کیا طلاق لینا ایک فیشن ہے؟


یہ بات درست ہے کہ گزشتہ دہائی میں ہمارے ملک میں طلاق کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار تو میرے پاس ہیں نہیں مگر میں یہ جانتی ہوں کہ میرے اردگرد پڑھے لکھے گھرانوں میں سے بہت سے گھر ایسے ہیں جن میں طلاق کے واقعات رونما ہوئے ہیں، حالانکہ میرے بچپن میں تو یہ لفظ خال ہی سننے میں آتا تھا۔ میرے ذاتی مشاہدہ میں تو طلاق کے جتنے بھی واقعات آئے ہیں ان میں سے اکثریت میں مرد حضرات قصوروار ہیں، چند میں غلطی صریحاً خاتون اور اس کے گھر والوں کی ہے اور شاید چند ہی ایسے ہیں جن میں تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی نظر آتی ہے۔ میرے نزدیک تو ہمارے معاشرے میں طلاق ابھی بھی کوئی پسندیدہ فعل نہیں ہے اور برداشت کی حد سے زیادہ گزر جانے کے بعد ہی طلاق ہوتی ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ علم، شعور اور آگہی خواتین میں عدم برداشت پیدا کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے۔ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتی۔ ہاں یہ بات ہو سکتی ہے کہ اپنے پاﺅں پر کھڑی ہو جانے والی خواتین کے پاس چونکہ گزر بسر کرنے کے لئے ایک ذریعہ موجود ہوتا ہے اس لئے وہ ظلم اور زیادتی کے خلاف جلد آواز بلند کر دیتی ہیں، لیکن بہرحال ظلم اور زیادتی ہی اس امر کا پہلا مرحلہ ہوتے ہیں۔ دیکھیں شادی کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہی چلتی ہے، کوئی فریق بھی یکطرفہ کوشش اور یکطرفہ برداشت سے اسے کامیاب نہیں بنا سکتا اور برداشت کر کے سسک کر چلائی ہوئی شادی، کیا ایک کامیاب شادی کے زمرے میں آتی ہے؟ اور کیا ایسی زندگی ایک کامیاب زندگی کہلاتی ہے؟

اس کے علاوہ مغربی اقدار کا اثر بھی طلاق کی ایک وجہ بیان کی جاتی ہے، جس سے میں متفق نہیں کیونکہ میرے مشاہدے کے مطابق مغربی معاشرے کے مقابلے میں ہمارے معاشرے میں طلاق کی وجوہات میں بہت فرق پایا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کوئی بھی طلاق خوشگوار انداز میں انجام نہیں پاتی، عموماً طلاق اس قدر ظلم اور نفرت کے بعد وقوع پذیر ہوتی ہے کہ کوئی ایک فریق بھی دوسرے کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔

دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی اخلاقی اقدار میں کلی طور پر کس قدر تنزل آیا ہے۔ جس قدر جھوٹ، ملاوٹ اور کرپشن آج کل عام ہے، کیا پہلے کبھی تھی؟ تو اخلاقی اقدار کے اس زوال کی جھلک باقی معاملات میں بھی تو دکھائی دے گی ناں، جیسا کہ عائلی اور خانگی معاملات۔

اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں ہو گا کہ ہمارے معاشرے میں جھوٹ، فریب، لالچ اور دھوکہ دہی حد سے زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ ہر شخص دوسرے شخص سے فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہے۔ میری جاننے والی خواتین کے ہاں جو لوگ لڑکیاں دیکھنے آتے ہیں وہ جہیز کے علاوہ اس بات میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں کہ ان کے لڑکے کو کاروبار شروع کروانے یا نوکری کے حصول میں مدد کرنے میں لڑکی والے کس حد تک مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ شادی کے بعد ان توقعات کا پورا نہ ہو سکنا بھی طعن و تشنیع اور طلاق کی ایک وجہ بن جاتا ہے۔

میں خاندان میں شادی کے حق میں نہیں ہوں کیوں کہ اس سے موروثی بیماریاں بچوں میں منتقل ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، لیکن اگر آپ بڑے شہروں میں طرز رہائش پر ایک نظر ڈالیں تو ہمسائے بھی دوسرے ہمسائیوں سے واقف نہیں ہوتے۔ بڑے شہروں میں رشتہ کروانے والے خواتین و حضرات یا شادی دفاتر کی وساطت سے رشتے طے کرتے ہیں اور اگر بالکل اجنبی لوگوں میں ایک چائے کی پیالی پر رشتہ طے ہو جائے تو اس رشتے سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے؟

میں نے دیکھا ہے کہ اجنبی خاندان میں شادی کی صورت میں دھوکہ باز اور عیار لوگ اپنے تمام عیب آسانی سے چھپا لیتے ہیں اور اکثر اوقات ان رشتہ داروں کو بھی چھپا لیتے ہیں جن کے ساتھ وہ کسی بھی وجہ سے تعلق ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ بہت سی صورتوں میں اس لیے بھی کہ کہیں وہ رشتہ دار ان کی حقیقت نہ کھول دیں۔ لڑکی کے والدین زیادہ سے زیادہ لڑکے کے دفتر سے اس کی تنخواہ اور چال چلن کی بابت پچھوا لیتے ہیں اور شریف لڑکے والے تو لڑکی والوں کے متعلق کچھ بھی معلوم نہ کرنا ہی شرافت کی سند سمجھتے ہیں۔ اس صورت میں بعض لوگ تو ذہنی امراض تک چھپا لیتے ہیں۔ ایک لڑکے سے میں واقف ہوں جس کو مرگی کی بیماری تھی جو کہ لڑکی والوں کو نہیں بتائی گئی اور ایک طلاق اس وجہ سے بھی وقوع پذیر ہوئی کیونکہ لڑکا لڑکوں ہی میں دلچسپی رکھتا تھا۔

