جمہوری احساس کمتری اور علامہ گوگل


لوڈ شیڈنگ، سیاسی بحران اور علامہ کا کوئی وقت نہیں، اس بارعلامہ گوگل بھری دوپہر تمتماتے چہرے اور پھولی سانسوں کیساتھ نازل ہوئے۔ یخ پانی کے بعد ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولے بھئی ٹوئٹر نے یہ تو ثابت کر ہی دیا کہ وہ پیج بالاخر گم ہو گیا جس پر حکومت اور فوج بہ نفس نفیس یر دم موجود ہوا کرتے تھے۔ میں نے کہا علامہ مذاق اپنی جگہ مگر کیا اب کار سرکار سوشل میڈیا پر طے پائیں گے؟ تڑخ کر بولے تو اس میں حرج کیا ہے، ہمارا ملک، ہماری جمہوریت، ہماری مرضی، میں نے کہا حرج کا تو پتا نہیں، نہ جانے کیوں لال قلعے کے آخری تاجدار یاد آ گئے، جواب ملا ایک تو بہادر شاہ ظفر جدہ نہیں گئے تھے اور جہاں تک یاد پڑتا ہے کبھی شہادت کی تمنا بھی نہ کی۔ بھائی میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ جب شیر کو ٹوئٹ پر کوئی اعتراض نہیں، تو پھر میڈیا کے پیٹ میں مروڑ کیوں؟ ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ دنیا مذاق اڑا رہی ہے، کہنے لگے ایک تو آپ لوگ جمہوری احساس کمتری کے مریض ہیں۔ ہیلری کلنٹن کی ای میلز لیک ہوئیں تو کیا ہم ہنسے، ٹرمپ کی جیت پر روسی ہاتھ پر تحقیقات ہوئیں تو کیا ہم نے ٹھٹھول کیا۔ سب سے بڑی جمہوریت کی ریاست مقبوضہ کشمیر میں صرف دو سے سات فیصد ووٹنگ ہوئی تو کوئی مذاق بنا۔ حضور کسی بھی معاملے کی زیادہ فکر نہ کیا کریں صرف دو دن کی کہانی ہوتی ہے کیونکہ آپ کی میڈیا منڈی کی اتنی ہی یادداشت ہے۔ ذرا دیکھئے ٹوئٹر نے نیوز لیکس رپورٹ کو پچھاڑ دیا، نیوز لیکس نے پاناما فیصلہ بھلا دیا، پاناما نے مردان یونیورسٹی واقعے کو پیچھے چھوڑ دیا۔ خیر اب تو پاناما پر جے آئی ٹی بن گئی، دیکھئے تحقیقات کا نتیجہ بھی کہیں ٹوئٹر پر نہ آ جائے۔ تو حضور گھبرایئے نہیں کار بھی چلتا رہے گا اور سرکار بھی، اسی کو جمہوری حسن کہا جاتا ہے ۔

حیرت سے عرض کیا جمہوری حسن! تو بولے بھئی دنیا سمجھے نہ سمجھے پاکستان سے زیادہ جمہوری قوم اور کوئی ہے ہی نہیں، اندھیروں کا بل بھرتے ہیں۔ نلکوں میں آنیوالی مہکتی ہواﺅں کے پیسے ادا کرتے ہیں۔ ملاوٹ والی غذا کو اف کیے بغیر مہنگے مول خریدتے ہیں۔ پٹرول اور گیس پر دوگنا ٹیکس دینے کے باوجود قطاروں میں کھڑے ہونے پر کبھی برا نہیں مناتے، اشرافیہ کو لاکھ غاصب کہیں مگر دل و جان سے بڑھ کر پروٹوکول دیتے ہیں، حتیٰ کہ ہر جمہوری اور غیر جمہوری حکمران کی خواہشات کو بالترتیب جمہوری استحقاق اور قومی سلامتی جان کر ڈنڈوت بھی کرتے ہیں۔ بھلا بتائیے اور کوئی قوم ہے جہاں میں کیا؟ آپ لوگ بلاوجہ امریکی اور ہندوستانی جمہوریت کا ڈھول پیٹتے ہیں۔ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر امریکی صدر کا سینئر مشیر لگ گیا، بیٹی ایوانکا وہائٹ ہاﺅس کی برانڈ بن گئی، امریکہ میں ہو تو جمہوری حسن، پاکستان میں سمدھی اور دختر اول کی دہائی دی جائے، یہ جمہوری احساس کمتری نہیں تو اور کیا ہے۔ علامہ گوگل کو ویسے بھی ڈونلڈ ٹرمپ سے عظیم توقعات وابستہ ہیں، کہتے ہیں بھری دنیا میں ایک یہی مرد جلیل ہے جو مرگ بر امریکہ کا نعرہ پورا کر سکتا ہے، بسا اوقات پیار سے ڈونلڈ گورباچوف بھی پکارتے ہیں۔ علامہ بولنے پر آئیں تو روکے نہیں رکتے سانس لے کر سلسلہ جاری رکھا، اب رہی مودی سرکار تو عزیزم اس کی سیاست اور معیشت گﺅ ماتا کے گرد گھومتی ہے۔ ایک طرف ہندووتا کے بلوان مسلمانوں کا قتال کرتے پھریں تو دوسری جانب بھارت سرکار دنیا کی سب سے بڑی بیف ایکسپورٹر، جی حضور 2015 میں 2.4 ملین ٹن اور 2016 میں 1.8 ملین ٹن، اس کو کہتے ہیں ایک پنتھ دو کاج، یہ سب بنیوں کی چالیں ہیں بھائی گﺅ ماتا کے متر کے سو سو گن گنوائیں تو دوسری طرف گوشت بیچ کر مال بنائیں۔ بھیا میں تو جانوں یہ کمبخت بی جے پی صرف اسی لئے غیر شادی شدہ بڈھوں کو وزیر اعظم بناتی ہے، پہلے واجپائی اور اب مودی، مودی مہاراج شادی کے فوری بعد 1968 میں ہی اپنی دلہنیا یشودابین سے سنیاس لے بیٹھے سو ازلی کنوارے ٹھہرے۔ مجھے تو لگتا ہے ایڈوانی بیچارے اسی باعث سینئر وزیر سے آگے نہ جا سکے کیونکہ بیوی بچوں والے تھے۔ کوئی نارمل شخصیت راج سنگھاسن پر بٹھانے کا خطرہ مول لے ہی نہیں سکتی بھارتیہ جنتا پارٹی، بالک ہٹ، راج ہٹ اور تریا ہٹ تو آپ نے سنی ہو گی مگر بی جے پی دراصل نیتاہٹ کی قائل ہے۔ ارے جناب تریاہٹ پر یاد آیا وہائٹ ہاﺅس میں کلنٹن کا مونیکا لیونسکی سے آنکھ مٹکا بھی خوب تھا، تو حضور والا مان لیں آپ جمہوری احساس کمتری کا شکار ہیں ورنہ دنیا بھر میں اسے جمہوری حسن کہا جاتا ہے۔

میں نے عرض کیا علامہ آپ بھی کہاں کی بات کہاں سے جوڑتے ہیں، پھر جمہوری احساس کمتری کا طعنہ بھی دیتے ہیں۔ ہنستے ہوئے بولے پتہ تھا یہی کہیں گے بھئی اس سے تو انکار نہیں کر سکتے ناں کہ جمہوریت کا بنیادی فلسفہ افلاطون کی دین ہے۔ میں نے اقرار کیا کہ اسی نے کتاب الجمہوریہ میں مثالی ریاست کا نظریہ پیش کیا تھا۔ علامہ ایک شفیقانہ مسکراہٹ کیساتھ گویا ہوئے بھئی افلاطون نے کیا زبردست حل پیش کیا ہے سیاست کا، کہتا ہے فلسفی کو حکمراں بنا دو یا حکمراں کو فلسفی، خیر جناب والا! افلاطون نے انسانی روح کو تین عناصر عقل، جذبہ اور خواہش میں تقسیم کیا ہے جبکہ ریاست کی بنیاد بھی تین طبقات کو ٹھہراتا ہے فلسفی حکمران، فوجی طبقات، پیشہ ور مزدور اور یہی نسل در نسل یہی خدمات انجام دینگے۔ افلاطون کے مطابق طرز حکمرانی بھی تین ہیں جمہوریت، بادشاہت اور اشرافیہ، اب کیا کیا جائے جب دنیا جمہوریت کی بنیاد سے انحراف کرے۔ ذرا خود غور فرمائیں پاکستان میں افلاطونی ریاست کے تمام عناصر موجود ہیں۔ اشرافیہ، فوج اور موروثیت، دنیا میں اگر کہیں جمہوریت کی اصل روح پر عمل کیا جا رہا ہے تو وہ پاکستان ہے، اب تواعتراض نہیں ہونا چاہیے آپ کو جمہوری حسن پر!

میں نے سوچا موضوع بدلا جائے ورنہ حسن نہ جانے کب غیر محجوب ہو جائے، علامہ نیوز لیکس کو چھوڑیں یہ بتائیں کہ پاناما کیس تو حلق میں اٹک گیا ہے۔ ایک مسکراہٹ کیساتھ بولے یار آپ کہیں لکھ چکے ہیں کہ نواز لیگ میں قدرتی صلاحیت موجود ہے کہ بڑی سوچ و بچار اور غوروخوص کے بعد غلط فیصلہ کر سکے۔ الحمداللہ میاں صاحب عزیز ترین دشمنوں کے معاملے میں خود کفیل ہیں پھر رشتہ دار علیحدہ، لگتا ہے انہوں نے شاید مشتاق یوسفی کا جملہ بھی نہیں پڑھا، دشمنوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں، دشمن، جانی دشمن اور رشتہ دار۔ شیر کو بھی گھاس پر لگا دیا ہے تو سرکار اب پاناما نواز لیگ کیلئے بدو کا اونٹ بن چکا ہے، آہستہ آہستہ اونٹ خیمے کے اندر اور بدو باہر، ارے بھائی اونٹ پر یاد آیا عید قربان بھی تو سر پر ہے، یہ بتائیے اس بار کس کی قربانی کریں گے، اونٹ، گائے یا پھر بکری، علامہ پھر پٹری سے اترنے لگے تو عرض کیا حضور یہ بتائیں کہ میاں صاحب کس کی قربانی کرینگے، قہقہہ لگا کر بولے بھئی شیر کی قربانی تو کسی طور جائز نہیں چاہے گھاس ہی کیوں نہ کھاتا ہو، حکومت کے بارے میں کیا خیال ہے ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).