ٹیپو سلطان اور ہماراحکمران طبقہ


 ٹیپو سلطان کا یومِ شہادت آیا اور اس بار بھی چُپ چاپ گزر گیا۔ ہمارے بالادست طبقات نے سابق صدر سکندر مرزا کی اطاعت میں حسبِ سابق لب کشائی سے گریز کیا۔ٹیپو سلطان شہید کی تحسین ”جعفر از بنگال صادق از دکن“ کی مذمت کے مترادف ہے۔”ننگ ِقوم، ننگ ِدین، ننگ ِوطن“ خاندانوں کے سکندر مرزا کے سے فرزند ہی تو ہم پراپنا تسلط جمائے بیٹھے ہیں۔اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم سلطانِ شہید کوعلامہ اقبال کے ہم زبان ہو کر یاد کرسکیں۔

  آج 4 مئی ہے۔ آج سے دو سو سال پیشتر اسی تاریک دن ہماری کمان کا آخری تیر فرنگی فوج کے سےنے میں پیوست ہوا تھا۔۴ مئی 1799ء کو ٹیپو سلطان نے اپنے اس مقولے پر عمل کرتے ہوئے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے داد شجاعت دیتے ہوئے شہادت پائی تھی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کی خبر کے ساتھ ہی صرف سرنگا پٹم کے میدان پر ہی نہیں بلکہ بلادِاسلامیہ ہند کے نام سے موسوم پورے برصغیر پر موت کا سناٹا طاری ہو گیا تھا۔ انتہائی سراسیمگی کے اس عالم میں برصغیر کے جعفر از بنگال، صادق از دکن اور ان کی نسلی اور معنوی اولاد نے گیدڑ کی زندگی کے اوصاف کو اوصاف حمیدہ قرار دے کر اپنا لیا تھا۔ جب سے لے کر اب تک ہمارا حکمران طبقہ عوام کے دلوں سے شیر کی زندگی بسر کرنے کی تمنا کو مٹا ڈالنے میں کوشاں ہے مگر یہ تمنا ہے کہ مٹائے نہیں مٹتی۔ یہ کس قدر المناک حقیقت ہے کہ آزادی کی سترہویں سالگرہ منانے کے بعد آج ٹیپو سلطان کی یاد سے ہم بدستور ڈر رہے ہیں۔ ہمارے سیاسی اور تہذیبی مناظر پر آج بھی وہی موت کا سا سکوت طاری ہے وہی اٹوٹ سناٹا مسلط ہے جو آج سے دو سو سال پہلے سرنگاپٹم کے میدان پر ٹیپو کی شہادت کی خبر بن کر مسلط ہوا تھا۔ وہ میدان جو دو سو سال پہلے کفر و دیں کا کارزار بنا تھا آج وہاں بھارت کے لڑکے بالے کرکٹ کھیل رہے ہیں اور جس جگہ ہمارے ترکش کا یہ آخری تیر ٹوٹ کر گرا تھا وہاں یہ شوقیہ کھلاڑی اپنے جوتے رکھتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ ہم نے ٹیپو سلطان کی شہادت کی دو صد سالہ یادگار منانے کے لیے نہ تو کوئی بین الاقوامی سیمینار منعقد کیا ہے اور نہ کسی قومی سمپوزیم کا اہتمام کیا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں کوئی تقریب منعقد ہوئی ہے نہ کسی پریس کلب میں کوئی اجتماع منعقد ہوا ہے۔ ہمارا سرکاری میڈیا بھی اس شیر کی دھاڑ سے ناآشنا ہے اور ہمارے منبر و محراب بھی حریت کی اس لَے سے محروم ہیں؟….. اس لیے کہ گیدڑ کبھی شیر کی یاد نہین مناتاوہ تو اس یاد سے چھٹکارا پانا چاہتا ہے۔ اس پر تو شیر کی یاد موت کی کپکپی بن کر طاری ہو جاتی ہے۔ ہماری ساری کی ساری ترجیحات گیدڑ کی زندگی سے مستعار ہیں۔ بقول اقبال:

فیض فطرت نے تجھے دیدہ شاہیں بخشا

اور رکھ دی ہے غلامی نے نگاہ خفاش

اللہ نے تو ہمیں شاہین کی آنکھ دی تھی مگر مغرب کی غلامی نے شاہین کی اس آنکھ میں چمگادڑ کی نظر رکھ دی ہے۔ چنانچہ جب ہم چمگادڑ کی نظر سے دےکھتے ہیں تو ہمیں ٹیپو سلطان سے خوف آنے لگتا ہے کہ یہ شخص ہمیں ذلت کی زندگی چھوڑ کر عزت کی موت کی جانب بلاتا ہے۔ ٹیپو سے خوف دراصل زندگی کے ان معیار و اقدار سے خوف ہے جو اسلام سے پھوٹے ہوئے ہیں اور جن پر ٹیپو سلطان نے عمل کیا اور دائمی زندگی پائی۔ جب اقبال کے ایک پرستار نے ایک فوجی سکول قائم کیا اور اس اسکول کو اقبال کے نام سے منسوب کرنا چاہا تو اقبال نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اس سکول کو ”ٹیپو فوجی سکول“ کا نام دیں۔ اقبال کا استدلال یہ تھا کہ:

”ایک معمولی شاعر کے نام سے فوجی سکول کو موسوم کرنا کچھ زیادہ موزوں نہیں معلوم ہوتا۔ میں تجویز کرتا ہوں کہ آپ اس فوجی سکول کا نام ”ٹیپو فوجی سکول“ رکھیں۔ ٹیپو ہندوستان کا آخری مسلمان سپاہی تھا جس کو ہندوستان کے مسلمانوں نے جلد فراموش کر دینے میں ناانصافی سے کام لیا ہے۔ اس عالی مرتبت مسلمان سپاہی کی قبر زندگے رکھتی ہے۔ یہ نسبت ہم جےسے لوگوں کے جو بظاہر زندہ ہیں اور جو اپنے آپ کو زندہ ظاہر کر کے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ “(خط بنام میجر محمد سعید سلطان)

اپنی عظیم ترین تخلیق ”جاوید نامہ“ میں اقبال ٹیپو سلطان سے زندگی، موت اور شہادت کے اسرار و رموز سیکھتے نظر آتے ہیں اور انہیں عقیدت پیش کرتے وقت ”وارث ِجذبِ حُسینؑ“ قرار دےتے ہیں:

آن شہیدانِ محبت را امام

آبروئے ہند و چین و روم و شام

نامش از خورشید و مہ تابندہ تر

کاک قبرش از من و تو زندہ تر

عشق رازے بود برصحرا نہاد

تو ندانی جاں چہ مشتاقانہ داد

از نگاہ خواجہ بدر و حنین

فقرِ سلطاں وارثِ جذب حسین!

ہماری قومی تاریخ میں ٹیپو سلطان وہ عہد وآفریں شخصیت ہیں جنہیں سب سے پہلے یہ احساس ہوا کہ جو مغربی سامراج ہندوستان کے ساحلوں پر اترنے کو بے تاب ہے وہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پورے مشرق کو غلام بنانے کا پروگرام لے کر آرہا ہے۔ چنانچہ انھوں نے ایران، وسط ایشیا اور ترکی سمیت پوری دنیائے اسلام کو اس خطرے کے پیش نظر متحد اور مستعد کرنے کی کوشش کی۔ مشرق اس خطرے کا جیتا جاگتا احساس نہ رکھتا تھا اور انگلستان کو ان ہی مسلمان ممالک کے حکمرانوں میں سے چند ایک لوگ ٹیپو کی مجوزہ تدابیر سے پیشگی آگاہ کر دیتے تھے اس لیے وہ مسلمان ملکوں کو متحد اور سرگرم عمل کرنے میں ناکام رہا۔

ٹیپوسلطان کے عہد میں ہندوستان صنعتی طور پر انگلستان سے بہت آگے تھا۔ ہندوستان کی مصنوعات کی انگلستان میں درآمد پر ہی پابندی نہ تھی بلکہ ہندوستانی کپڑا خریدنا اور پہننا بھی قابل دست اندازی پولیس جرم تھا۔ ہندوستان میں مشین نہیں تھی۔ چنانچہ ٹیپو سلطان برطانوی استعمار کی رقیب فرانسیسی استعماری قوت سے مشین درآمد کرنے کے جتن کرتا رہا ۔وہ اسی رقابت سے فائدہ اٹھا کر اپنی بحری قوت کی ترقی میں کوشاں تھا مگر ”دوستوں “ کے” کرم“ سے ٹیپو سلطان کی یہ سب حکمت عملی ناکام رہی۔ٹیپو سلطان نے ترکی خلافت کی وساطت سے فرانسیسی حکومت سے خط و کتابت کی تھی جو خلیفة المسلمین نے اصل مکتوب الیہ کی بجائے ترکی میں برطانوی سفیر کے سپرد کر دی تھی۔ یوں سلطنتِ برطانیہ کی رقیب فرانسیسی حکومت تک ٹیپو سلطان کی یہ مراسلت کبھی نہ پہنچ سکی۔ اگر ٹیپو مشین درآمد کرنے اور اپنے ہاں مشینی دور کا آغاز کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو پورے مشرق کی گزشتہ دو سو برس اور آئندہ ہزاروں برس کی تاریخ مختلف ہوتی۔ انگریزوں نے واٹرلو کے میدان میں فرانسیسی فوج کو جو شکست دی تھی اس کا راز اسلحہ میں اس برتری میں پوشیدہ تھاجو انگریزوں کو ٹیپو سلطان کے اسلحہ خانہ سے لوٹے ہوئے اسلحہ نے بخشی تھی۔ اگر ہندوستان میں بروقت مشین آ جاتی تو ہمارے دستکار انگریزوں سے پہلے صنعت کار بن جاتے اور لنکا شائر سے پہلے ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات اطراف عالم میں پھیل جاتیں۔ ٹیپو سلطان کی جانبازی اور سرفروشی کے ساتھ ساتھ ٹیپو سلطان کا یہ نیا شعور ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد سے لے کر اب تک ان تمام قوتوں کے لیے ایک خطرہ بنا ہوا ہے جو اسلامی مشرق کو اپنی دائمی غلامی …..(سیاسی غلامی بھی اور تہذیبی غلامی بھی)…. میں رکھنے میں سرگرم عمل ہیں ہم کہ ابھی تک مغرب سے درآمد ہونے والی کلچرل افیون کے نشے میں مست ہیں، اپنی تاریخ اور اپنے ہیروز کو مغرب کی آنکھوں سے ہی دیکھتے چلے آتے ہیں اور آج بھی ٹیپو سلطان کی یاد کواپنے نئی نسلوں سے پوشیدہ رکھنے میں کوشاں ہیں۔علامہ اقبال ہمارے اور ہماری ملت کے اس طرح کے پرانے روگوں کے علاج کی فکر میں سرگرداں رہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی نظم ”سلطان ٹیپو کی وصیت“ میں ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو ان اصول و اطوار اور ان معیار واقدارکی جانب متوجہ کیا ہے جن سے ٹیپو سلطان کی شخصیت عبارت تھی۔ اس نظم کے آخری دو شعر یہ ہیں:

صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے

جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول

باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے

شرکت میانہِ حق و باطل نہ کر قبول!

ہم وہ لوگ ہیں جو اس وصیت کو فراموش کر دینے میں ہی اپنی نجات کا سامان تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جنہیں صبح ازل ابلیس نے یہ پٹی پڑھائی تھی کہ خبردار حق و باطل میں تفریق نہ کرنا ورنہ مارے جاو ¿ گے۔ موت کا خوف ہم پر اس درجہ مسلط ہے کہ ہم ٹیپو سلطان سے یہ سبق نہیں سیکھنا چاہتے کہ موت بھی زندگی کے مقامات میں سے ایک مقام ہے۔ ایک ایساخوبصورت مقام جو دوست کی جانب ہجرت کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ ہم اےسے لوگ ٹیپو سلطان سے ڈریں گے نہیں تو اور کیا کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).