عمران خان کے خلاف نازیبا نعروں کی مذمت
گزشتہ ہفتے دو افسوسناک واقعات پیش آئے۔ تحریک انصاف کے صوبائی وزیر خوراک جناب قلندر خان لودھی اپنے حلقے میں گئے تو مشتعل عوام نے ان کی گاڑی پر پتھراؤ کیا اور ڈنڈے برسائے۔ عوام میں عدم برداشت کے اس رجحان کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ محض اس وجہ سے کہ ساڑھے تین برس تک وزیر موصوف اپنے حلقے میں نہیں آئے تھے، ان پر اس طرح حملہ کرنے کو جائز نہیں بناتا ہے۔ حلقے کے عوام کو یہ سمجھنا چاہیے کہ قلندر صاحب کسی دوسری جگہ عوام ہی کی خدمت کر رہے ہوں گے۔ کیا ان کے حلقے کے عوام کو علم نہیں ہے کہ صوبے میں کتنے بھوکے موجود ہیں اور وزیر خوراک نے کس کس کا پیٹ بھرنا ہے؟ ایسے میں وہ بار بار اپنے حلقے کیسے آ سکتے ہیں؟ جب فرصت ملی تو آ گئے۔
اس سے زیادہ المناک واقعہ یہ پیش آیا کہ پشاور میں عمران خان صاحب ڈیجیٹیل یوتھ سمٹ سے خطاب کر رہے تھے۔ ادھر چند شر پسند عناصر نے عمران خان صاحب کی موجودگی میں ہی ’رو عمران رو‘ کے نہایت نازیبا نعرے لگانے شروع کر دیے۔ اس مذموم حرکت پر ہم بھرپور احتجاج اور عمران خان صاحب سے اظہار یکجہتی اور اظہار افسوس کرتے ہیں۔
عمران خان جیسے بڑے لیڈر کے خلاف ایسے نعرے بلند کرنا کہ وہ سیاست چھوڑ دیں یا اپنی حکومت چھوڑ دیں اور بس بیٹھ کر رونا شروع کر دیں، لاکھوں ووٹروں کے مینڈیٹ کی توہین ہے۔ اگر عمران خان صاحب کے مخالفین کی اس نرالی منطق کو مان لیا جائے تو پھر تو کوئی شخص بھی حکومت کر ہی نہیں سکے گا، نہ تو عمران خان اور نہ ہی ان کے مخالف۔ ان مخالفین کی باری آئے گی تو ان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا۔ یہ مخالفین اگر عمران خان کے ایسے ہی سنجیدہ مخالف ہیں اور کوئی جان رکھتے ہیں تو اگلے الیکشن میں ان کو شکست دیں اور اپنی حکومت بنا لیں۔ لیکن یہ تخریبی اور ہنگامہ پرور افراد ایک منتخب حکمران کو ملنے والے عوامی مینڈیٹ کی توہین سے احتراز کریں۔ بیلٹ کی بجائے ہنگامے اور ہیجان کی راہ اختیار کرنے کو کسی بھی طرح کسی صحیح الدماغ، دانشمند اور ملک کا دوست قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
ایک قومی سطح کا لیڈر لاکھوں کروڑوں شہریوں کا منتخب نمائندہ ہوتا ہے۔ اس کے خیالات سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں، حتی کہ اس کے ذاتی کردار پر بھی انگلی اٹھا سکتے ہیں، مگر آپ کو یہ سب کچھ کرتے ہوئے یہ خیال رکھنا چاہیے کہ آپ یہ اختلاف مہذب طریقے سے کریں۔ ایسا مت کریں کہ لاکھوں کروڑوں انسان آپ کے اس رویے پر اپنی توہین محسوس کریں۔ کسی منتخب رہنما کے خلاف ایسے نازیبا نعرے لگانا انتہائی برا رویہ ہے اور ایسا کرنے اور کروانے والوں کی اخلاقی حالت کی زبوں حالی کا شاہد ہے۔
اگر کوئی سیاسی ورکر یہ سلیقہ ہی نہیں جانتا کہ کردار کشی کرنے کی بجائے مہذب انداز میں اظہار اختلاف کیا جاتا ہے، تو یہ اس کے سیاست سے نابلد ہونے کی نشانی ہے۔ ایسے افراد اگر میدان سیاست کو ترک کر کے گلی محلے میں کرکٹ کھیلنے کا کام شروع کر دیں تو مناسب ہو گا جہاں ایسے پھٹیچر اور ریلو کٹے افراد کھپ سکتے ہیں مگر قومی سیاست کے منظرنامے پر ایسے رویے ہرگز بھی صحت مند نہیں ہیں۔
تمیز اور تہذیب کی راہ ترک کرنے والے یہ یاد رکھیں کہ اگر وہ دوسروں کے ساتھ بد تہذیبی کریں گے تو ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو گا۔
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).