جانباز چودھری کا بھارت پر پہلا اور آخری حملہ


چودھری کو دیکھتے ہی اُس کے ساتھ کوئی ہاتھ کرنے کو من کرتا تھا۔ وہ ہمارا ہاسٹل فیلو تھا۔ ایک تو ہر طرف سے چودھری؛ پھر اُس پر اکڑ کا اضافی ایزی لوڈ کروا رکھا تھا۔ ویسے تو ہر ایک پر رعب جمانے کی کوشش کرتا لیکن حماقت کے درجے کو پہنچی ہوئی سادگی، اُس کا ٹریڈ مارک تھی۔ اُس کو ہم اکثر گھیر لیا کرتے تھے، اس کا خرچہ کرواتے پھر اس کے چودھراہٹ والے کیڑے کو آرام دینے کی غرض سے اس کی بلے بلے کیا کرتے۔ جب کبھی اُس کا زیادہ خرچ کروا دیتے، تو اُس کی تعریفوں کا سیشن بھی لمبا کرنا پڑتا تھا۔

ایسا ہی ایک تعریفی سیشن جاری تھا کہ گوندل نے انکشاف کیا، چودھری کا پنڈ پاک بھارت بارڈر پر ہے۔ ہمیں اپنا طورخم بارڈر یاد آ گیا اس کے نزدیک رہنے والے شنواری اور آفریدی بھی۔ غصہ آیا تو چودھری کو سنا دیں کہ ڈوب کے مر جا ایک ایک گلاس جوس، دہی بھلے، فروٹ چاٹ کھلا کے ہی غش پڑ جاتے ہیں۔ بارڈر پر رہ کر بھی غریبوں والی طبعیت ہے؛ آنا پشاور، افغان بارڈر پر چلیں گے، دیکھنا ہمارے قبائلی کتنے امیر ہیں۔ اکثر کے پاس اپنے جہاز ہیں، یہاں ہماری مراد پکے سوٹے لگانے والے جہازوں ہی سے تھی، پر چودھری کو تاثر یہی دیا کہ اڑنے والے جہازوں کی بات ہو رہی ہے کہ اسے ایک دو نام لے دیے تھے ان تاجروں کے جو چارٹر پر اپنا کارگو منگوایا کرتے تھے۔ یہ حربہ کام دکھا گیا، چودھری فوری طور پر پھول گیا اور ہم سب کو اپنے پنڈ آنے کی دعوت دے ڈالی۔

دورہ تو ہم نے کیا لیکن یونیورسٹی چھوڑنے کے ایک لمبے عرصے بعد، اس دورے میں چودھری ہماری کچھ زیادہ ہی آؤ بھگت کرنے کے چکر میں رہا۔ ہمیں اپنا علاقہ دکھاتے پھر رہا تھا ایک جگہ کچھ دکھانا چاہتا تھا چلتی ٹریفک میں سڑک کے بیچ و بیچ گاڑی روک کر وہ ہمارے آفریدی مشر کا دروازہ کھولنے کو اُترا تو زوردار دھماکے کے ساتھ ایک موٹر سائیکل اسی کے دروزے سے آن ٹکرائی ۔ چودھری بے چارہ دروازے اور موٹر سائیکل کے بیچ میں رگڑ ہو کے زمیں بوس ہوا ۔ جب تک ہم گھوم کے اُس تک پہنچتے ہمارا چودھری اس بزرگ خاتون سے پٹ چکا تھا جو موٹر سائیکل والے کے ساتھ تھی، بغیر گنے پنج ست جتیاں (پانچ سات جوتے) چودھری کو اماں جی نے ہمارے پہنچتے پہنچتے لگائیں ۔ ہم نے اُلٹے پڑے چودھری کو سیدھا کیا تو وہ اماں جی بولیں، ”ہا ہائے اے تے ساڈا چودھری سی۔“ (ہا ہائے یہ تو ہمارا چودھری تھا)’’، خیر بات ہورہی تھی چودھری کے بارڈر پر نیا کاروبار شروع کرنے کی اندھی کمائی کرنے کی ۔

چودھری مان ہی نہیں رہا تھا تو اسے کہا کہ تم درحقیقت ”سردار“ ہو۔ چودھری نے شرماتے ہوئے تسلیم کیا کہ اس کا پردادا سکھ سے مسلمان ہو گیا تھا۔ معصومیت میں اقرار تو کر گیا ساتھ ہی گھبرا بھی گیا ، ہمیں فوری خبردار کیا کہ اگر کسی نے سرداروں والے لطیفے اس پر فٹ کر کے سنائے تو وہ بہت بری طرح سے پیش آئے گا۔ ہم نے اس کو تسلی دی کہ نہیں چودھری ہم تو حیران ہیں کہ بارڈر پر رہ کر تم پوری طرح امیر نہیں ہوئے۔ کیا بارڈر پر رہ کر امیر ہونا صرف فاٹا والوں ہی کا حق ہے؟ تمھارا حق نہیں ہے کیا؟ ساتھ ہی اس کو سمجھانے کے لیے ایک بالکل الٹ مثال دی کہ ”سردار“ بقلم خود خان حضرات کی ”عقل مندیوں“ کے پرستار ہیں۔ امریندر سنگھ نے ایک بار ہمارے مشر آفریدی کو بڑے پیار سے کہا تھا، ”یار تازہ خانا، جے اسی نہ ہوندے تے بس فیر تسی ہی ہوندے۔“ یعنی ہم نہ ہوتے تو بس تمھارا ہی نام ہونا تھا پھر عقل کی دنیا میں۔

چودھری کی سادگی دیکھیں کہ سرداروں کی خانوں پر یہ جگت سن کر چودھری لال ہونا شروع ہو گیا۔ ہم سب سمجھ گئے کہ اب اس کے دماغ کی گراریاں چل پڑی ہیں۔ شیطان وڑائچ نے لوہا گرم دیکھتے ہی چودھری کو گھڑ گھڑ کے قبائلیوں کی امارت کے جھوٹے قصے سنانے شروع کر دیے۔ جہاں کہیں چودھری کو شک پڑتا، شیطان وڑائچ کہتا، ”وسی سے پوچھ لے۔“ چودھری نے کہا، یار سب سمجھ آ گیا پر فرق بھی تو دیکھو ناں، فاٹا والے تو تجارتی سامان منگواتے ہیں۔ ان کی اس حوالے سے قانون بھی مدد کرتا ہے، میں بارڈر پر رہ کے کیا بیچوں گا؟ اس ’کیا‘ کی جگہ چودھری نے کچھ اور کہا تھا پر جانے دیں ہر بات بتانے والی ہوتی ہے بھلا ۔

ہمارا مستقل پوستی گوندل جو ہر وقت سائلنٹ پر لگا رہتا تھا بھی بول پڑا، یار بارڈر پر کتنے ہی خاندان سونا اِدھر اُدھر کر کے ارب پتی بن گئے ہیں۔ چودھری تلملایا، ”او لعنتیو تم لوگوں نے مجھے بارڈر پولیس سے گولی مروانی ہے کیا؟“ گوندل یہ سن کر تپ گیا اور چودھری کو غیرت دلائی کہ اپنے ایمان سے بتا، کیا ہمارے بڑے چور نہیں تھے؟ ساتھ ہی پوچھا او تم سچ مچ چودھری ہو بھی یا بنے ہوئے ہو؟ چودھری اکڑا کہ ہم اصلی چودھری ہیں، خاندان کے بارے میں کچھ کہا تو پھر میں ٹوں ٹوں کرنے لگ جاؤں گا۔ گوندل نے اُکسایا، تم صرف کانٹا تار سے پہلے موجود بھارتی کھیتوں سے فصلیں بھی اٹھوا لیا کرو، تو لاکھوں کما سکتے ہو۔ تمھیں ضرورت تو نہیں لیکن تمھاری سخاوت دیکھ کے جی چاہتا ہے تمھارے پاس زیادہ دولت ہو۔ یہ سن کر چودھری چپ ہو گیا۔ گوندل نے کہا وہ بھی کوئی بندہ ہے جو کسی کی مج گاں نہ کھول کر لا سکے یا پکی فصل نہ اٹھا سکے۔ اس کے بعد ہم نے اکثر دیکھا کہ گوندل اور چودھری اکٹھے بیٹھے غور فکر کر رہے ہیں۔

یونیورسٹی میں چند چھٹیاں ہوئیں تو چودھری اپنے پنڈ چلا گیا۔ پھر چھٹیاں ختم بھی ہو گئیں، سبھی یونیورسٹی پہنچ گئے، ایک چودھری نہ آیا۔ چودھری کا انتظار سبھی کو رہتا تھا، کیوں کہ وہ پنڈ سے کوئی نہ کوئی سوغات لایا کرتا تھا۔ ایک دن ہم چمن میں بیٹھے تھے، چودھری کو دیکھا کندھے پر سامان لادے تیز تیز قدم اٹھائے ہماری طرف چلا آ رہا ہے۔ سبھی لڑکے اکٹھے ہونے لگے کہ دیکھیں چودھری گھر سے کیا لایا ہے۔ چودھری ابھی فاصلے ہی پر تھا، کہ گوندل نے نعرہ لگایا، ”سنا چودھری؟ کیسے رہی پھر؟ آ گیا چھتر کھا کے؟“ چودھری نے سامان ایک طرف پھینکا اور گوندل کے پیچھے دوڑ لگا دی۔ ساتھ ہی ساتھ ٹوں ٹوں بھی جاری تھی، اور ہاتھوں سے اشارے الگ۔ گوندل کو اس ردعمل کا اندازہ پہلے سے تھا، وہ دوڑ کے درخت پر چڑھ گیا وہیں سے بولا مجھے پہلے ہی شک تھا کہ تم اصلی چودھری نہیں ہو، باقی لڑکوں نے چودھری کو جکڑ لیا کہ وہ درخت پہ نہ چڑھ سکے۔ نیچے کھڑا چودھری دیوانگی کے عالم میں گوندل پوستی کو زود اثر گالیاں دے رہا تھا۔

مقابل بھی گوندل تھا، نہ اُس کی بتیسی بند ہو رہی تھی، اور نہ چودھری کو منہ چڑانے سے باز آرہا تھا ساتھ یہ بھی پوچھ رہا تھا کہ تمھیں چودھری کہتا کون ہے اور بنایا کس نے ہے قدرت تو ایسا کر نہیں سکتی تھی ۔ اسی دوران وارڈن صاحب آ گئے تو چودھری کو سانپ سونگھ گیا، گوندل کو درخت سے اُتارا گیا۔ چودھری سے کہا گیا کہ وہ واقعہ بیان کرے تاکہ گوندل کو یہیں سنگ سار کیا جائے۔ چودھری نے منہ کھولا پر آواز نہ نکلی، یوں کچھ کہے بغیر ہی منہ بند کر لیا۔ چودھری کو آتشی گلابی ہوتے دیکھ کے سبھی کو سمجھ آ گیا، کہ چودھری کے ساتھ پھر سرداروں والی ہو گئی ہے۔

اب سب اصرار کرنے لگے کہ بتا ہوا کیا ہے۔ گوندل نے کہا، میں بتاتا ہوں؛ چودھری نے پنڈ واپس جا کے کمیوں اور عملیوں (جہازوں) کو اکٹھا کیا؛ اُن سے اپنی قوم قبیلے کی شان گم گشتہ بیان کی، حتی کہ ڈکیتی کو وقت کا تقاضہ قومی جرات کا نشان وغیرہ تو کہا ہی عین اسلامی تک قرار دے دیا۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ گوندل ہی کی شرارت تھی، اس نے ایک مولوی نما سے ڈاکے مارنے کہ عین اسلامی ہونے پر تقریر کروا لی تھی، ظاہر ہے مذاق میں ہی ۔ پنڈ میں چودھری کی اس تمام شرانگیز مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ دو عدد عملی یعنی جہاز اتنا سمجھ گئے کہ اگر وہ بارڈر پار کریں اور بالکل ساتھ والے کھیت سے کچھ اٹھا کر لائیں گے تو امیر تو ہو ہی جائیں گے ساتھ ثواب بھی ہوگا۔ چودھری کو اندازہ ہی نہ ہوا، کہ عملیوں نے اس کی باتوں سے کتنا اثر لیا ہے۔ انھوں نے ایک رات کسی وقت بھارتی حدود میں گھس کے وہاں سے ٹیوب ویل چلانے والی بیلٹ جو سو دو سو خرچ کر کے خریدی جا سکتی تھی اور چار لیٹر ڈیزل کا ڈبا، پاکستان اسمگل کر لیا۔ اس سے ان عملیوں نے اپنے دو چار پکے سوٹوں کا انتظام کر لیا ۔

نصیب کی بات ہے، یہ واردات بھی عملیوں نے اس رات ڈالی جس کی اگلی سویر وڈے چودھری صاحب ہمارے چودھری کو دنیا داری کی رمزیں بتانے بارڈر کی جانب واک کرانے لے گئے ۔ دونوں جب واک کرتے بارڈر کے نزدیک پہنچے تو وہاں ”سرداروں“ کا ایک سات آٹھ رکنی وفد انھی کا منتظر تھا۔ ان سرداروں نے اپنے کھیتوں کو پانی دینا تھا؛ نہ دے سکے تھے۔ ان کا نہ صرف سارے کام کا حرج ہو گیا تھا بلکہ پوری روٹین گڑبڑ ہو گئی تھی۔ کسانوں کے لیے وقت پر پانی دینے زمین وتر ہونے اور بیج ڈالنے کی یہ روٹین اور ان کے مقررہ اوقات بڑے اہم ہوتے ہیں۔ سرداروں نے چودھریوں کو دیکھا تو انہیں دیکھتے ہی باجماعت ہوکر گالیوں کی جھڑی ہی باندھ دی ۔

جب وڈے چودھری نے ان کو منع کیا تو تقریبا سبھی سرداروں نے اپنی دھوتیاں اٹھا کے اپنے زاتی اسلحے کی بیہودگی کے ساتھ نمائش شروع کر دی ۔وڈے چودھری صاحب ہتھے سے اکھڑ گئے اور سرداروں سے بولے کہ حیا کرو پاکستان تو اب بنا ہے ہمارے بزرگوں کے آپس میں پرانے تعلقات ہیں ۔سرداروں کو بھی تھوڑی شرم آئی تو انہوں نے پردہ کیا اور اپنے ساتھ ہونے والی واردات بیان کی ۔ ساتھ ہی بتایا کہ ان کی جانب سے جو جوان ٹھرے کی کپیاں سپلائی کرتا ہے اس نے چودھری کے پنڈ سے اتہ پتہ کر کے بتا دیا ہے کہ یہ سارا کارنامہ ہمارے چودھری کا ہے ۔ بس وڈے چودھری صاحب کی اک گھوری کافی ہوئی ہمارے چودھری نے اقبالی بیان کر لیا شائد اس امید پر کہ شاباشی ملے گی ۔ اس کے بعد چشم فلک نے بھی نزدیک ہو کر نظارہ دیکھا ہمارے چودھری کو اس کے ابا جی سے پڑتی کٹ کا ۔ سرداروں کی متواتر اپیلوں پنڈ والوں کے منت ترلوں کے باوجود چودھری صاحب نے گھنٹے دو لگا کر چودھری کی تسلی سے مرمت کی ۔ جب خود تھک گئے تو سرداروں سے بولے کہ سردارو چودھریوں کے منڈے حرامدے کم شم کر مر لیتے ہیں ۔ پر یہ کم اس نے ایسا کیا ہے کہ تم لوگوں کو دعوت دینی بنتی ہے کہ بارڈر پار کر کے آؤ اور اس کو پھڑکا لو اپنی تسلی مطابق ۔

چودھری صاحب نے اس سانحے کے تھوڑی ہی دیر بعد گوندل سے رابطہ کر لیا تھا۔ گوندل نے ان کے حضور حق سچ بیان کر دیا تھا ، ایک اچھے دوست ہونے ثبوت دیا تھا چودھری کی کٹ مزید پکی کر دی تھی ۔ اک سچے دوست کا ویسے بھی فرض ہوتا کہ وہ دوست کو صرف کٹ نہ پڑوائے اس کی مستقل بزتی کا بھی اعلی انتظام کرے ۔چودھری صاحب نے اس شرارت کو نہ صرف انجوائے کیا بلکہ ایک یادگار تبصرہ بھی کیا کہ منڈا تے اے میرا ای اے اور سچ یہ ہے کہ اپنے زمانے میں، میں اس سے بھی زیادہ بڑا سردار ہوا کرتا تھا۔ اس کو بھی ایک دن چودھریوں والی سمجھ بوجھ آ ہی جائے گی لیکن سیانا ہونے میں اسے مجھ سے زیادہ ہی وقت لگے گا۔ نکا چودھری اب بھی ویسے کا ویسا ہی ہے، البتہ گوندل کبھی کبھار یہ قرارداد پیش کرتا رہتا ہے کہ جتیاں اگر ہتھیار سمجھ لی جائیں تو ہمیں اپنے چودھری کو غازی قرار دے دینا چاہیے کہ گوندل خود گواہ ہے کہ نکے چودھری نے بھارت پر یلغار کا کتنا اعلی منصوبہ بنایا تھا ۔ بس تھوڑا غلطی ہو گئی کہ شہادت وڈے چودھری صاحب کے ہتھوں ہو چلی تھی۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi