زندگی کے حق میں‌ ہماری غلطیاں‌، موت کے حق میں‌ ہمارے صحیح‌ سے بہتر ہیں۔


مشال خان کی اندوہناک موت کے بعد چھٹی لینے کی ضرورت تھی تاکہ دماغ پھر سے نارمل کام کرسکے۔ پاکستان پاگل ہوچکا ہے۔ برسوں پہلے ملک چھوڑ کر جانے والے اصلی یتیم ہیں‌ کیونکہ ملک وہ نہیں رہا جس کو چھوڑ کر گئے تھے۔ وہ ایک نفسیاتی مریض‌ بن چکا ہے جس کو پہچاننا مشکل ہوگیا ہے۔ ہمارا گھر دنیا میں‌ گم ہوچکا ہے اور ہم اصلی خانہ بدوش ہیں۔ کیا ہم سب اپنے اپنے بچپن سے بھاگ رہے ہیں؟ ہم کب تک بھاگتے رہیں‌گے، آخر کو رک جانا ہوگا اور ٹھہر کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ وہیں‌سے طاقت ڈھونڈنی ہوگی جہاں‌ سے شکستہ ہیں۔

ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے دنیا میں‌ میرا کوئی ملک نہیں۔ میں‌ اپنے بچوں‌ کو دوسرے ملکوں‌ کے لوگوں‌ سے اور مختلف خیالات یا عقائد رکھنے والے انسانوں سے نفرت کرنا نہیں‌ سکھا سکتی۔ نفرت کا انجام جنگ ہوتی ہے اور جب جنگ ہوتی ہے تو اس سے ہمارے خون سے سینچے ہوئے آشیانے اجڑ جاتے ہیں‌ اور ہماری گود خالی ہوجاتی ہے۔

کبھی ٹورسٹ گفٹ شاپ میں‌ آپ نے وہ سنو گلوب دیکھے ہیں جن میں‌ ایک شیشے کی بال میں‌ ایک شہر ہوتا ہے اور وہ پانی سے بھرا ہوتا ہے؟ جب اس کو ہلائیں‌ تو سفید زرے بکھر جاتے ہیں‌ اور ایسا نظر آتا ہے جیسے اس میں‌ برف باری ہورہی ہو۔ دنیا میں‌ جو لوگ مختلف علاقوں‌ میں‌ رہ رہے ہیں‌ وہ ان سنو گلوب کے اندر بند ہیں‌ اور ان کو نہیں‌ معلوم کہ اس گلوب سے باہر ایک بہت بڑی دنیا ہے اور وہ ساری ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ ایک گلوب سے دوسرے گلوب میں‌ ہجرت کرنے سے اور دوسرے سے تیسرے گلوب میں‌ جانے سے کچھ بنیادی باتیں‌ سمجھ آتی ہیں۔ اپنے گلوب کو باہر سے دیکھنا ضروری ہے اور اس کا تقابل اور موازنہ بھی۔

جب ہم لوگ سینٹ میریز ہائی اسکول سکھر میں‌ پڑھتے تھے تو سلمان رشدی کی کتاب سیٹینک ورسز نکلی جس کے بعد ایران کی حکومت نے ان کے لئے فتویٰ‌ نکالا اور تمام دنیا میں‌ ایک ہنگامہ سا ہوگیا۔ یہاں‌ تک کہ ہم اپنی کلاس کے بچوں‌ کے ساتھ یہ باتیں‌ کرنے لگے کہ ہم خود سلمان رشدی کو جان سے مار دیں گے۔ اب پیچھے مڑ کر دیکھیں‌ تو دل شدید دکھ سے بھر جاتا ہے کہ بچپن کا معصوم دور جب سیکھنے کا، ہنسنے کا، ناچنے کا اور کھیلنے کا وقت ہے تو اس کو یہ تخریبی اور مریض ذہنیت کس طرح‌ برباد کرنے میں‌ لگی ہوئی ہے۔ یہ ذہنی مریض‌ ہیں‌ جن کو اتنی عقل نہیں‌ کہ ٹی وی پر آکر خون خرابے کی باتیں‌ نہ کریں۔ ان لوگوں‌ کو فائر کردیں اور اپنے ملک کی لیڈرشپ نوجوان تعلیم یافتہ افراد کے ہاتھ میں‌ دیں‌ جن کو کچھ پتا ہے کہ دنیا کدھر جارہی ہے۔ ہر بات پر ان لوگوں‌ کو مرنا مارنا ہے۔ کیا ان کا مذہب مافیا ہے؟ حالانکہ ہم دیکھ سکتے ہیں‌ کہ جن ممالک میں‌ بولنے کی آزادی ہے وہ ترقی کررہے ہیں۔ ایک تہذیب یافتہ قوم کی نظر میں‌ ناپسندیدہ بات کہہ دینے والے کو زندہ چھوڑ دینا، بے گناہ معصوم لوگوں‌ کے قتل سے زیادہ اہم ہونا چاہئیے۔

تعلیم مکمل کبھی نہیں‌ ہوتی ہے۔ اسی لئیے مجھے پڑھانا پسند ہے۔ وہ پرانے موضوعات پر نئی نظر ڈالنے کا اچھا موقع ہوتا ہے۔ اگلے مہینے بیلکنیپ پراکٹر شپ کے اسٹوڈنٹس آنا شروع ہوجائیں‌ گے۔ ایک انٹرنیشنل میڈیکل گریجویٹ ہمارے ساتھ اینڈوکرنالوجی اور انٹرنل میڈیسن میں‌ روٹیشن کررہی ہے۔ پہلےدن میں‌ نے اس سے پوچھا کہ آپ کو نئی جگہ پر نیند ٹھیک سے آگئی؟ تو اس نے کہا کہ “میم! آپکی کلازٹ میں‌ اسکیلیٹن ہے!” یہ سن کر مجھے بہت ہنسی آئی۔ ہاں‌ ہمارے ایکسٹرا روم کی کلازٹ میں‌ ایک چھوٹا سا پلاسٹک کا انسانی ڈھانچہ ہے جو ہالوین کی ڈیکوریشن کے لئیے اور اپنے بچوں‌ اور بھانجوں‌ کو بنیادی اناٹومی سکھانے کے لئیے خریدا تھا۔ ان کے لئیے نیلے پیلے چپکنے والے نوٹ پیڈ بھی خریدے تھے کہ فمیر، اسکیپیولا، ٹیبیا اور فبیولا مارک کریں۔ سوچا کہ اس طرح‌ ان میں‌ بچپن سے میڈیسن میں‌ دلچسپی پیدا ہوگی۔ چاہے ان کو میڈیسن میں‌ جانا ہو یا نہیں‌ کم از کم کچھ معلومات تو ہوں‌ گی۔ ہمارے اپنے خاندان میں‌ دادا یا نانا کی طرف سے کوئی ڈاکٹر نہیں‌ تھا۔ پہلے دن جب ہاسٹل پہنچی تو کسی نے کولہے کی ہڈی تھمادی تو میں‌ اس کو الٹ‌ پلٹ کر دیکھ رہی تھی کہ یہ کیا مصیبت ہے۔ “اسکیلیٹن ان دا کلازٹ” انگریزی میں‌ ایک محاورہ ہے جس کا مطلب کسی شخص کے چھپائے ہوئے ناپسندیدہ راز ہیں۔

ہالوین میرے پسندیدہ تہواروں‌ میں‌ سے ایک ہے۔ اس میں‌ خوف کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ چھوٹے بچے طرح‌ طرح‌ کے کرداروں‌ کے کاسٹیوم پہن کر دروازے پر دستک دے کر کہتے ہیں‌، “ٹرک یا ٹریٹ” تو ان کو ٹافیاں دے کر رخصت کرنا ہوتا ہے۔ کچھ بچوں‌ کے کاسٹیوم سمجھ آتے ہیں‌ جیسے کہ سپر مین، اسپائڈر مین یا پرنسس وغیرہ لیکن کچھ کے آج کل کی نئی بچوں‌ کی موویوں‌ کے کردار پر ہوتے ہیں اور ان سے پوچھنا پڑتا ہے کہ بھئی آپ کیا ہیں؟ جب بچے چھوٹے تھے تو ہم لوگ ساتھ میں‌ بارنی، اسپنج باب اور فائنڈنگ نیمو دیکھتے تھے۔ ریٹاٹولی بہت اچھی اینامیٹڈ مووی تھی جس میں‌ ایک چوہا شیف بننا چاہتا ہے۔ وہ زندگی میں‌ اپنے خواب کا پیچھا کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کے بارے میں‌ ہے۔

دروازہ بجانے والے بچوں‌ کے کاسٹیوم کی تعریف کردینے سے اور ان کو چاکلیٹ اور ٹافی دے دینے سے کتنے برسوں میں‌ یہ کبھی نہیں‌ دیکھا کہ آسمان ہل گیا ہو یا کالے بادل چھا گئے ہوں یا گھر زمین میں‌ دھنس گیا ہو۔ ایک سال نوید کا کاسٹیوم وقت پر تیار نہیں ہوسکا اور اس کو اگلے دن اسکول میں‌ کاسٹیوم میں‌ جانا تھا تو میں‌ آدھی رات میں‌ وال مارٹ گئی اور وہاں سے چوٹ پر باندھنے والی ساری پٹیاں‌ خرید لائی اور صبح میں‌ اس کے بازوؤں، سینے، سر اور ٹانگوں‌ پر لپیٹ کر اس کو اسکول جانے سے پہلے مصری ممی بنایا۔ وہ چلنے پھرنے اور بھاگنے میں‌ آدھے دن میں‌ ڈھیلی ہوکر ادھر ادھر لٹک گئیں اور ہم خوب ہنسے۔ زندگی جینے اور جینے دینے کا بھی نام ہوسکتی ہے۔ وہ ہنسنے والے بچوں‌ کے ساتھ ہنس لینے کا بھی نام ہوسکتی ہے۔ کوئی بھی کاسٹیوم بچوں‌ کو کفن میں‌ دیکھنے سے بہتر ہوتا ہے۔ زندگی سے محبت کریں، زندہ لوگوں‌ سے محبت کریں۔

ہزاروں‌ برسوں میں‌ انسانوں‌ نے اپنی تعلیم اور سمجھ بوجھ میں‌ اضافہ کیا ہے۔ پہلے زمانے کے لوگوں‌ کے پاس نہ ٹی وی تھا، نہ بجلی تھی، نہ ہوائی جہاز تھے نہ کمپیوٹر تھے اور نہ ہی انٹرنیٹ تھا۔ وہ اپنے علاقے کے محدود عوامل اور حالات سے واقف تھے اور اس انفارمیشن کی بنیاد پر انہوں‌ نے کچھ خیالات اور ہدایات تشکیل دیں۔ دنیا کے مختلف علاقوں کے لوگ اپنے آباؤاجداد کی پاس ڈاؤن کی ہوئی نالج کو جانتے ہیں اس لئیے ایک دوسرے سے کمیونیکیشن بہت ضروری ہے تاکہ انسانی نالج کی حدود اور اس کے منبع کو سمجھا جاسکے اور ان معلومات کو شیئر بھی کیا جاسکے۔

آسمان، سورج، ستاروں‌ اور کہکشاؤں‌ سے کچھ تعلق نہیں‌، ہمارے سارے فلسفے، سارے مسائل انسانی ہیں اور خود حل کرنے ہیں۔ کوئی مسیحا ہمیں‌ بچانے نہیں‌ آرہا۔ جو بھی لوگ اپنے گلوب کے اندر سوچ رہے ہیں‌ ان کو اس سوچ کی سنجیدگی پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ ایسا کچھ نہیں‌ کہ ساری دنیا اندھیرے میں‌ ڈوبی تھی اور روشنی آگئی اور باطل ختم ہوگیا وغیرہ ۔ حق اور باطل مسلسل چل رہا ہے اور ہر زمانے کے انسانوں‌ کو یہ لڑائی اپنے لئے خود لڑنی ہے۔

آج کی دنیا میں‌ وہی انسان آگے ہوگا جو اپنی تعلیم میں‌ اضافہ کرے، خود کو کامیاب بنائے اور اپنے اردگرد کے انسانوں‌ کو بھی آگے بڑھنے میں‌ مدد دے۔ یہ وہ زمانہ نہیں‌ رہا جس میں‌ فوج جمع کرکے دوسرے لوگ مار کر ان کا سامان لے لیا جائے، جس میں‌ مختلف خیالات رکھنے والوں‌ کو جھٹک دیا جائے۔ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ آج کی دنیا میں دیواروں‌ سے زیادہ پلوں‌ کی ضرورت ہے۔ خود کو اس تنویمی نیند سے جگائیں، دنیا کے ساتھ قدم ملائیں۔ زندگی کے حق میں‌ ہماری غلطیاں‌، موت کے حق میں‌ ہمارے صحیح‌ سے بہتر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).