منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ


دیواریں پہلے صرف دو ہوا کرتی تھیں ایک “دیوار گریہ”جس پر فلسطین کے یہودی آکر آنسو بہاتے اور اس کے روزنوں میں اپنی حاجات کی پرچیاں پھنساکر پوری ہونے کی امید لگاتے ہیں اور دوسری دیوار چین جو انسانی ہاتھوں کے بنائے ہوئے دنیا کے عجائبات میں سے ایک ہے۔ دیواروں کی کچھ قسمیں اور بھی ہیں ، ایک دیوار وہ تھی جس کے کان ہوتے تھے ۔اس لیے راز کی بات کرنے والے ہمیشہ کہا کرتے تھے”خیال کرنا دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں”۔ دیواروں کے کان اس زمانے میں اچھنبے کی بات ہوتی تھی آج کل  دیواروں کی آنکھیں بھی نکل آئی ہیں، مولانا فضل الرحمن کے پیٹ کے بال نظر آئیں ، چوہدری شجاعت مجرے میں لہراتے تھرکتے بدنوں سے لطف اندوز ہوں یا نواز شریف طیارے کی سیٹ پر سیٹ بیلٹ کے ساتھ ساتھ اپنا زار بند بھی باندھیں دیواریں سب کچھ دیکھتی ہیں اور محفوظ کرتی ہیں۔

دیواروں کی ایک قسم ہمارے شہروں میں آج کل پیدا ہونے لگی ہیں ، ایک دیوار مہربانی ہے جس پر لوگ اپنے پرانے کپڑے ٹانگ کے چلے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں بڑا پھنے کا کام کیاہے ، ایک قسم دیوار وں کی وہ ہے جس کی بنیادوں میں لوگ موتتے ہیں اور اس کے اوپر لکھا ہوتا ہے “کتا پیشاب کررہا ہے”۔ ہمارے شہروں کی دیواروں پر اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے ، کالے ، پیلے ، نیلے باباوں کے اشتہارات ، بڑے چھوٹے حکیموں کی جانب سے مایوس لوگوں کے لیے نویدیں ، صرف یہی نہیں دوگز کی دیوار پر حضرت انسان کی تمام پریشانیوں کا حل صرف ایک مشورے کی پہنچ پر ہوتاہے، پرائیویٹ سکولز کی جانب سے سال بھر داخلے جاری ہیں کی چاکنگ ،  کراچی کی دیواروں پر جماعت اسلامی کے اجتماع عام ، عاکف سعید کے خطاب اور ایم کیوایم کے مشہور نعرے چھائے رہتے ہیں ۔ کوئٹہ میں ہر گلی میں موجود چند گھروں نے اپنے قومی اتحاد بنالیے ہیں ، ہر موڑ پرایک نئے  قومی اتحاد زندہ باد  کے نعروں سے واسطہ پڑتا ہے ، مدارس کی دستار بندی ہو یا کسی بھی تنظیم کا جلسہ ، سبھی اپنے پوسٹر ان دیواروں پر چسپاں کرتے ہیں جو تازہ کلغی کی گئی ہو اور شفاف ہو۔ ہاں کچھ لوگ شریف ہوتے ہیں اپنے گھر کی دیوار پر کوئی نعرہ اور پوسٹر لگانے نہیں دیتے  ، وہ لوگ دیواروں پر بڑے حروف میں کلمہ طیبہ ، قرآنی آیات اور اسماء حسنی لکھ جاتے ہیں ، اب کوئی آئے مائی کا لال اور لگاکے دکھائے اس دیوار پر اپنا پوسٹر!؟ ایسے لوگ کلمے اور اسماء حسنی کا زبردست استعمال کرنا جانتے ہیں۔

یادش بخیر دیواروں کی ایک قسم پبلک باتھ روموں کی ہے ، یہاں قومی لیڈروں کے لیے زندہ باد مردہ باد کے نعرے ، اعضاء رئیسہ کے مختلف زاویوں سے خاکے ، زور آزمائی اور اس سے پرہیز ہر طرح کے مشورے  ،  شیکسپیئر کی طرح سوچنے کی ہدایات سبھی کچھ ملتاہے اور ایک خالی جگہ دیکھ کر کسی مصلح نے بڑا بڑا  کرکے لکھا ہوتا ہے :”یہاں لکھنے والے “سب” گدھے ہیں”۔