بعض صورتوں میں والدین اپنے بچوں کی مرضی کے خلاف زور زبردستی ان کی شادی کروا دیتے ہیں اور اپنی پسند کو دل میں بسائے لڑکا یا لڑکی ایک دوسرے سے نباہ نہیں کر پاتے، اور نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلتا ہے۔

کچھ مرد حضرات دوسری خواتین میں حد سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور ایک خاص حد سے گزر جانے کے بعد یہ بات خاتون خانہ کی برداشت سے باہر ہو جاتی ہے، حالانکہ کچھ گھرانوں میں، میں نے خاتون خانہ کو اس عادت کے ساتھ بھی گزارا کرتے دیکھا ہے۔

حد سے زیادہ لالچی اور حد سے زیادہ کنجوس لوگوں کے ساتھ بھی زندگی گزارنا ایک عذاب ہوتا ہے، جو لوگ اس تجربے سے گزرے ہیں وہ یہ بات بخوبی جانتے ہوں گے۔ میں نے تو یہ بھی دیکھا ہے کہ ایک پڑھے لکھے گھرانے میں بہو کے پسند کا کھانا کھانے تک پر بھی پابندی لگائی گئی۔ ساس فریج تک کو تالا لگا کر رکھتی تھیں اور بہو چائے کی ایک پیالی تک نہیں بنا سکتی تھی۔ کچھ لوگوں کے پاس پیسہ اور تعلیم ہونے کے باوجود حوصلے کی شدید کمی ہوتی ہے۔ اس صورت میں کیا راستہ باقی رہ جاتا ہے؟

ہمارے ہاں ویسے بھی شادی ایک جوڑے کی نہیں ہوتی بلکہ لڑکی کی شادی تو خصوصاً ایک پورے خاندان سے ہوتی ہے۔ شادی کے بعد میاں بیوی کی ذہنی ہم آہنگی پیدا ہونے میں بھی وقت لگتا ہے اور یہاں بچیوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایک مشترکہ خاندانی نظام اور ساس، سسر، جیٹھ، نند کی توقعات پر شادی ہو کر آتے ہی صد فیصد پورا اتریں گی۔

دیکھیں شادی سے پہلے اور بعد میں بھی کمیونی کیشن یا آپس میں بات چیت اس رشتے کی کامیابی کی ایک بنیادی کنجی ہے۔ لڑکااور لڑکی بھی آپس میں خوب ملیں اور ان کے خاندان والے بھی اور اگر شادی سے پہلے ہی کوئی فریق صاف گوئی سے کام لیتا محسوس نہ ہو، بات چیت سے گریز کرے، وقت اور وعدے کی پابندی نہ کرے تو اس وقت ہی رک کر اس فیصلے پر دوبارہ غور کر لینا چاہیے۔ شادی سے پہلے کرنے کی باتیں چاند تارے توڑ کر لانے کی نہیں بلکہ یہ دیکھنے کی ہونی چاہئیں کہ دوسرا فریق کیسا انسان ہے اور اگر گھر والوں کے ساتھ رہنا ہے تو وہ کیسے لوگ ہیں۔ وہ کتنے حساس ہیں۔ وہ اپنی ذات برادری کے کسی گھمنڈ میں تو نہیں؟ ان کا اصل میں کھانا پینا اور لین دین اور اپنے سے غریب لوگوں سے برتاﺅ کیسا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو زیادہ ملے جلے بغیر اور زیادہ مشاہدے کے بغیر نظر نہیں آتیں مگر یہ رشتے کی کامیابی کو بہت حد تک متعین کرتی ہیں۔

ایک اور عمومی تاثر یہ ہے کہ خلع چونکہ عورت نے خود لیا ہے اس لئے مرد تو معصوم ہے عورت اسے خود ہی چھوڑ گئی، اور طلاق چونکہ مرد نے خود دی ہے، اس لئے وہی خبیث ہے اور اس نے عورت کو گھر سے نکال دیا۔ یہ دونوں تاثر ہی درست بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی۔ بعض صورتوں میں مرد حضرات عورتوں کا جینااس حد تک حرام کر دیتے ہیں، ان پر تشدد کرتے ہیں اور طلاق بھی نہیں دیتے کیونکہ کہیں حق مہر نہ دینا پڑ جائے اور خواتین کو خلع کا راستہ اپنانا پڑتا ہے۔

لیکن ہمارے معاشرے کے لوگوں کو یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی اور کی طلاق آپ کا مسئلہ نہیں ہے، خصوصاً اگر رجوع کر لینے کا وقت گزر چکا ہے تو آپ کو اس معاملے میں دخل دینے، منصفی کرنے یا فیصلہ صادر کرنے کا کوئی حق نہیں کہ غلطی کس کی تھی۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim