نلکا چور کے لیے بھی جے آئی ٹی


 بھکر میں ایک زمیندار نے نلکا چوری کرنے کے الزام پر ایک نوجوان کے منہ پر جس طرح جوتے برسائے، مجھ میں طاقت نہیں تھی وہ وڈیو کھول کر دیکھنے کی۔۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہے، آپ دیکھ لیجیے۔۔۔۔۔ انسانیت کی تذلیل کا یہ منظر میرے لیے نیا نہیں تھا۔ خود ایک گاوں میں پلا بڑھا ہوں اور کم از کم دو بار ایک ڈیرے پر ایسے ہی ’’ عدالت‘‘ لگتے دیکھ چکا ہوں وہ بھی اس وقت جب آٹھ نو سال کا بچہ تھا۔۔ میں سہم گیا تھا اور آج بھی اس وقت کو یاد کرتا ہوں، نیم موئے ملزموں کے باہر آتے ڈیلے ذہن میں آتے ہیں تو لگتا ہے کسی نے میرا گلا دبا دیا ہو۔۔۔۔

ان پر بکری چوری کا الزام تھا۔۔ اور بھکر میں نلکا چوری کا۔۔ مجھے بہت بعد میں پتا چلا جب میں بلوغت کی عمر کو پہنچا کہ ’’بکری چوری‘‘ کس کو کہتے ہیں۔۔۔ پتا نہیں بھکر کے زمیندار نے کس چیز کو نلکا چوری کا نام دیا ہو لیکن ہر دو مثالوں میں یہ بات واضح ہے کہ طاقتور کو انصاف کے لیے پھٹیچر قسم کے اداروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اپنی ذات میں خود مدعی ہے، خود ہی منصف اور خود ہی جلاد۔۔ ۔ وڈیو دیکھے بنا میں انسان نہیں، انسانیت اور شخصیت کا کچور ہوتے دیکھ سکتا ہوں۔ ملک میں ہزاروں لوگ اسی کچلی ہوئی شخصیت کے ساتھ زندہ ہیں، اپنا لاشا کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں اور سر اٹھا کر نہ چلنے کی رسم کو دل و جان سے قبول کر چکے ہیں۔

نظام، سٹیٹس کو یہی تو چاہتا ہے۔ ملک تمھارا۔۔ علاقہ میرا۔۔۔۔ وڈیرہ شاہی اوپر بیٹھے حکمرانوں سے یہی تو مانگتی ہے، آئی جی تم اپنی مرضی کا رکھو علاقے میں تھانیدار میری مرضی کا۔۔۔ یہی تو غیر تحریر شدہ معاہدہ ہے جاگیرداروں کا حکمرانوں سے۔۔ ادھر تم ادھر ہم۔۔ ملک تمھارا حلقہ ہمارا۔۔۔۔ منہ پر جوتے کھاتے نوجوان کو دیکھ کر یہ خیال ضرور آتا رہا کہ ایک طرف نلکا چوری کا الزام ہے اور جاگیردار کا فوری ’’انصاف‘‘ ہے۔۔ اور دوسری طرف ملکی خزانوں پر ہاتھ صاف کرنے کا الزام ہے لیکن وہاں جے آئی ٹیز ہیں۔۔

آپ جاگیردار کو ظالم ضرور سمجھیں لیکن یقین کریں غریب اس چھترول پر بھی جان کی امان محسوس کر رہا ہو گا۔ جاگیردار پولیس کے حوالے کرتا تو چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا۔۔ ان جرموں کی بھی سزا پاتا جو کبھی سرزد ہی نہ ہوئے تھے۔۔۔ اور غالب امکان تھا کہ عدالت بھی پولیس رپورٹ کے مطابق گلنے سڑنے جیل بھجوا دیتی۔۔۔ لیکن پاناما لیکس کے ملزم کے بارے میں پانچ سینئر جج متفق ہیں کہ جن املاک کی ملکیت وہ قبول کر چکے ہیں، ان کے لیے وسائل اور وسائل کی منتقلی کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔ پرمجال ہے کہ سزا کا تصور بھی ہو ان کے لیے۔۔ ملزم مٹھائیاں بانٹتے پھرتے ہیں اور جے آئی ٹی سے نمٹنے کے ہنر آزما رہے ہیں۔۔ وہ طاقتور جو حکومت میں نہیں ہیں لیکن وہ بھی مزے سے ہیں۔ اربوں روپے کی چوری کا الزام ہے، وہ عدالتیں سے ضمانتیں لے چکے ہیں، سرکاری پروٹوکول لے رہے ہیں، تاج پوشیاں ہو رہی ہیں۔۔

تاہم مجھے یہ خوشی ہے کہ نظام کم از کم نلکا چور کو توکبھی نہیں چھوڑے گا۔۔ اس کے لیے جے آئی ٹی تو کیا، ایف آئی آر کی بھی ضرورت نہیں ہے۔۔ الحمدللہ۔۔۔

اسد حسن

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسد حسن

اسد احمد وائس آف امریکا کے نشریاتی ادارے سے وابستہ ہیں۔ اور اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے علاوہ کھیلوں بالخصوص کرکٹ کے معاملات پر گہری آنکھ رکھتے ہیں۔غالب امکان ہے کہ آئندہ کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران ّہم سبٗ پڑھنے والے اسد احمد کے فوری، تیکھے اور گہرے تجزیوں سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔

asad-ahmad has 16 posts and counting.See all posts by asad-ahmad