منٹو کو جینے دو


گذشتہ  دنوں  نندتا  داس کی نئ آٓنے والی  فلم “منٹو”  کا ایک  ٹکڑا  دیکھنے  کا  اتفاق ہوا،  جس  میں نوازالدین صدیقی منٹو کے روپ میں آزادئ خیال و اظہار پر گفتگو کرتے نظر آۓ۔ فلم کے عنوان پر نظر پڑتے ہی ڈیڑھ سال قبل ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم “منٹو” کا خیال آیا۔ 2015 میں سرمد کھوسٹ کی سینمائی تخلیق  کا بے پناہ چرچا رہا، لیکن فلم دیکھتے ہی تمام جوش جاتا رہا۔  منٹو کے چند شهرہ آفاق افسانوں کے جیتے جاگتے کرداروں سے تعارف تو ہوا مگر مصنف کا ان شاہکاروں کو قلم بند کرنے کا مقصد  پس پرده ہی رہا۔ نجانے یہ فلم ناظرین کو منٹو سے ملوانے کی ایک کاوش تھی یا پھر فلم ساز کا شہرت کی بلندیوں کو  چھونے کا اک ہتھیار۔ اب جب منٹو پر ہی مبنی نئی آنے والی فلم کا سنا تو دل مضطرب ہو گیا کہ کہیں یہ اسی کڑی کا حصہ تو نہیں۔

بچوں کے ادب کے دائرے سے نکل کر جب نوجوانی کے مطالعاتی دور میں قدم رکھا تو دیگر تصانیف کے ہمراہ منٹو کے افسانوں کو بھی روبرو پایا۔ انہی کہانیوں کے توسط سے منٹو کو پہچانا۔ مگر یہ پہچان کبھی روایتی نہیں رہی۔ ہمارے معاشرے میں ایک عرصے تک منٹو کو بطور”ممنوع لکھاری”  جانا جاتا رہا، ایک ایسا نام جو عموما اب بھی ہمارے “شرفاء” کے نازک اعصاب پر گراں گزرتا ہے۔ خوش قسمتی رہی کہ ایسے آنگن میں آنکھ کھولی جہاں یہی سکھایا گیا کہ سوچو! سوچنا گناہ نہیں۔ المیہ ہے کہ ہمارے یہاں سوچ کے خود ساختہ پیمانوں کو پھلانگنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اول تو کوئی یہ بوجھ اٹھاتا نہیں اور جو اٹھاتے ہیں وہ باغی کہلاتے ہیں۔

ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر

ان میں اک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن

مژدہء عشرت انجام نہیں پا سکتا

زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا

لہذا ذہن نے اُس منٹو کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جسے عدالتوں نے “فحش نگار” کے طور پر جنم دیا۔ اکثر یہ سوچتے سوچتے دماغ پھٹنے لگتا ہے کہ آخر منٹو ہے کیا؟ ایک فرد، ادیب، نفسیات دان یا پھر ایسا آتش فشاں جس کی تلخ تحریروں سے معاشرتی سیاہ کاریوں کا لاوا اگلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔  کیچڑ سے لتھڑے ہوۓ ضمیروں کو وہی مجرم نطر آیا جس نے جرم سے پردہ اٹھایا۔ منٹو پر فلمیں بننے کا جیسے دور سا چل پڑا ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ سینمائی تخلیقات اپنے دیکھنے والوں کو وہ کڑواہٹ محسوس کروا پائیں گی جس کے بارے میں منٹو نے کہا تھا کہ “نیم کے پتے کڑوے سہی مگر خون تو صاف کرتے ہیں”۔ مقصد تو یہ ہے کہ منٹو کی سوچ کو سمجھا جائے، اس کی شخصیت کو جانا جائے اور اس کے فہم کو سراہا جائے۔ انتظار ہے کہ آنے والی فلم نئی نسل کو منٹو کے فہم سے آشنا کرا پائے گی یا پھر اس کا مقصد بھی اداکاری کے جوہر دکھا کر فلمی دنیا میں اونچا نام کمانا ہے۔

نجانے پردے پر کتنے ہی منٹو ابھرتے رہیں گے اور اپنے اصل کی روح  کو تڑپاتے رہیں گے۔

خدارا! منٹو کو جینے دو۔

شمسہ رؤف
Latest posts by شمسہ رؤف (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).