پریشان کن الجھن: اب ہمارا ہیرو افغان ہو گا یا پاکستانی؟


افغان فوجوں نے چمن کے علاقوں کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں 10گھنٹے تک بلا اشتعال فائرنگ اورگولہ باری کی۔ وہ پاکستانی علاقے میں ہونے والی مردم شماری پر ناراض تھے۔ نتیجے میں درجنوں پاکستانی شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔ پاک فوج نے جوابی کارروائی کی اور افغان فوج کی تین چوکیاں تباہ کر دیں اور افغان بارڈر پولیس کے تین درجن اہلکار ہلاک کر دیے۔

یوں تو افغانستان روز اول سے پاکستان کا دشمن رہا ہے۔ یہ واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی اقوام متحدہ کی رکنیت کی مخالفت کی تھی۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں کئی برس تک دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات منقطع رہے ہیں اور سرحدیں مکمل طور پر بند رہی ہیں۔ اب صورت حال دوبارہ کشیدہ ہے۔

افغان صدر اشرف غنی پاکستان کا دورہ کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔ افغان فورسز پاکستان پر حملے کر رہی ہیں۔ اگر دونوں ملکوں میں کھلی جنگ ہو گئی تو کیا ہو گا؟

ہماری پریشان کن الجھن یہ ہے کہ افغانستان سے اب کسی نئے فاتح نے پاکستان پر حملہ کر دیا تو ہمارا ہیرو وہ افغان حملہ آور ہو گا یا اس دھرتی کا دفاع کرنے والا کوئی پاکستانی سول یا فوجی لیڈر؟

اب تک افغانستان کی طرف سے جس حکمران نے بھی حملہ کیا ہے وہی ہمارا ہیرو رہا ہے۔ محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اور احمد شاہ ابدالی ہمیں اس قدر پسند رہے ہیں کہ ہمارے میزائیلوں کے نام ان پر رکھے گئے ہیں۔

اب افغانستان سے جنگ ہو گئی اور ہم نے ان پر غزنوی، غوری یا ابدالی میزائیل دے مارے تو افغانستان والے درہ خیبر کے اِس پار کے ان غزنوی حملہ آوروں کو کتنا مائنڈ کریں گے؟ ان کے اخبارات کی سرخیاں کیا ہوں گی؟ ان کے چینلوں پر کیا پٹیاں چل رہی ہوں گی؟ ’غوری نے کابل میں تباہی مچا دی، سینکڑوں ہلاک‘۔ ’غزنوی نے قندھار پر قہر ڈھا دیا، بے شمار افراد ہلاک‘۔ ’ابدالی نے جلال آباد پر حملہ کر کے اسے زمین بوس کر دیا‘۔

اب یہ بات ویسے تو درست نہیں ہے کہ ادھر پاکستان سے افغانستان پر حملہ ہو۔ یہ روایت کے خلاف ہے۔ خوشحال علاقے دوسرے ملکوں پر حملہ کر کے لوٹ مار کرنے اور لونڈیاں غلام بنانے کی بجائے اپنے ملکی وسائل سے ہی دولت کماتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین اور ہندوستان کے خوشحال علاقوں سے حملہ آور اس طرح دنیا فتح کرنے نہیں نکلے جیسے فاقہ کش قومیں نکلتی رہی ہیں۔ جہاں تک لڑنے کی صلاحیت کی بات ہے تو پنجابی اور پشتون جوان برطانوی راج کی فوج کی ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتے تھے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں بھی یہ اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ پاکستانی فوج میں پختونخوا سے لے کر کراچی تک کے وہی جوان شامل ہیں جو برطانوی فوج میں شجاعت کا نشان سمجھے جاتے تھے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہماری قوم کو تو یہی بتایا جاتا ہے کہ ہیرو خیبر پار سے ہی آتا ہے۔ کوئی مقامی شخص ہمارا ہیرو نہیں بن سکتا ہے۔ اسی لئے میزائیل تک ہم نے انہیں خیبر پار والوں سے معنون کیے ہیں جو اب ہم پر حملے کر رہے ہیں۔

چندر گپت موریہ، اشوک اور رنجیت سنگھ تو غیر مسلم ہونے کی وجہ سے ویسے ہی ڈس کوالیفائی کر جاتے ہیں، لیکن کوئی سابقہ غیر ملکی حالیہ دیسی بھی یہاں ایک دو نسل گزار لے تو وہ ہیرو بننے کا اہل نہیں رہتا ہے۔ ہمیں سہسرام میں پیدا ہونے والا شیر شاہ سوری بھی ہیرو نہیں لگتا۔ نہ ہی ہمیں علاء الدین خلجی کا ظفر خان نامی وہ سپہ سالار پسند ہے جو پے در پے منگول فوجوں کو شکست دیتا تھا اور اس کی منگول لشکر میں ایسی دہشت تھی کہ کسی منگول کا گھوڑا پانی نہ پیے تو کہا جاتا تھا کہ اس نے ظفر خان کو دیکھ لیا ہے۔ سکندر لودھی کا ڈومیسائل دیسی تھا۔ وہ ہیرو نہیں ہو سکتا۔ علاء الدین خلجی کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ اکبر بھی دیسی بادشاہ تھا۔ وہ ہمارا ہیرو نہیں ہے۔

بت پرست سکندر حملہ کر کے بت پرست پورس کو شکست دے تو وہ ہمارا ہیرو ہو گا۔ محمود غزنوی اور غوری تو خیر غیر مسلم دیسیوں سے لڑ رہے تھے۔ ان کو ہیرو ماننا تو قومی مجبوری ہے۔ لیکن ابدالی نے تو مسلمانوں کی حکومت والے علاقوں پر ہی بار بار حملے کیے تھے۔ ہمارا ہیرو وہ کیوں ٹھہرا ہے؟

بہرحال اب افغانستان سے جنگ ہو رہی ہے تو یا تو اس کے تمام مطالبات غیر مشروط طور پر مان کر اس کی شرائط پر اس سے صلح کر لی جائے، یا افغانستان کے ہیرو اسے واپس کر کے اپنی دھرتی کے افراد کو قومی ہیرو بنایا جائے۔ ورنہ پاک افغان جنگ کی صورت میں ہم معصوم سے پاکستانی عوام اسی پریشان کن الجھن میں مبتلا رہیں گے کہ اس جنگ میں ہمارا ہیرو افغان حملہ آور ہو گا یا پاکستانی دھرتی کا وہ سپوت جو ہمیں بچانے کے لئے اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہے۔

کیا ان میزائیلوں کے نام عزیز بھٹی، شبیر شریف، شیر خان، راجہ محمد سرور، سوار محمد حسین، محمد طفیل، راشد منہاس، محمد اکرم، محمد محفوظ یا لالک جان کے نام پر رکھے جا سکتے ہیں یا غزنوی، غوری اور ابدالی جیسے درآمد شدہ ہیروز پر ہی گزارا کرنا ہو گا؟


پاکستان کے برادران یوسف ہمسائے
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar