوریت اسلام کا حصہ نہیں ہے۔ اسلام کے خلاف ہے، اس وقت وہ امت کا تصور دیتے ہیں۔

مولانا: اسلام ایک مذہب ہے۔ جمہوریت ایک نظام حکومت ہے۔ اور اس کے اصول اگر اسلام سے متصادم ہوں تو پھر تو بات ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر بیعات کا نظام اس میں موجود ہے، شہادت کا نظام اس میں موجود ہے، عام آدمی کی بیعت، اس کے ووٹ کو اس سے تعبیر کرتے ہیں تو پھر جب ہمارے اکابر نے یہ فیصلہ کیا کہ انتقال اقتدار کے لئے اسلحے کی جنگ نہیں لڑنی، اب اسلحے کی طاقت اکٹھی کر کے اقتدار حاصل کرنا اور دوسرے کو ریاست سے نکال دینا، اس رواج کو ختم کرنا ہے۔ اب میرا اسلحہ پبلک ہے۔ اس کی آواز کے ساتھ میں نے اقتدار پر قبضہ کرنا ہے اور دوسرے سے اقتدار چھڑوانا ہے۔ تو اقتدار کی جنگ تو انسانی تاریخ میں چلتی رہتی ہے۔ اس کو تو آپ روک نہیں سکتے۔ لیکن اگر آپ پبلک کے سہارے سے تبدیلی کی رسم چھوڑ دیں گے تو آپ کو دوبارہ ڈنڈے سوٹے کی طرف جانا ہو گا۔ پھر دوبارہ تلوار کی طرف اور بندوق کی طرف جانا ہو گا۔ تو اس اعتبار سے اس کو مستقل طور پر حل کرنے کے لئے یہ راستے نکالے گئے۔ ہمارے اکابر نے اس پر اتفاق کیا ہے۔ ان ان اکابر نے اس پر اتفاق کیا ہے جو میرے نزدیک دین اسلام کے لئے حجت کا مقام رکھتے ہیں اور جناب رسولؐ اللہ تک میرے لئے سند کا مقام رکھتے ہیں، میں اتنے اکابرین ہند اور اکابرین پاکستان کے اس اجماع کو چند افراد کی رائے سے قربان کر دوں؟ یار خدا کا خوف کرو یار۔ یہ ہو نہیں سکتا۔ لہذا ہمارے اکابر نے اور تمام مکاتب فکر کے اکابر نے جن امور پر اتفاق کیا ہے ان متفقات کو دوبارہ چھیڑنا یہ اپنے پورے ملک کے نظام کی کایا پلٹ دینا، پھر سلامتی نہیں ہو گی۔

میں آپ کو بتا دوں کہ 2010 میں لاہور کے اندر تمام مکاتب فکر کے علما اکٹھے ہوئے اور اس کا مسودہ میں نے تیار کیا تھا خود۔ اور اس میں تمام حضرات متفق ہو گئے اس کے اوپر کہ دستور کے لحاظ سے ہمارے اکابرین نے جن جن چیزوں پر اتفاق کیا تھا آج اگر کچھ لوگ دوبارہ اٹھ کر اس کی نفی کر رہے ہیں، ہم نے اس پر دوبارہ بحث ہی نہیں کرنی۔ ایک دفعہ اس پر بات چھڑ گئی، اور ہم بھی اس کا حصہ بن گئے تو آپ کا پورا نظام کولیپس کر جائے گا (تباہ ہو جائے گا)۔ ہم اس نظام کے لئے سختی کے ساتھ یہ موقف اختیار کیا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ ہر زمانے میں کچھ لوگ تو ہمیشہ ہوں گے جو کسی بات سے اختلاف کرتے ہوں گے۔ یہ تو ہو نہیں سکتے کہ برطانیہ میں یا یورپ میں اگر جمہوریت ہے تو کوئی اس کے خلاف نہیں ہے۔ کیا آپ کے اس جنوبی افریقہ میں جہاں پر نسلی امتیاز کے خلاف منڈیلا نے تحریک چلائی اور وہاں آج انقلاب آ گیا ہے، تو آج وہاں اس انقلاب کے تصور کے خلاف وہاں ذہن موجود نہیں ہے؟ کالے کون ہوتے ہیں حکومت کرنے والے، ابھی یہ نظریہ موجود ہے۔ مگر اقلیت میں ہیں وہ۔

(جاری ہے)

اگلا حصہ: مولانا فضل الرحمن: ایم ایم اے، کشمیر کمیٹی، صد سالہ تقریبات، مولانا سمیع الحق، عمران خان 

مکمل سیریز کے لنک

مولانا فضل الرحمن سے انتہا پسندی کے اسباب پر گفتگو  (پہلا حصہ)۔

مولانا فضل الرحمن ایم ایم کی حکومت اور انتہا پسند تنظیموں پر اظہار خیال کرتے ہیں   (دوسرا حصہ)۔

مولانا فضل الرحمن: اسلامی حکومت کا ماڈل، جمہوریت اور بلاسفیمی قانون (تیسرا حصہ)۔

مولانا فضل الرحمن: ایم ایم اے، کشمیر کمیٹی، صد سالہ تقریبات، مولانا سمیع الحق، عمران خان (چوتھا حصہ)۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments