کیا واقعی ذاکر نائک معصوم ہیں؟


پرفیسر جمیل چودھری صاحب کی تحریر ڈاکٹر ذاکر نائک کی آواز روکنا ظلم ہے پڑھنے کا موقع ملا۔ ہر ایک کو اپنی بات رکھنے کا حق ہے سو پرفیسر صاحب کی باتیں بھی سر آنکھوں پر لیکن اس سلسلہ میں کچھ باتیں ذہن نشین رہیں تو شاید بات سمجھنے میں اور آسانی ہوگی۔

ذاکر نائک صاحب کی کون سی بات ہے جو ان کے مخالفین کو گراں گذرتی ہے اس کو سمجھنے کے لئے ذرا دیر کو ایک صورتحال فرض کیجئے۔ مان لیجئے کہ پاکستان کے کسی شہر میں ہندو مذہب کا کوئی پیشوا یا اسکالر اپنے مذہب کی تبلیغ شروع کرے۔ وہ لوگوں سے کہے کہ ہندو مذہب ہی اصل مذہب ہے اور اس مذہب کو ہی اپنا کر انسان کامیاب ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں یہاں تک شاید کوئی کچھ نہ کہے لیکن اگر وہی شخص اپنا ایک ٹی وی چینل کھول لے، ہزاروں ہندوؤں کا مجمع لگا کر ہندو مذہب کو ہی صحیح اور باقی سب مذاہب کو غلط اور دھوکہ قرار دے، اتنا ہی نہیں وہ مسلمانوں کو ہندو بنائے جانے کا منظر ٹی وی پر نشر کرے، مسلمانوں کے مذہب کے سچا نہ ہونے کی دلیلیں ٹی وی پر دے۔ ایسے شخص کے بارے پاکستان کی حکومت اور عوام کا موقف کیا ہوگا؟۔

ذاکر نائک صاحب کی تبلیغ سے کسی کو تکلیف نہیں ہے، پریشانی اس سے ہے کہ وہ تبلیغ کس چیز کی کر رہے ہیں؟ ان کی دعوت کا انحصار جس یک سطری اصول پر ہے وہ یہ ہے کہ میرا مذہب اور میرا مسلک ہی صحیح ہے باقی سب کے سب گمراہ ہیں۔ یوں تو ہر ایک کو اپنا راستہ، اپنا موقف، اپنا مسلک اور اپنا دین صحیح ہی لگتا ہے لیکن جب میں یہ کہنا شروع کر دیتا ہوں کہ میرے علاوہ باقی سب غلط ہیں اور ان کا بیڑہ اسی صورت میں پار ہو سکتا ہے جب وہ میری راہ پر آ جائیں۔ یہ باتیں دل آزاری کا سبب بنتی ہیں۔ یہی فکر زیادہ آگے بڑھے تو امام بارگاہوں اور خانقاہوں میں دھماکوں، مہاتما بدھ کی مورتوں کے انہدام اور لال مسجد کی شکل میں نتائج سامنے آتے ہیں۔

ذاکر نائک صاحب اپنی تقریر میں مذہبی کتابوں کے صفحہ سطر کا حوالہ دیتے ہیں۔ یہ دراصل مناظرے کی نفسیات کا اہم نکتہ ہے۔ جب آپ دوسرے مذاہب کے بارے میں کوئی بات کرتے ہوئے اسی مذہب کی کتاب کا نام لے کر کوئی بات کہتے ہیں تو لوگ متاثر ہونے لگتے ہیں لیکن وہ اور مرعوب تب ہوتے ہیں جب آپ صفحہ اور سطر تک کا حوالہ دے دیں۔ اس حرکت کے بعد سننے والے کے دل میں کوئی شک باقی ہی نہیں رہ جاتا کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سولہ آںے سچ ہے۔

