دیکھتے ہیں ہمارا اصل چہرہ



ہمارا درحقیقت حال کیا ہے؟ بحیثیت مجموعی ہمارا اصل چہرہ کیا ہے؟ ہمارے لوگوں کو سرٹیفیکیٹ بانٹنے کا بہت شوق ہے۔ ایمان، پارسائی اور دیانت داری کی سندیں وقت، موقع اور تعلق کی نزاکت کے حساب سے دھڑا دھڑ بانٹی جاتیں ہیں۔ کچھ سوال ایسے ہی ذہن میں آئے۔ نہ جانے کیوں آجاتے ہیں۔ بتایا بھی تھا ذہن کو کہ یہاں سوال اٹھانا ’’گستاخی‘‘ ہے مارا جائے گا مگر مانتا ہی نہیں۔

درحقیقت گندا کون ہوتا ہے؟ طوائف یا اس کے پاس آنے والے؟ ہم نے کبھی اصل غلاظت کا تعین کیا ہی نہیں۔ اصل میں شر پھیلانے والا کون ہے؟ قتل کرنے والا یا اسے اکسا کر اسکے ہاتھ میں ہتھیار تھما کر خود مسند پہ بیٹھ کر فساد کو ہوا دینے والا؟ اصل گنہگار کون ہے؟ وہ جو کچرے میں گرا روتا رہا، وہ جس نے حرام کر کے کچرے میں ڈالا یا وہ بے حس معاشرہ جس نے حرامی کہہ کر کتے کے منہ سے بھی نہ چھینا۔ اصل گدھ کون ہیں؟ وہ جو مردہ کر کے اس کے نام پہ کھاتے ہیں یا وہ جو زندہ سے زندگی چھین کر روز اسے مارتے ہیں، پھر زندہ کرتے ہیں، پھر مارتے ہیں اور جب لاش بن جائے تو پوچھتے ہیں “اینوں کنے ماریا ای؟”

اکیسویں صدی ہے۔ کہتے ہیں کہ ساتویں صدی سے قبل لوگ ظالم تھے۔ جہالت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ یہ اکیسویں صدی ہے اس لئے ظلم بھی بڑھ گیا اور ظلم کا انداز بھی بدل گیا ساتھ ہی جہالت کے اندھیرے بھی مزید گہرے ہو گئے۔ ایک شہر میں ایک ہی دن میں 250 سے زائد لوگوں کو فیکٹری میں تالہ لگا کر جلا دیا جاتا ہے۔ کئی سال گزر جاتے ہیں کسی کو سزا نہیں ہوتی۔ ایک شہر میں لڑکیوں کے تالی بجانے پر ان سے زندہ رہنے کا حق چھین کر مٹی تلے دبا دیا جاتا ہے۔ ایک شہر میں کئی سو بچوں سے منظم طریقے سے جنسی کاروبار کروایا جاتا ہے اور کسی غیرتمند کو کانوں کان نہ خبر ہوتی ہے نہ اتنی غیرت آتی ہے کہ ملزم سے جان چھڑائیں اور ہیرو بن جائیں۔ کوئی مجاہد خود کو اڑانا گوارا نہیں کرتا، کوئی محب وطن مدد کو آگے نہیں آتا۔ سب اپنی بے حسی کو بے بسی کا نام دیتے وقت کو دھکا لگاتے ہیں۔ ایک مشال ہوتا ہے جسے مجمع آواز لگنے پر مار دیتا ہے اور ایک طرف اسی مجمعے میں شامل ہر بندہ کہیں نہ کہیں سود، رشوت، جھوٹ، حرام میں گردن تک دھنسا ہوتا ہے مگر اپنے اعمال کی کسے خبر۔ آج روتے ہیں کہ 1400 سال قبل بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی دفنا دیتے تھے۔ میرے ذہن سے وہ بچی نہیں جاتی جسے ہوس کا نشانہ بنا کر بھی درندگی کو آسرا نہ ہوا تو اس کے گلے اور کلائیوں کی نسیں کاٹ کر اسے موت کا انتظار کرنے چھوڑ دیا۔ بچ وہ پھر بھی گئی۔ جانے کیا کرے گی زندگی بھر۔ زندہ دفنانے والی اذیت اس کے لئے سستا سودا تھی شاید۔ مگر یہ اکیسویں صدی ہے یہاں ابو جہل نہیں۔ ابن جہل ہیں چاروں طرف۔ مزے میں ہوس اور ہوس میں مزہ ڈھونڈتے ہیں۔

