جامد میر اور حیران خان کا پہاڑ توڑ انکشافی انٹرویو


جامد میر: السلام علیکم، میں ہوں آپ کا پکا اور پرانا میزبان، جامد میر۔ آج میرے ساتھ اک نہایت ہی اہم، جی ناظرین، اک نہایت ہی اہم مسئلے پر بات چیت کرنے کے لیے موجود ہیں، حیران خان۔ ان کا اصل اور پورا نام تو ہے حیران کن خان، مگر ہم ان کی اور آپ کی سہولت کی خاطر، انہیں حیران خان کہہ دیتے ہیں۔ ویلکم ٹو مائی شو، حیران خان صاحب۔ تو آپ بتائیں کہ آپ کا ہمارے اس نہایت اہم مسئلے کے بارے میں کیا خیال ہے؟

حیران کن خان: جامد، سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ کہ آپ نے مجھے اک نہایت ہی اہم مسئلہ پر اظہار خیال کرنے کے لیے چار سو بیسویں مرتبہ بلایا۔ آپ یقین کریں کہ یہ میرے لیے بہت اہم ہے کہ آپ مجھے بلاتے ہیں اور مجھ سے دنیا کے تمام اہم مسائل پر رائے لیتے ہیں۔ میں آپ کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی بقا صرف اور صرف اس میں ہے کہ اس ملک میں تبدیلی آئے۔ اگر اس ملک میں تبدیلی نہ آئی تو پھر ایسی تبدیلی آئے گی کہ بس تبدیلی ہی آ جائے گی۔

جامد: مگر آپ یہ بتائیں کہ جب وہ تبدیلی آئے گی تو آپکی حکمت عملی کیا ہوگی، کیا آپ اس تبدیلی کے ساتھ ہوں گے کہ جس کو آپ تبدیلی کہہ رہے ہیں؟

حیران: پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ تبدیلی کیا ہوگی، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ حیران خان جھوٹ نہیں بولتا۔ آپ یقین کریں کہ 1992 کے ورلڈ کپ میں مجھے یقین نہیں تھا کہ تبدیلی آئے گی۔ وہ تو میں جب کنٹینر پر چڑھا اور میرے دائیں جانب شیخ مرید اور بائیں جانب، ملک مبشر ٹاؤن تھے تو معلوم ہوا کہ تبدیلی آ چکی ہے۔ میں آپ کو بتا دوں کہ اب قوم جاگ چکی ہے۔ وہ ان لٹیروں غاصبوں اور ڈاکوؤں سے تنگ ہیں۔ قوم یہ چاہتی ہے کہ حیران خان وزیر اعظم بن جائے تاکہ وہ شیروانی جو میں نے انکل نسیم انور بیگ مرحوم کے گھر 1997 میں جنرل حمید گل مرحوم کے نرم انقلاب کی نوید کے بعد سلوائی تھی، وہ پہنی جا سکے۔ اگر یہ تبدیلی نہ آئی تو میں بتادوں کہ دما دم مست قلندر ہوگا، گولی اندر اور چوہا جلندھر ہوگا۔

جامد: آپ کے پاس کیا پروگرام ہے کہ آپ وزیراعظم بن کر پاکستان کی کیسے خدمت کریں گے کیونکہ ابھی تک تو بات ٹرانسفارمر، نلکوں اور نکاحوں، اوہ میرا مطلب ہے کہ ٹربائینوں سے آگے نہیں بڑھی؟

حیران: دیکھیں میں سب سمجھتا ہوں۔ میرے پاس اک خوفناک، اوہ یعنی، حیران ناک پلان ہے….

جامد: خان صاحب، یہ حیران کن ہوتا ہے، حیران ناک نہیں۔

حیران: آپ کا حیران کن ہوتا ہوگا، میرا حیران ناک ہی ہوتا ہے، کیونکہ آپ کا کپتان کبھی جھوٹ نہیں بولتا، اور میں حیران ہوتا ہوں کہ اگر کبھی بول بھی دوں تو ناک نہیں بڑھتی۔ تو آپ مجھے بتائیں، یہ حیران کن ہوا، یا حیران ناک؟

جامد (ہنستے ہوئے): جی جی، خان صاحب، آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ یہ حیران ناک ہی ہے۔

حیران: تو میں کہہ رہا تھا کہ میرا پلان یہ ہے کہ میں نے پینتی پینچروں کی ٹیپ نکلوانی ہے اور اس کے بعد، ایمپائیر کی سوئی ہوئی انگلی کو بھی جگانا ہے۔ اور پھر اس انگلی سے ربڑ باندھ کر میں نے تاک تاک کر بنٹوں (کینچے) کے نشانے لگانے ہیں تاکہ میٹرو کے آس پاس زلزلہ آ جائے، کیونکہ میٹرو کا کیا فائدہ؟ یہ تو زلزلے میں گر جاتی ہے، تو جیسے ہی ان بنٹوں سے زلزلہ آئے، میں فوراً بنٹے مارنا بند کروں، اور میٹرو میں بیٹھے تمام پٹواری لیگ کے تمام پٹواریوں سے کہوں کہ اور بیٹھو اس لال جنگلہ بس میں اور کرو اپنی شلواریں گیلی۔ حالانکہ تمھیں چاہیے کہ تم شرٹ اتار کر دوڑ لگاتے ہوئے اپنے اپنے کاموں پر جاﺅ، اور وہ المشہور فہیم الحق ویڈیو والے سے ویڈیوز بھی بنواو۔ تاکہ اس کا کام بھی چلے اور تمہاری مشہوری بھی ہو۔ یہ شرٹ کے بغیر والی دوڑ کی ویڈیو ہی تھی کہ جس کی وجہ سے میں وزیراعظم کا امیدوار ہوں۔

جامد : یہ تو آپ نے بہت بڑا انکشاف کر دیا۔ مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ فہیم الحق المشہور ویڈیو والے ہیں۔

حیران: جامد، یہ دیکھیں، میں لکھ کر دیتا ہوں کہ وہ ہی المشہور ویڈیو والے ہیں۔ ٹیکسٹ میسجز بھیجنا تو ان کی جانب کا سائیڈ پروگرام ہوتا ہے۔

جامد: حیران صاحب، آپ کا بہت شکریہ کہ آپ ہمارے پروگرام میں تشریف لائے۔ اب تبدیلی آ کر رہے گی۔ تو ناظرین، آپ نے حیران خان صاحب کی بہت اہم اور تاریخی گفتگو سنی۔ اب یہ آپ پر لازم ہے کہ آپ پاکستان میں وہ تبدیلی لائیں کہ سب کہہ اٹھیں: میرا دل، میری جان، حیران خان حیران خان۔ پاکستان زندہ باد۔

(کلوزنگ میوزک بجتا ہے، اور پروگرام کے بعد، جامد میر اور حیران خان کی نجی گفتگو کا اک حصہ ٹیپ ہو جاتا ہے)

حیران: یار جامد، وہ سوال جو پروگرام کے بالکل شروع میں آپ نے کہا تھا کہ نہایت اہم مسئلہ پر بات چیت کرنا ہے، وہ مسئلہ کیا تھا؟

جامد: چھڈ یار حیران، انج ای اے۔ ہتھ آوے۔

دونوں: ہا ہا ہا ہا….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).