 دیواروں کی انوکھی قسم  فیس بک کی دیواریں ہیں ،یہ جدید قسم کی دیوار ہے ، جسے جام جہاں نما کہا جاسکتا ہے ۔ یہاں صبح سے شام تک لوگ شیطان کے روکنے کے باوجود شیئر نگ کرکے ثواب کماتے ہیں ، یہاں ہر روز کوئی نئی عالمی شخصیت مشرف بہ اسلام ہوتی ہے ، روز کوئی بالی ووڈ ادا کار مسلمان ہونے کے لیے پر تولتا نظر آتاہے ۔ آلو ،روٹی ، گائے ، گوشت اور نجانے کن کن چیزوں پر اسم اللہ کا نقش مل جاتا ہے ۔ ایک سروے کے مطابق اس کے پاکستانی صارفین میں سے دو تہائی دانشور ہیں اور ایک تہائی وہ جو پڑھنا نہیں جانتی ، وہ صرف تصاویر پر سبحن اللہ کہہ کر شیئر کا بٹن دباکر چلے جاتے ہیں ۔یہاں لوگ اپنا سب کچھ ٹانگتے ہیں ، جو کچھ اپنے گھر میں نہیں کہہ سکتے وہ یہاں آکر کہہ جاتے ہیں ، یہاں صحیح علم بھی ملتا ہے اور علم کی پیکٹ میں ملاوٹ زدہ  چیزیں بھی ، یہاں اصلی چہروں کے جعلی نام اور اصلی ناموں پر جعلی چہرے بھی سامنے آتے ہیں ، فرعون سے لے کر ، ابوجہل تک ، محمد بن قاسم سے احمد شاہ ابدالی تک ، قائد اعظم سے لے کر اقبال تک  ، فارابی سے لے کر آئن سٹائن تک سبھی کی دیواریں  موجود ہیں ، سبھی عالم ارواح سے یہاں آکر روز ہم سے ہم کلام ہوتے ہیں ۔ یہاں مزاح بھی ہوتا ہے مذاق اور ٹھٹھہ بھی ، اس دیوار پر تصویریں تحریریں اور ویڈیو سب ٹانگی جاسکتی ہیں ۔ یا یہ دیوار ایک بازار ہے جس میں سینما ، مسجد ، مندر ، مدرسہ ، علم ، جہالت ، تنگ گلیاں وسیع سڑکیں ، ننگے پوسٹر ، برقعے اور حجاب ، پنکچر کی دکان اور حجام ، جوتے پالش اور گاڑیوں کا بے ہنگم رش  سبھی کچھ نظر آتا ہے ۔

ایک قسم کی دیوار شاعروں کے گھروں کی بھی ہواکرتی تھی ۔ چچاغالب کے مکان پر سبزہ  اگ آتا تھا جب وہ باہر بیاباں میں ٹہلنے نکل جاتے تھے ۔  ناصر کاظمی کے گھر کی دیواروں پر اداسی بال کھولے سوجاتی تھی اور بار بار اٹھانے پربھی نہیں اٹھتی تھی ،جس سے وہ بہت پریشان رہتے تھے ۔ احمد فراز کا گھر سنا ہے کچا تھا  جس کی وجہ سے احمد فراز  کوبارشوں سے دوستی اچھی بھی نہیں لگتی تھی اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی ہے کہ جب ایک مرتبہ ان کے گھر کی دیوار گری تو لوگوں نے اس کے راستے بنادیے۔ اقبال ساجد مرحوم کے گھر کی دیواروں اور دروازوں میں ہروقت بھونچال سے رہتے تھے اور اس زلزلہ زدہ مکان میں رہنے کو وہ اپنا حوصلہ بتاتے تھے ، خدا کی پناہ !ان کے ہاں تو مہمان بھی آیۃ الکرسی پڑھ اور امام ضامن باندھ کے جاتے ہوں گے۔ اور خدا بخشے میر صاحب تو ہروقت  کسی دیوار کے سائے تلے  بیٹھا کرتے تھےاور کہا کرتے تھے ہم آرام طلبوں کو محبت سے کیا کام؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).