ایک طرف تو جہالت اور کم علمی کا یہ حال ہے کہ ان کے سامنے رومی کہیں تو روم سے آیا کوئی کافر سمجھتے ہیں جو رقص و سرور کا پرچار کرتا تھا اور خلیل جبران کہیں تو اسے مومن مان کر اپنے بچوں کے نام بھی خلیل جبران رکھ دیتے ہیں۔ درحقیقت رومی کا پورا نام مولانا جلال الدین رومی تھا اور وہ ان عظیم ہستیوں میں سے تھے جنہوں نے مولانا لفظ کو اعزاز اور اختیار سمجھ کر خود کو دوسروں کی زندگی اور ایمان کے فیصلے کرنے کے بجائے مولانا سے استاد تک کا سفر طے کیا اور ڈر کی بجائے محبت کی تبلیغ شروع کی۔ خدا سے ڈرانے کی بجائے الرحم الراحمین بتا کر لوگوں کو اس کے قریب کیا۔ مگر عظیم ہے وہ سوچ جو رومی اور خلیل جبران کو ان کے نام کے حساب سے مذہب کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے۔ خلیل جبران ایک عیسائی، لبنانی نژاد امریکی شاعر اور رومی ترکی سے تعلق رکھنے والے اسلامی مبلغ تھے۔ رومی نے اس وقت میں دین کو محبت اور رحم کے ذریعے پھیلایا جب بغداد کے مکتبوں میں عذاب آیا پڑا تھا۔

اس سے یہ سبق حاصل ہوا کہ اگر آپ کے نام سے ایمان کا (عربی) نور نہیں پھوٹ رہا تو آپ دین کا ٹھیکہ نہیں لے سکتے۔ خیر یہ بھی ایک سعادت ہوئی۔
یہ سب کسی اور دنیا کی باتیں نہیں بلکہ اپنی حالت زار ہے۔ یہ سب وہ کرتوت ہیں جنہیں چھپانے کے لئے بڑی محنت کی جاتی ہے۔ جتنا گند ہو سکے چھپا دیا جاتا ہے۔ جب بو آنے لگتی ہے تو انجان بن کر پوچھا جاتا ہے یہ بدبو کہاں سے آرہی ہے؟ جو بتانے کی ہمت کرے اس پر بدنامی، غداری اور گستاخی کے ٹیگ لگائے جاتے ہیں۔ جو اشارہ کریں انہیں کہا جاتا ہے یہ قومی و ملی چہرے پہ کالک مل رہے ہیں۔ جو منبر یا ٹی وی اسٹوڈیو میں بیٹھ کر مذہبی منافرت یا لسانی نفرت پھیلائیں وہ قوم کے ہیرو کہلاتے ہیں۔ اصل سرمایہ وہ کہلاتے ہیں جو سندھ کو “باب الاسلام” تو پڑھا دیتے ہیں مگر غدار اور دشمن وہ ہیں جو اس سندھ میں پانی، بجلی، تعلیم تو چھوڑیے بھوک سے مرتے بچوں کا ذکر کرتے ہیں۔ سندھ میں آج بچے اس لئے مر رہیں ہیں شاید کیونکہ آج وہاں وہ عورتیں نہیں جنکے بلاوے پہ عربی شہزادے گھوڑے دوڑاتے انہیں جبر و بھوک سے نجات دلائیں۔ آج کل تو خیر عربی شہزادوں کے خط بھی جعلی ہوا کرتے ہیں۔

آئیے ہم اور آپ اپنا اصل دیکھیں۔ آج کل ایک مصالحے کا اشتہار ثابت کرتا ہے کہ آپ افریقی ہوں، انگریز ہوں یا چائینیز۔۔۔ آپ پڑوسی ہوں، رشتہ دار ہوں یا اجنبی، آپ کافر ہوں، مرتد ہوں یا مومن۔۔۔۔ یہ قوم ایک پلیٹ بریانی کی مار ہے۔ اسے آپ کے مذہب، فرقے، پیشے، صلاحیت، الفاظ اور ارادے اس وقت تک برداشت ہوتے رہیں گے جب تک آپ ان کے منہ میں بریانی ڈال کر ان کا منہ بند کرواتے رہیں۔ جیسے ہی بریانی نہ ملی وہ وہ زہر اگلیں گے کہ اللہ کی پناہ۔ اس لئے گرہ باندھ لیں کہ اگر اپنا کام سکون سے کرتے رہنا چاہتے ہیں تو بریانی فارمولا آزمائیں تاکہ آپ کی شکل دیکھ کر دروازہ بند کر کے کھڑکی سے پتھراؤ کرنے والے بھی کہیں: پتر! آندے ریا کر۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).