ذاکر نائک صاحب نے اپنی تقریروں میں غیر مسلموں کے سلسلہ میں جو باتیں کیں وہ نہ کہی جاتیں تو زیادہ اچھا ہوتا۔ انہوں نے مورتی پوجا کی تضحیک کی، جب رسول اسلام کی کئی بیویوں پر سوال ہوا تو انہوں نے کہا کہ کرشن جی کی تو نو لاکھ محبوبائیں تھیں، انہوں نے ہندو صحیفوں میں پائے جانے والے مبینہ تضادات پر سوال اٹھائے۔ ان سب باتوں میں جان ہو یا نہ ہو لیکن یہ باتیں بجائے خود اشتعال انگیز تو ہیں ہی۔

ذاکر نائک صاحب نے دہشت گردی کے سلسلہ میں جو باتیں کیں ان پر سوال اٹھنے لازمی تھے۔ ان سے بار بار سوال کیا گیا لیکن انہوں نے کبھی اسامہ بن لادن کو دہشت گرد نہیں کہا، انہوں نے فرمایا کہ جو امریکہ جیسے دہشت گرد ملک کو دہشت زدہ کرے ویسا دہشت گرد ہر مسلمان کو ہونا چاہئے۔ انہوں نے خود کش حملے کو جہاد میں امیر کے حکم پر جائز قرار دیا۔ یہ سب باتیں وہ ہیں جن سے شبہات پیدا ہوتے ہیں۔

ذاکر نائک صاحب کی تنظیم نے سنہ دو ہزار گیارہ میں راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کو پچاس لاکھ روپئے دیئے۔ اب ظاہر ہے انہوں نے یہ پیسہ دودھ بیچ کر تو کمایا نہیں تھا۔ کیا انہیں یہ وضاحت نہیں کرنی چاہئے کہ انہوں نے برسراقتدار جماعت کی این جی او کو یہ موٹی رقم کس مد سے دی تھی اور بدلے میں انہیں کیا ملا؟ ذاکر نائک صاحب نے صرف غیر مسلموں کو ہی نشانے پر نہیں رکھا بلکہ انہوں نے غیر سلفی مسالک کو بھی گمراہ قرار دیا۔ انہوں نے صوفی، شیعہ اور خانقاہی مکاتب فکر کو علی الاعلان غلط کہا۔ انہوں نے نواسہ رسول امام حیسن سے متعلق ایک سوال کے جواب میں یزید کو رضی اللہ عنہ تک قرار دے دیا۔ رسول اسلام سے دعا مانگنے والوں کو انہوں نے ان الفاظ میں نصیحت فرمائی کہ رسول مر چکے ہیں، مٹی میں مل چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے ذاکر صاحب جو کچھ کہہ رہے ہوں وہ ان کی دانست میں صحیح ہو لیکن یہ باتیں رسول اسلام کی نذر و نیاز کرنے والے کسی خانقاہی، صوفی اور ماتم کرنے والے کسی شیعہ کے لئے کتنی اذیت ناک ہو سکتی ہیں اس کا اندازہ بھی شاید نہیں کیا جا سکتا۔

ذاکر صاحب کے خلاف مالی بے ضابطگیوں کی جانچ جاری ہے۔ ان کے نام چار وارنٹ جاری ہو چکے ہیں۔ اب وہ فرما رہے ہیں کہ مجھ پرعالمی عدالت میں مقدمہ چلاؤ تب ہی پیش ہوں گا۔ ذاکر صاحب نے ٹی وی پر وعدہ کیا تھا کہ جانچ میں جب ضرورت ہوگی میں شامل ہونے آؤں گا اب وہ اپنی بات سے پھر گئے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ یہ عمل اسلامی اعتبار سے جائز ہے یا نہیں اس پر بھی ہم بحث نہیں کرتے۔ اب بس اتنا ہی کہنا ہے کہ اگر ذاکر صاحب واقعی بے قصور ہیں اور انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا تو انہیں آکر جانچ کا حصہ بننا چاہئے ورنہ ان پر ابھی اور سوال اٹھیں گے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter