سلطان راہی اب سیاست کے اکھاڑے میں


یہ چار مئی کی شام کا واقعہ ہے۔ ٹی وی پر خبروں کے ایک چینل پر ناصر باغ لاہور میں منعقد ہونے والا پیپلز پارٹی کا دھرنا اور جلسہ براہ راست دکھایا جا رہا تھا۔ جس وقت میں نے ٹی وی چلایا اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے لیڈر قمرزماں جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ میں ٹی وی کی آواز تیز کرکے اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول ہوگئی۔ اچانک ٹی وی سے آتی نعروں کی آوازوں نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ نعرہ پنجابی میں تھا، ’دس نوازشریف کیتا کی اے؟‘

ایک پل کے لئے ایسا لگا جیسے سلطان راہی اب سیاست کے اکھاڑے میں لوٹ آیا ہے۔ میں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ٹی وی پر نظریں گاڑ دیں۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے میں کوئی سیاسی جلسہ نہیں بلکہ کسی پنجابی فلم کا کوئی سین دیکھ رہی ہوں۔ صرف اتنی کسر باقی لگ رہی تھی کہ خطاب کرنے والوں سمیت تمام سیاسی نعرے بازوں کے ہاتھوں میں گنڈاسے، جو پنجابی فلموں میں سلطان راہی ہاتھ میں پکڑ کر اسی قسم کے ڈائیلاگ چیخ چیخ کر بولتا تھا، پکڑا دیے جائیں تو سینکڑوں سلطان راہی نظر آنے لگیں گے۔ میری نگاہوں کے سامنے سلطان راہی کی فلموں کے بے شمار اسی طرح کے ڈائیلاگ بولتے ہوئے مناظر گھوم گئے۔

میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ واقعی جس ملک کی سیاست کا یہ حال ہوجائے کہ وہ سیاست کم اور کبڈی کا اکھاڑا یا پنجابی فلموں کا چربہ زیادہ لگنے لگے تو اس ملک کا حال تباہی وبربادی کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیڈران جب سلطان راہی بن جائیں گے تو یہ کوئی پنجابی فلم تو ہے نہیں کہ پوری فلم میں سلطان راہی سینکڑوں قتل کرکے فلم کے آخر میں اپنی ماں سے کہے کہ ’ماں مینوں معاف کردے‘۔ اگر دیکھا جائے تو ہو یہی رہا ہے کہ لیڈران سلطان راہی بنے پھر رہے ہیں اور انھوں نے ملک بھر میں قتل و غارت اور لوٹ مار مچائی ہوئی ہے مگر پتا نہیں وہ دن کب آئے گا جب انہیں بھی سبق حاصل ہوگا اور یہ اس دھرتی اور اس کی عوام کو ماں مان کر کہیں گے کہ ’ماں مینوں معاف کردے‘۔

سیاست دانوں نے اس ملک کو ملک رہنے ہی کب دیا ہے۔ علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا نہ کہ کبڈی کے اکھاڑے کا یا پھر اس ملک کا جس کے لیڈران ہاتھوں میں گنڈاسے پکڑے سلطان راہی بن جائیں۔ آج کل تو پورا ملک کبڈی کا اکھاڑا نظر آتا ہے۔ کبڈی کے میدان میں تو پھر بھی دو ٹیمیں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے کو ہرانے کے لئے اپنی مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کی ٹانگیں کھینچتی ہیں یا پھر انہیں گرا کر چت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر جناب یہاں تو سیاسی پارٹیوں کی شکل میں بے شمار ٹیمیں ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ہر ٹیم کا موقف تو ایک ہے مگر سب نے الگ الگ، اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مساجد بنائی ہوئی ہیں۔ ہر سیاست دان دوسرے سیاست دان کی ٹانگ کھینچ رہا ہے اور اسے گرا کر چت کرنے کی کوشش میں جتا ہوا ہے۔ اتفاق یہاں بھی نہیں ہے۔ آج تقریباً ہر سیاسی پارٹی حکومت کے خلاف جلسے کر رہی ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت وقت کے خلاف تو سب ہیں مگر الگ الگ پلیٹ فارم سے ہر کوئی اپنی اپنی جگہ حکومت کے خلاف بول رہا ہے مگر قائد کا دیا ہوا سبق ایمان، اتحاد اور تنظیم بھول چکا ہے۔

28 اپریل کو اسلام آباد میں عمران خان کی صدارت میں تحریک انصاف کا ایک بہت بڑا جلسہ منعقد ہوا۔ اس جلسے میں دوسری سیاسی پارٹیوں کے ایسے لیڈران نے بھی شرکت کی جو حکومت کے خلاف تھے۔ یہ جلسہ بھی نیوز چینلز پر براہ راست دکھایا جارہا تھا۔ اس دوران مجھے کسی نیوز چینل کی اینکر کا ایک سیاسی لیڈر سے کیا گیا سوال بہت اچھا لگا جو کچھ یوں تھا کہ سر جب آپ لوگ نواز شریف کے خلاف اس جلسے میں شرکت کر رہے ہیں تو آپ لوگ اپنی پارٹی سمیت تحریک انصاف میں کیوں شامل نہیں ہوجاتے؟ جب کہ آپ سب کا مطالبہ بھی ایک ہی ہے۔ اس سوال کا ان لیڈر سے کوئی جواب بن نہ پڑا۔ وہ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے پائے۔ شاید ان لیڈران کو یہ بھی پتا نہیں کہ وہ مخالفت برائے مخالفت کر رہے ہیں یا واقعی ان کا کوئی مقصد بھی ہے۔ اور اگر ان سب کا مقصد ایک ہے تو پھر سب سیاسی جماعتیں الگ الگ پلیٹ فارم سے کیوں لڑ رہی ہیں؟ لگتا ہے ان سب باتوں سے بے خبر ہیں یہ لوگ۔

مگر جناب یہ ہیں ہمارے ملک کے معزز سیاسی لیڈران، ہاتھوں میں گنڈاسہ پکڑے ہوئے اور ملک کو کبڈی کا اکھاڑا بنائے ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).