پیپلزپارٹی کا دکھ


پیپلز پارٹی نے مدمقابل جماعتوں اور محالفین کے طرز سیاست کا جواب ان ہی کی زبان میں دینے کی بجائے ہمیشہ جمہوری اصولوں کی پاسداری کو مقدم رکھا اور کئی محاذ پر مات کھائی ہے۔ انتقامی سیاست سے گریز کیا ہے۔شہید بے نظیر بھٹو نے تو موم کی گڑیا کا کردار نبھایا۔ باپ کے قتل کا غم ، بھائیوں کی جدائی ، شوہر کی قید تنہائی، پارٹی کے ہزاروں کارکنوں کا قتل اور اپنے اوپر ہونے والے بیشمار مظالم کے باوجود شہید رانی نے پاکستان کے استحکام ، غریب عوام کے حقوق کی خاطر نواز شریف کو بھائی قرار دیااور سیاست کی نئی طرح ڈالنے کیلئے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔

اس کے بر عکس مدمقابل قوتوں نے پراپیگنڈا وار میں اخلاقیات کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے شرم ناک کردار ادا کیا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت سمیت کارکنوں کیخلاف جھوٹے مقدمات بنا کر پابند سلاسل کیا۔ قومی اور عوامی منصوبوں کو محض اس بنا پر سبوتاژ کیا کہ پیپلزپارٹی کے شروع کردہ تھے۔ پیپلزپارٹی کو میدان سیاست سے باہر کرنے کیلئے غیرجمہوری ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ کبھی آئی جے آئی بنا کر سیاستدانوں کی خریدو فروخت کی گئی اور کبھی چھانگا مانگا میں منڈی سجا کر پارلیمنٹ کے کارکنان کی بولیاں لگائی گئیں۔ قتل و غارت گری کے بازار گرم کیے گئے۔ کبھی مذہبی انتہا پسندی کو پیپلز پارٹی کے مقابل لا کر حق و باطل کا بکھیڑا کھڑا کیا گیا۔ طالبان سے ہاتھ ملا کر پیپلزپارٹی کی قیادت کو راستے سے ہٹانے سمیت ہر وہ کوشش کی گئی جس سے پیپلزپارٹی کا نام و نشان باقی نہ رہے۔

اتنے زخم کھانے کے بعد بھی پیپلزپارٹی نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا اور جب مخالفین ہر طرف سے گھیرے میں آچکے تھے تو پیپلزپارٹی ہی نے غیر ت جمہوریت میں رائے ونڈ کو خون آشام غیرجمہوری آسیب سے نجات دلائی۔ یہ وہی آصف زرداری تھے جنہیں ناکردہ گناہوں کے جرم میں قید و بند رکھا گیا اور بے شمار جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر جس کی زندگی عذاب بنادی گئی تھی۔ دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھا پھر اسی آصف زرداری نے ہر موڑ پر نواز شریف کی گرتی ہوئی دیواروں کو کندھا دیاہے۔یہ پیپلزپارٹی کی جمہوری سیاست ہے یا پیپلز پارٹی کا جرم ہے۔ فیصلہ عوام کریں گے کہ 1990 کی سیاست کا خالق کس رعایت کا مستحق ہے۔ جس نے آج بھی روش نہیں بدلی ہے۔ جس کے میڈیا منیجر آج بھی نفرت کا کاروبار کر رہے ہیں۔

جبکہ دوسری جانب پیپلزپارٹی ہے۔ جس نے میڈیا منیجر رکھنے کا تکلف ہی نہیں کیا ہے۔ محالفین کے خلاف میڈیا پراپیگنڈا تو دور کی بات ہے۔ جو ڈھنگ سے اپنا دفاع بھی نہیں کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی اپنا میڈیا سیل ضرور بناتی ہے لیکن کبھی اس میں کوئی پروفیشنل صحافی یا تجربہ کار میڈیا منیجر نہیں بٹھایا ہے۔ خدا جانے پیپلزپارٹی میڈیا کے لوگ کہا ں سے لاتی ہے۔ حالانکہ پیپلزپارٹی کے ہم خیال منجھے ہوئے صحافی بے شمار ہیں۔ یہ نہیں کہ پیپلزپارٹی مدمقابل قوتوں سے انہی کی زبان میں بات کرے مگر یہ ضروری ہے کہ اپنا میڈیا مضبوط کرے اور کم ازکم اپنا بھرپور دفاع کرے۔

کسی بھی سیاسی جماعت میں میڈیا سیل انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ میڈیا سیل بنیادی طور پر پراپیگنڈا سیل ہوتا ہے۔ پراپیگنڈا ضروری نہیں کہ منفی ہو۔ پراپیگنڈا اپنے پروگرام ، منشور اور پارٹی کی پرموشن کیلئے بھی کیا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کا دکھ یہی ہے کہ پیپلزپارٹی سب کچھ ہونے کے باوجود مات کھانے پر تلی ہوئی نظر آتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے چین کے ساتھ معاہدے ، ملازمتوں کی فراہمی ، بے نظرانکم سپورٹ سمیت بے شمار ایسے کام ہیں جس سے پیپلزپارٹی ایک بار پھر عوام میں مقبول ہو سکتی ہے۔ مگر اس کیلئے پیپلزپارٹی کو پریس ریلیز میڈیا نہیں بلکہ حقیقی میڈیا کو ضرورت ہے جو موقع بہ موقع پیپرز جاری کرے۔ میڈیا پارٹی کے منصوبہ جات اور مخالفین کی کمزوریوں کو اجاگر کرے۔ پارٹی کے اندر نیوز لیٹرز اتارے۔ پروگرامز کا انعقاد کرے۔ اپنی قوت اور صلاحیت سے غفلت ہی اصل میں پیپلز پارٹی کا دکھ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).