ہم سب کے شکرگزار ہیں!


\"jamilہمیں بات بات پر کہا جاتا ہے کہ خدا کا شکر ادا کرو، اب تو’خدا‘کہنا بھی معیوب قرار دے دیا گیا ہے، اور ’اللہ‘ کہنے پر زور دیا جاتا ہے، بلکہ اللہ کہتے ہوئے بھی ایسا لہجہ اختیار کرنے کی عملی تاکید کی جاتی ہے جو ہمارے خطے کے لیے ہزاروں سال بعد بھی اجنبی ہی رہے گا۔
ایک باریش شخص جنہوں نے خود کو متقی پرہیزگار ظاہر کرنے کے لیے خاص طرز کا حلیہ اختیار کر رکھا تھا، ان کا ایک دوسرے صاحب نے شکریہ ادا کیا تو وہ ان کے گلے ہی پڑ گئے کہ شکریہ یا ’تھینک یو‘ کہنا درست نہیں، اس کے بجائے جزاک اللہ کہنا چاہیے، اس طرح ثواب بھی ملتا ہے۔
خود ان متقی صاحب کے حلیہ مبارک سے ان کے جمع کردہ ثواب کے ذخیرے کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ یاد رہے کہ یہ حلیہ اختیار کرنا نہایت آسان ہے، صرف بڑے بھائی کا کرتہ اور چھوٹے بھائی کی شلوار زیب تن کرنے سے ہمارے ملک میں، الحمدللہ، متقی کا درجہ مل جاتا ہے۔
بہرکیف ہم اپنی فکر کے مطابق اس معاملے میں بھی کچھ مختلف سوچ رکھتے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ ہمیں خدا کا شکر ادا کرنے کے بجائے خدا کے بندوں کا شکریہ ادا کرنے کی زیادہ ضرورت ہے جو ہماری زندگی میں مختلف رنگ بھرتے ہیں اور ہماری زندگی کو آسان بناتے ہیں، جن کی وجہ سے ہماری زندگی میں رونق ہے اور سچ پوچھیے تو جن کی وجہ سے ہم زندہ ہیں۔
قرآن پاک میں خدا کی جو صفات بیان کی گئی ہیں، ان کے مطابق تو وہ بے نیاز ہے!
لیکن جس خدا کا تعارف مذہبی اجارہ دار پیش کرتے ہیں، اور جو بات بات پر اپنے حقیر پرتقصیر بندوں کی زبانوں سے شکر کے الفاظ کی ادائیگی سے خوش ہوتا ہے، اس میں کوتاہی پر برہم ہوکر جلال میں آجاتا ہے اور ہماری ان سطحی باتوں اور اعمال کی احتیاج بھی رکھتا ہے تو پھر وہ قرآن میں بیان کردہ مذکورہ صفات پر تو پورا نہیں اترتا۔
ہم خدا کے بندے ہیں اور احتیاج رکھتے ہیں، ہمیں اپنے جیسے انسانوں کی مدد کی ہر لمحہ مدد ضرورت پڑتی ہے، جو گھریلو اور معاشی زندگی میں ہمارے کام آتے ہیں۔ لیکن ہم ان کا شکریہ ادا نہیں کرتے، اگر ہم ان کی اہمیت کو سمجھ لیں تو پھر ہمیشہ ان کے شکرگزار رہیں گے۔
مثال کے طور پر آپ کے گھروں سے کچرا اٹھانے والا فرد اگر چھٹی کرلے، کئی دن تک نہ آئے تو پھر آپ سوچیے کہ آپ کے گھروں کے کچرے دان سے ناصرف کچرہ ابل کر اطراف میں پھیل رہا ہوگا، بلکہ بدبو کے بھبکے پورے گھر کو تعفن زدہ کردیں گے۔ جسے ہم ’کچرے والا‘ کہتے ہیں، درحقیقت صفائی والا ہے، جو ہمارا کچرا زیادہ سے زیادہ 100 یا 200 روپے ماہوار پر ا±ٹھاتا ہے، غور کریں تو ہمارا محسن ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ایک مہینے کے صرف 100 روپے دینے میں بھی بہت سے لوگوں جان نکلتی ہے اور اکثر جگہ کچرا ا±ٹھانے والے تقاضے کر کر کے تھک جاتے ہیں تو مہینے کی دس سے پندرہ تاریخ کو جاکر یہ 100 روپے انہیں یوں ادا کیے جاتے ہیں، جیسے خیرات دے رہے ہوں۔
شاید آپ اس سوچ میں ہوں گے کہ اب ہم کہیں گے کہ آپ کچرا ا±ٹھانے والوں کا شکریہ ادا کیجیے، جی ہاں ہم یہی تو کہنے جارہے تھے، لیکن زبانی شکریہ ادا کرنا بھی بے روح عبادتوں کی مانند سطحی اور کھوکھلا ہوتا ہے، چنانچہ ہمارے خیال میں کسی فرد کا شکریہ ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کا پورا حق بروقت ادا کردیا جائے۔ لہٰذا کچرا ا±ٹھانے والے ہوں یا کسی بھی صورت میں آپ کی خدمت کرنے والے افراد میں پھیری لگانے والے ہوں، مکینیک، پرچون فروش، ٹیلرز، ڈرائیورز، مزدور، مستری، ڈاکیہ، استاد، شاگرد، پڑوسی، ہم جماعت، گھریلو ملازم اور آپ کے چھوٹے یا بڑے اداروں کے کسی بھی سطح یا عہدے پر کام کرنے والے کل یا جزوقتی ملازم ہوں، ان کا پورا حق بروقت ادا کردیا کیجیے، اس کے لیے ہم سب بھی آپ کے تہ دل سے شکرگزار ہوں گے۔
دراصل ہمارے ہاں جب سے خدا کا شکر ادا کرنے کا چلن بڑھ گیا ہے، اس وقت سے انسانوں کی مصیبتوں میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ کسی ملٹی نیشنل فرم کا ڈائریکٹر ہو سے لے کر ایک عام گھریلو خاتون، سب کی گویا عادت بن گئی ہے کہ وہ خیرات تو حق سمجھ کر ادا کرتے ہیں، جبکہ حق کی ادائیگی یوں کرتے ہیں جیسے کہ بھیک دے رہے ہوں۔ اس رویے کے پس پردہ وہی سوچ کام کررہی ہے، اور یہ خیال خام کہ خدا کا شکر رسمی عبادات اور ورد و وظائف یا پھر بھیک دے کر ہی ادا کیا جا سکتا ہے، اب اس قدر عام ہوچکا ہے کہ اس کی مخالفت کرنا بھی اوکھلی میں سر دینے کے مترادف ہوگیا ہے، اس رویے کو فروغ دینے میں مذہبی ٹھیکے داروں کا ہاتھ ہے، اس لیے کہ ان کی گزر بسر کا انحصار بھیک اور رسمی عبادات پر ہے۔
یہاں بھیک کا لفظ استعمال ہونے پر آپ جزبز نہ ہوں، اقبال کہہ گئے ہیں کہ:
مانگنے والا گدا ہے صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے میر و س±لطاں سب گدا
اور ہم سب جانتے ہی ہیں کہ گدائی کی صف میں مذہبی اجارہ دار ہمیشہ سے آگے آگے ہی نظر آتے ہیں، جن کا اقبال نے اپنی اس نظم میں نجانے کیوں ذکر نہیں کیا۔
آج صورتحال یہ ہے کہ مالدار اور صاحبِ اختیار افراد بھی حقدار کو اس کا حق ادا کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتے ہیں، دوسری جانب یہی لوگ ہیں کہ مختلف بہانوں سے مذہبی اجارہ داروں کے پیٹ بھرتے رہتے ہیں، یہ رویہ اس قدر عام ہے اور معاشرے کے تمام طبقے میں گہرائی تک سرائیت کرگیا ہے کہ عام گھریلو خواتین بھی گلی گلی آواز لگا کرپھیری والوں سے دو دو روپے کم کروانے کے لیے بحث کرتی ہیں جب کہ بھکاریوں کو دس دس روپے پکڑا دیتی ہیں۔
