تواریخ کا سبق اچھا نہیں ہے


آج سے کچھ عرصہ پیش تر عالمی اداروں نے تیسری دنیا کے ممالک میں ”فیملی پلاننگ مومنٹ“ کے نتائج دیکھ کے یہ اخذ کیا، کہ جہاں ایک سے زائد اقوام بستی ہیں، وہاں فیملی پلاننگ کی مہم ناکام ٹھیری۔ جس ریاست میں ایک ہی قوم رہتی ہے، وہاں سے امید افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اس رپورٹ میں بنگلا دیش کی مثال دی گئی، جہاں ایک ہی قوم ”بنگالی“ بستے ہیں۔ یہاں ”فیملی پلاننگ“ کی ”تحریک“ نہایت کام یاب دیکھی گئی؛ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس مہم کے بیچ میں مذہب بھی حائل نہ ہوا، کہ جماعت اسلامی بنگلا دیش نے بھی فیملی پلاننگ کی تحریک کی کھُل کے حمایت کی۔ جب کہ ہندُستان جو کئی اقوام کا دیس ہے، وہاں فیملی پلاننگ کا پروگرام ناکام قرار پایا۔ پاکستان بھی انھی ممالک میں سے ہے، جہاں فیملی پلاننگ کے پروگرام کو خاطر خواہ پذیرائی نہ مل سکی۔

اسی رپورٹ سے میں نے یہ اخذ کیا، کہ وہ ریاستیں جہاں مختلف اقوام بستی ہیں، وہاں کے شہری کسی ایک نکتے پر متفق نہیں ہو پاتے، لہاذا کوئی بھی ”تحریک“ سبوتاژ کر دی جاتی ہے یا ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ ہمارے یہاں پولیو کی مہم کے خلاف بھی منفی پروپگنڈا خاصا موثر رہا ہے؛ میں نے پڑھے لکھے کے منہ سے سُنا کہ پولیو کے قطروں کے ذریع نئی نسل کو ”نامرد“ بنایا جا رہا ہے۔ ایسی ہی وجوہ ہیں، کہ اس طرح کے خطوں میں انقلاب کی تحریکیں پنپ نہیں پاتیں۔ ہر قوم، دوسری قوم کے فرد کے بھلائی کے کاموں یا تحریک کو اُس قوم کی
طرف سے اپنے خلاف سازش سمجھتے رد کر دیتی ہے۔

ایسی اقوام محض اتنے پر خوش ہو جاتی ہیں، کہ اُن کی قوم کا فرد حکم ران ہے، اور اس پر مایوس ہو جاتی ہیں، کہ غیر قوم کا فرد حکم ران بن بیٹھا۔

مذہب کو تحریک سمجھ لیا جائے، تو مذہب بھی ایسے ممالک کے عوام کی جہالت کا کچھ نہیں بگاڑ پایا، جہاں کئی اقوام ایک ساتھ رہتی ہوں۔ اگر بگاڑ پاتا، تو ہند و پاک کا اونچ نیچ ذات پات کے نظام کو ڈھا دیتا۔ یہاں اسلام کا داعی بھی کسی ہندُو ہی کی طرح ذات پات کی تقسیم کا قائل ہے۔ سید زادے اور ارائیں کے فرق کو نہ صرف یہ کہ سمجھتا ہے، بل کہ تکریم میں بھی فرق رکھتا ہے۔ آپس میں شادی بیاہ کرتے مذہب سے پہلے قوم برادری دیکھی جاتی ہے، پھر مذہب، مسلک۔

معترضہ: چند مستثنیات ہیں،ہند و پاک میں لاکھوں کی تعداد میں قائم مزاروں میں دفن پیر اور ان مزاروں کے مجاور تک اونچی ذات یا دوسرے لفظوں میں سید زادے ہوں گے، کسی شودر نسل کا پیر ڈھونڈے سے کہیں مل جائے تو کہا نہیں جا سکتا۔

عروج پاتی اقوام ایک دوسرے کا احترام کرتے باہمی اتحاد و یگانگت کا ثبوت دیتی ہیں۔ جنگ و جدل سے بے گانگی اختیار کرتی ہیں، اور محروم اقوام جو یقینا زوال پا چکی ہوتی ہیں، ہر وقت شک و شبہے میں گھری رہتی ہیں۔ ان کا احوال ایسا ہی ہے، جیسے گھُپ اندھیرے میں کھڑا شخص کہیں سے کوئی صدا آنے پر خوف کے عالم میں اُس طرف نیزہ تان کے کھڑا ہو جاتا ہے، جہاں سے پکارا گیا ہو۔

اسی تناظر میں دیکھا جائے، تو پنجاب، کشمیر اور بنگال کی تقسیم نا انصافی پر مبنی ہے۔ ہندُستان اور پاکستان جیسے ممالک کے شہری ایک قوم نہیں بن سکے، مستقبل قریب میں بھی ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا؛ یہی احوال رہا تو ابھی ان ممالک کے مزید ٹکڑے ہونے ہیں، کیوں کہ یہی تواریخ کا سبق ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran