گاڈ فادر سے پاناما تک


20 اپریل کو پاناماکیس کے تفصیلی فیصلے کے بعد علمی و صحافتی حلقوں میںسب سے زیادہ ڈسکس ہونے والی چیزمشہور ناول گاڈ فادر کا مندرجہ ذیل اقتباس ہے۔ ’ہر عظیم خزانے کے پیچھے کوئی نہ کوئی جرم ہوتا ہے۔ کامیاب جرم اس لئے نہیں پکڑا جاتا کیونکہ وہ اس انداز میں انجام دیا جاتا ہے کہ اس میں کوئی جھول نہیں ہوتا‘۔ گاڈ فادر ماریو پوزو کا لکھا ہوا بیسٹ سیلر ناول ہے جسے بیسویں صدی میں سب سے زیادہ پڑھا گیا۔ 1969ء میں لکھے جانے والے اس شاہکارناول پر 1972ء سے لے کر1990 تک گاڈ فادر سیریل کی تین بہترین فلمیں بھی بنائی گئیں۔ 1972 میں گاڈ  فادر سلسلے کی ریلیز ہونے والی پہلی فلم نہ صرف اپنے وقت کی سب سے زیادہ آمدن کمانے والی فلم تھی بلکہ کچھ عرصہ اسے سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ 1972ء میں بننے والی گاڈ فادر نے بیسٹ مووی، بیسٹ ایکٹر اور بیسٹ سکرین پلے کے آسکر ایوراڈز بھی حاصل کئے تھے۔ گاڈ فادر کی کہانی کے مرکزی کردار ڈان اور اس کے خاندان کے پاس بے تحاشا غیر قانونی دولت تھی جس کے کرنسی نوٹوں کو باندھنے کےلئے ہر ماہ ڈھائی ہزار ڈالر کے ربڑ بینڈ آتے تھے۔ناول کے مرکزی کردار ڈان کی موت کے بعد جب اس کی غیر قانونی دولت کا تخمینہ لگایا گیا تو ہفتہ وار کمائی 44 کروڑ ڈالر سے زیادہ نکلی۔

آپ میں سے شاید کچھ دوستوں کو یہ جان کر خوشگوار حیرت ہو گی کہ مشہور زمانہ ناول ’گاڈفادر‘(جس کا حوالہ پاناما بینچ کی سربراہی کرنے والے سینئر جج آصف سعید کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں دیا تھا) کا اردو ترجمہ معروف صحافی و کالم نگار رﺅف کلاسرا صاحب دو بار کر چکے ہیں۔اگرچہ رﺅف کلاسرانے فکشن ہاﺅس لاہور کےلئے گاڈ فادر کا اردو ترجمہ 1996ء میں ہی کر دیا تھا لیکن کچھ عرصہ قبل دوست پبلی کیشنز کےلئے کیا جانے والا ترجمہ اپنی مثال آپ ہے۔ویسے تو انگریزی ادب میں ماسٹر ڈگری رکھنے والے کسی بھی فرد کےلئے اردو ترجمہ چنداں مشکل نہیں ہوتا لیکن ناول کے ترجمے کی روانی و سلاست کے علاوہ زبان کے بامحاورہ ہونے کا جس طرح خیال رکھا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ سیاسی کہانیاں بیان کرنے والے رﺅف کلاسرا کے اندر ایک بہترین ادیب بھی چھپا بیٹھا ہے۔لاکھوں لوگوں کی سوچ کو تبدیل کرنے والے اس بیسٹ سیلر ناول کا رﺅف کلاسرا جیسے لکھاری کے ہاتھوں ترجمہ ہونا انگلش میں کمزور حضرات کے لئے ایک غنیمت سے کم نہیں۔ روف کلا سرا صاحب گاڈ فادر کا ترجمہ کرنے کے علاوہ پاکستانی سیاست کے اہم کرداروں اور اندر ونی کہانیوں پر مشتمل دو اہم کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔

پاکستانی سیاست پر لکھی جانے والی ان کی پہلی مقبول ترین کتاب ’ایک سیاست کئی کہانیاں‘ ہے جس میں انہوں نے چودھری شجاعت سے لیکر یوسف رضا گیلانی تک 13 اہم سیاسی رہنماﺅں اور دو جرنیلوں کے سیاسی خاکے لکھے ہیں۔ ان سیاسی خاکوں کو پڑھ کر آپ نہ صرف ان شخصیات کے اندر جھانک سکتے ہیں بلکہ پاکستانی سیاست کے مختلف ادوار میں سول ملٹری تعلقات کی نوعیت اور سیاسی جماعتوں کے اندرونی معاملات کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ پاکستانی سیاست کے اندرونی پیچ و خم بیان کرنے والی مصنف کی دوسری اہم کتاب ’ایک قتل جو نہ ہو سکا‘ہ ے جس میں لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ شریف کے قتل کی اندرونی سازش بے نقاب کی گئی ہے۔ سات سو سے زائد خفیہ سرکاری دستاویزات کا مطالعہ اور ریسرچ کے بعد لکھی جانے والی ناول نما کہانی ایک طرف انٹیلی جنس ایجنسیوں اور بیوروکریسی کا پاکستانی سیاست میں کردار بے نقاب کرتی ہے تو دوسری طرف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے والے سیاستدانوں کی آپس کی چپقلشوں کو آشکار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ بات نہایت حوصلہ افزا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ سینئر پاکستانی صحافیوں کی جانب سے ملک کے اہم سیاسی رہنماﺅں اور ملکی سیاست بارے کتابیں لکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ سیاستدانوں اور سیاست بارے بہترین کتاب ایک منجھا ہوا پیشہ ور صحافی اس لئے بھی بہتر انداز میں لکھ سکتا ہے کہ اس کے پاس سیاستدانوں اور سیاست بارے سب سے زیادہ اندر کی کہانیاں اور حقائق ہوتے ہیں۔

دوسری طرف پاناما کیس کی تحقیقات کی نگرانی کےلئے قائم کیا گیا تین رکنی بینچ پاناما کیس کی مزیدتحقیقات کےلئے 6 رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کا چناﺅ کر رہا ہے۔ بدھ کے روز ہونے والی پہلی سماعت میںسپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سٹیٹ بینک اور سکیورٹی اینڈ ایکسچینج  کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بھجوائے گئے ناموں کو مسترد کرتے ہوئے مذکورہ اداروں کے سربراہان کو گریڈ 18 سے اوپر کے تمام افسران کی لسٹ کے ساتھ سپریم کورٹ طلب کر لیا ہے۔ تین رکنی بینچ کے سربراہ کے ریمارکس کے مطابق عدالت جے آئی ٹی میں ایسے لوگ شامل کرنا چاہتی ہے جن کا ماضی نہ صرف بے داغ ہو بلکہ وہ اپنے کام میں مہارت بھی رکھتے ہوں۔ ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کی سربراہی میں تشکیل پانے والی 6 رکنی تحقیقاتی ٹیم میں نیب، سٹیٹ بینک اورسکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے نمائندوں کے علاوہ فوج کے خفیہ اداروں انٹر سروسز انٹیلی جنس اور ملٹری انٹیلی جنس کا بھی ایک ایک افسر شامل ہے۔

سپریم کورٹ کی نگرانی میں پاناما کیس کی مزید تحقیقات کےلئے تشکیل دیئے جانے والی جے آئی ٹی اس حوالے سے ممتاز ہے کہ نہ صرف اس کے ممبران سپریم کورٹ کی مرضی و منشا سے چنے جا رہے ہیں بلکہ یہ ہر دو ہفتے بعد اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے پیش کرنے کی بھی پابند ہے ، مزید براں دو ماہ کی تحقیقات کے بعد حتمی فیصلے کا اعلان بھی سپریم کورٹ کا یہی بینچ ہی کرے گا۔ اگرچہ پاناما ایشو کو سپریم کورٹ تک لانے میں جماعت اسلامی سمیت اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے بھی تھوڑا بہت حصہ ڈالاہے لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاناما ایشو کو برننگ ایشو بنانے میں عمران خان کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ 20 اپریل کو جاری ہونے والے تفصیلی فیصلے کے بعد تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف ایک بار پھر بلند ہوا ہے۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات کے بعد اگر حکمران خاندان کو کلین چٹ نہ ملی ( جس کی امید بھی نہیں ہے) تو پاناما ایشو کی بنیاد پر سب سے زیادہ سیاسی فائدہ اٹھانے والی جماعت تحریک انصاف ہی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).