کراچی کے جوڑیا بازار میں ہم نے خود یہ بات نوٹ کی ہے کہ روزانہ لاکھوں کا کاروبار کرنے والے سیٹھ اپنے ملازمین کو بارہ پندرہ ہزار ماہانہ تنخواہ دیتے ہیں، حالانکہ ان کے ملازمین بارہ بارہ گھنٹے مشقت کرتے ہیں، نہ تو انہیں عید بقرعید پر کچھ دیا جاتا ہے اور نہ ہی بیمار ہونے کی صورت میں انہیں علاج معالجے کے لیے کچھ رقم دی جاتی ہے، بوڑھے ہونے پر انہیں نہ تو پنشن کی سہولت ملتی ہے، نہ کچھ اور…. بس کھانستے کھانستے ایک دن فوت ہوجانا ان کا مقدر ہوتا ہے۔
لیکن یہی سیٹھ ہر آنے والے بھکاری کو دس بیس روپے ضرور پکڑاتے ہیں، علاوہ ازیں مسجد کی تعمیر، مذہبی تقاریب اور مذہبی ٹھیکے داروں کے لیے ان کی تجوریوں کے منہ کھل جاتے ہیں، ان کے عمل کے پس پردہ نیت یہ ہوتی ہے کہ وہ خدا کے منظور نظر بننا چاہتے ہیں۔
ہم نے بچپن میں جیمز ہنری لی ہنٹ کی ایک نظم پڑھی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک بزرگ ابو بن ادھم نے اپنے کمرے میں ایک فرشتہ دیکھا جو ایک سنہری کتاب پر کچھ لکھ رہا تھا۔ ان کے استفسار پر فرشتے نے بتایا کہ یہ ایسے انسانوں کی فہرست ہے جو خدا سے محبت کرتے ہیں۔ ابو بن ادھم کا نام اس فہرست میں نہیں تھا۔ انہوں نے فرشتے سے درخواست کی کہ ا±ن کا نام اس فہرست میں لکھ لیا جائے جو خدا کی مخلوق سے محبت کرتے ہیں۔ دوسرے دن فرشتے نے بتایا کہ اس کا نام مخلوق کے ساتھ محبت کرنے کی وجہ سے ان کا نام اللہ کے ساتھ محبت کرنے والوں کی فہرست میں سب سے اوپر درج کردیا گیا ہے۔
اس کہانی سے بچوں کے ذہنوں میں یہ نکتہ راسخ کرنا مقصود تھا کہ وہ اپنی سوچ کو خدا کے بندوں کی محبت پر استوار کریں تاکہ معاشرہ شعوری، اخلاقی اور معاشی طور پر ترقی کرسکے۔
لیکن جب ہماری زندگی بچپن سے لڑکپن کی جانب گامزن تھی، تو اس دور میں ایک سیاہ آندھی چلی، اور تاریکیوں کے پجاریوں نے فکر کے پیٹرن کو تبدیل کرکے رکھ دیا، اب ہمارے ملک کی اکثریت اس آندھی سے متاثر ہوکر خدا کی محبت میں ایسی اندھی ہوگئی ہے کہ خدا کے بندوں کے لیے زندگی کو عذاب بنادیا گیا ہے، خدا کی محبت میں اس کے بندوں کی جان لینا خدا کی رضا کا حصول سمجھا جاتا ہے۔
ہم ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے قدم قدم پر مشکلات پیدا کرتے ہیں اور ہمیں کوئی شرمندگی بھی نہیں ہوتی، نہ ہمارا ضمیر ہمیں ملامت کرتا ہے کہ آخر ضمیر بھی کوئی خدائی صفت یا خدائی ہرکارہ تو ہے نہیں کہ ہمیں بدی کے راستے پر چلنے سے روکنے کے لیے متعین کیا گیا ہو، ضمیر درحقیقت ہمارا شعور ہے، جس کی تشکیل ہمارے معاشرے کی فکری بنیادوں پر ہی ہوتی ہے، اور ہمارا معاشرہ خدا کا شکر ادا کرنے میں پیش پیش اور خدا کے بندوں کو ذلیل و خوار کرنے میں آگے آگے دکھائی دیتا ہے۔ ہمیں اس پستی سے باہر نکلنے کے لیے معاشرتی بہاو¿ کے مخالف چلتے ہوئے بات بات پر ہر ایک کا دل کی گہرائیوں کے ساتھ شکریہ ادا کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔
آخر میں ہم، ’ہم سب‘ کے بھی شکرگزار ہیں کہ وہ ہم سب کی آواز بن کر ابھرا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments