کیا آپ پاکستان کو سبق سکھانا چاہتے ہیں؟ (رویش کمار)۔


مصنف: رویش کمار
مترجم: چرن جیت سنگھ تیجا

کیا آپ کو کبھی پاکستان کو نیست و نابود کرنے کا خیال آتا ہے، کیا آپ کے من میں اس طرح کی باتیں ناچتی ہیں کہ بھارت پاکستان کی سینا کو کچل دے، پرویز مشرف سے لے کر باجوہ تک کو سبق سکھا دے، آئی ایس آئی کے مکھیالیہ (ہیڈ آفس) کو اڑا دے، ایئرفورس بھیج کر لاہور پر بم گرا دے، پاکستان کو مٹا دے، پاکستان کو اڑا دے، پاکستان کو جھکا دے، پاکستان کو سکھا دے۔

اگر دن میں تین چار بار ایسے خیال آتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ایک سامانیہ بھارتیہ ہیں۔ آپ راشٹروادی بھی ہیں اور پاکستانوادی بھی۔ پاکستانوادی اسے کہتے ہیں جو کم سے کم ایک بار پاکستان کو سبق سکھانے کا سپنا پالے ہوئے ہے۔ کچھ پاکستانوادی ایسے ہیں جو ایک سے ادھک بار پاکستان کو سبق سکھانے کا سپنا دیکھتے ہیں۔ کپڑے کی دکان پر بیٹھے بیٹھے سیما پر جاکر پاکستان کو ٹھوک آنے کا سپنا دیکھتے ہیں۔ چائے کی دکانوں پر تو لاہور تک گھس کر مار آنے کے ایکسپرٹ تو کہیں بھی مل جائیں گے۔ پاکستان کو لے کر بھارت کے کسی بھی پردھان منتری کو کیا کرنا چاہیے، یہ بات کسی بھی پردھان منتری سے زیادہ کوئی بھی عام بھارتیہ جانتا ہے۔ پاکستان کو مٹانے سے لے کر بھارت میں ملانے کے اتنے طریقے چلتے ہیں کہ آپ طے نہیں کر پاتے ہیں کہ پہلے کون سا کام کریں۔ مٹا دیں یا ملا لیں۔ تب تک لوگوں کے من میں پاکستان کو لے کر ایک نیا آئڈیا آ جاتا ہوگا۔

سینا کو کھلی چھوٹ ملنی چاہیے۔ یہ واقعہ آپ ان دنوں خوب سنتے ہوں گے۔ یہ کسی رننیتکار (فوجی) کی بولی نہیں ہے بلکہ عام بھارتیوں کے من کی بات ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ سینا کو سب ملا مگر کھلی چھوٹ نہیں ملی۔ ہماری سینا کو کھلی چھوٹ مل جائے تو وہ امریکہ تک قبضہ کر لے۔ دنیا کی کسی بھی سینا کو ایسا وشواس حاصل نہیں ہوگا۔ ہمیں لگتا ہے کہ پاکستان اس لئے نہیں مانتا کیونکہ ہماری سینا کو کھلی چھوٹ نہیں ملی ہوئی ہے۔ اس لئے آج کل کوئی بھی گھٹنا ہوتی ہے، سرکار سب سے پہلے کہلوا دیتی ہے کہ کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اسے پتہ ہے کہ اگر جنتا کو یہ معلوم چل گیا کہ سینا کو کھلی چھوٹ نہیں ملی ہوئی ہے تو غضب ہو جائے گا۔ سینا کو توپ نہ ملے، بندوق نہ ملے اگر کھلی چھوٹ مل جائے تو پھر پاکستان کچھ نہیں ہے۔ وہاٹس اپ میسیجوں کو بھی دو منٹ میں قرار آ جائے گا۔ اگر پردھان منتری مودی بھارتیوں کو پاکستان یکت کنٹھا سے مکت کرانا چاہتے ہیں تو انہیں سینا کو کھلی چھوٹ دینے کا اعلان کرتے رہنا ہوگا۔

ہم بھارتیہ بھلے ہی پکوڑے کی دکان پر بیٹھے ہوئے ہوں، ٹھیلا کھینچ رہے ہوں، ہوائی جہاز اڑا رہے ہوں یا اسپتال کی لابی میں بیٹھے ہوں، دن میں ایک نہ ایک بار سیما پر ضرور جاتے ہیں۔ وہاں پاکستان کو مٹا کر واپس اپنی دکان میں لوٹ آتے ہیں۔ چین کے ساتھ ہم ایسا سپنا نہیں دیکھتے کیونکہ چین کا سامان بھارتیہ سیما کے اندر مل جاتا ہے جسے جلا کر یا بہشکار ہم خوش ہو لتے ہیں کہ چین کو سبق سکھا دیا۔ ہم دیوالی میں چینی لڑیوں کا بہشکار کر کے چین کو اوقات پر لا چکے ہیں۔ اب پاکستان آتنک وادیوں کے علاوہ کچھ اور بھیجتا نہیں تو کیا کریں۔

سینا سے رٹائر ہونے والے رننیتکار سے لے کر سڑک پر رکشا چلانے والے سے پوچھیے سب کے پاس پاکستان کو مٹانے کی ایک رن نیتی ملے گی۔ جس پر اگر پردھان منتری مودی دو منٹ بھی عمل کر لیں تو ساری سمسیا کا سمادھان ہو جائے گا۔ چینلوں کے نیوز روم میں بھارت کو بنانے کے جتنے ایکسپرٹ نہیں ملیں گے، اس سے کہیں زیادہ ایکسپرٹ پاکستان کو مٹانے کے ملیں گے۔ بھارت کچھ بھی کر لے، جب تک وہ پاکستان کو مٹائے گا نہیں، لاہور تک پہنچے گا نہیں، ہمارے کنٹھت من کو چین نہیں آئے گا۔ بھارت میں ہمیشہ ایک ایسے نیتا کی ضرورت ہوگی جو بھارت میں پاکستان کو مٹانے کی بات کہتا رہے۔ آپ چاہے سارے بھارتیوں کو راکٹ میں بٹھاکر چاند کی سیر کرا دیں، مگر وہ وہاں سے لوٹ کر یہی کہے گا کہ وہ سب تک ٹھیک ہے، چاند واند، سورج وورج، یہ بتائیے پاکستان کو سبق کب سکھا رہے ہیں۔

ہم بھارتیہ صبح اٹھ کر سب سے پہلا کام یہی کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو سبق سکھائے بنا ہم اپنا کوئی سبق نہیں سیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر پردھان منتری مودی من کی بات میں صرف اتنا کہہ دیں کہ پاکستان کو سبق کیسے سکھائیں، لکھ کر بھیجیں تو کروڑوں سجھاؤ ان تک پہنچ جائیں گے۔ جن میں پرمانو حملہ سے لے کر آئی ایس آئی مکھیالیہ کے اڑا دیے جانے کا آئیڈیا تو ہوگا ہی۔ جب پورو سینا ادھیکش یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھارت کو بھی نان سٹیٹ ایکٹر بنانے چاہیے یعنی آتنک وادی پیدا کرنے چاہیے تو آپ لوگوں کی کلپناؤں کی وودھتا کتنی روچک ہوگی۔

بھارت پاکستان بٹوارا آج بھی ہمارے مانس میں زندہ ہے۔ اتہاسکاروں نے گھنٹوں، مہینوں لگاکر چاہے جتنی کتابیں لکھ ڈالی ہوں، پاکستان کو لے کر ہمارے بھیتر کی کنٹھا آج بھی راج نیتی کو پربھاوت کرتی ہے۔ سمے سمے پر کمزور پڑتی ہے مگر اچانک بلوتی ہو جاتی ہے۔ جن لوگوں نے بٹوارے کے کارن وستھاپن جھیلا، موت جھیلی، ان کے یا ان کے پریواروں کے من میں پاکستان کو مٹانے کے لے کر کیا باتیں چلتی ہیں اور جنہوں نے بٹوارے کے بارے میں ایک کتاب بھی ڈھنگ سے نہیں پڑھی، ان کے من میں کیا باتیں چلتی ہیں، اس پر شودھ ہونا چاہیے۔ آپ پائیں گے کہ بٹوارے کے بارے میں وہ زیادہ جانتا ہے جس نے بٹوارے کے بارے میں نہ کوئی کتاب پڑھی، نہ کوئی ساہتیہ اور نہ ہی اس کا دنش جھیلا۔

پاکستان کو مٹا دینے کے راشٹریہ پروجیکٹ میں ایک ہرا میدان بھی ہے۔ ہم پاکستان کو پوری طرح نہیں مٹانا چاہتے ہیں۔ شاید اس کرکٹ ٹیم کو بچا لینا چاہتے ہیں تاکہ ہم اسے لگاتار ہراتے رہے۔ ایک سمے تھا جب عمران اور اکرم کی گیند بھارتیوں کی چھاتی پر دھڑکتی تھی، تب ہم سب سے پہلے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو ہرانا مٹانا چاہنے لگے۔ جاوید میانداد کے ایک چھکے نے ہمیں لمبے سمے تک کے لیے کنٹھت کر دیا۔ ہم بنگلہ دیش بنانے کا گورو (فخر) بھی بھول گئے۔ اب جب ہم پاکستان کی ٹیم کو کئی بار ہرا چکے ہیں، ہم واپس پاکستانی سینا کو ہرانے کے پروجیکٹ پر لوٹ آئے ہیں۔ بھارت میں ایسا کوئی وقت نہیں ہوگا، ایسی کوئی جگہ نہیں ہوگی جہاں سے کوئی پاکستان کو سبق سکھانے سے لے کر مٹانے تک کا اپائے بتاتا ہوا نہیں گزر رہا ہوتا ہے۔

ایک سمے جب ہم پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو ہرا نہیں پاتے تھے، تب ہم نے اپنے پڑوس میں کھوجنا شروع کر دیا کہ اس ٹیم کا سپورٹر کون کون ہے۔ اس کے نام پر ہم نے مذہب اور محلوں کا بٹوارا کیا اور ان کی نشاندہی کی۔ آج بھی پاکستان کو لے کر ہونے والی تمام بحثوں میں کرکٹ ٹیم کو سپورٹ کرنے کا راشٹریہ غصہ کبھی بھی جھلک سکتا ہے۔ کشمیری چھاتر تو آئے دن اس غصے کو جھیلتے رہتے ہیں۔ سب کے پاس اس بات کے پختہ پرمان ہیں کہ بھارتیہ مسلمان پاکستانی کرکٹ ٹیم کا سپورٹر ہے اور اسی لئے کئی لوگ ان کے محلے کو پاکستان کہتے ہیں۔ ویسے غسل خانے کو بھی پاکستان کہا جاتا رہا ہے۔

اس لئے ہم بھارتیہ صرف بھارتیوں کے ساتھ نہیں رہتے ہیں۔ ہم اپنے ساتھ ہمیشہ ایک پاکستان لئے چلتے ہیں جسے کہیں بھی رکھ کر دھننے لگتے ہیں۔ کئی لوگ تو دساہس میں یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ سینا نہیں جائے گی تو مجھے اکیلا بھیج دے، میں پاکستان میں گھس کر بتا دوں گا۔ دلی نگر نگم کی شاندار جیت کے اتساہ میں بھاجپا نیتا روی کشن نے بھی کہہ دیا کہ مجھے اکیلا بھیج دے پاکستان، جانے کے لیے تیار ہوں۔ میرا بھی یہی خیال ہے۔ بھارت کو اکیلے جانے والوں کی سیوا لینی چاہیے۔ آپ چاہے جتنا ہنس لیں مگر پاکستان میں اکیلے گھس کر مار آنے کی یہ کلپنا روی کشن کی نہیں ہے۔ بھارتیہ مانس میں زمانہ سے رہی ہے۔ پاکستان کو سبق سکھانے کے دیکھے گئے اسنکھیہ سپنوں میں ایک سپنا یہ بھی رہا ہے۔

پاکستان کو سبق سکھانے کے راشٹریہ پروجیکٹ میں نیوز اینکر تھوڑے نئے ہیں۔ ابھی تک پریس کے لوگ بھیڑ سے الگ دوستی ووستی کی بات کرتے رہتے تھے۔ امن کی آشا نام کی بس چلاتے تھے۔ لیکن جب سے نیوز اینکروں نے پاکستان کو سبق سکھانے کا بیڑا اٹھایا ہے تب سے معاملہ بدل گیا ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ انہیں نیا نیتا مل گیا ہے۔ ہمارے نیوز اینکر سبق سکھانے کے اس پروجیکٹ کے سب سے بڑے نایک ہیں۔ آئیے، پاکستان کو سبق سکھانے کے اس پروجیکٹ کا حصہ بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).