تہران کی زیر زمین ثقافت


  

کمرے میں موسیقی کا آہنگ بلند سے بلند تر ہو رہا ہے۔بھاری میک اپ، خوشنما تراشیدہ زلفوں اور نہایت مختصر منی اسکرٹس میں ملبوس لڑکیاں نوجوان مردوں کے ساتھ محوِ رقص ہیں۔ ارد گرد کی میزوں پر مقامی طور پر بنائی گئی نہایت مقبول شراب کے گلاس نظر آ رہے ہیں۔ دیوار پروں پر کچھ ایسی ہیجان انگیز تصاویر بھی آویزاں ہیں جو باہر سڑکوں اور گلیوں پر منڈلاتی اخلاقی پولیس کے ایمان کو امتحان میں ڈال سکتی ہیں۔اگر یہ منظر یورپ میں نظر آتا تو اسے معمول سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا۔ مگر یہ پارٹی تہران کے مرکز ی علاقے میں منعقد ہو رہی ہے، تہران جو اسلامی جمہوریہ ایران کا دارالحکومت ہے اور جہاں کی بنیاد پرست حکومت اپنی سخت گیر ی کے لئے بدنام ہے۔ ایران کی حکومت سرکاری طور پر ان افعال کو بھیانک، شیطانی اور مجرمانہ قرار دیتی ہے۔

یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ ایران اور مشرق وسطیٰ کے ایک بڑے حصے میں اکثریت کے عقائد اور روئیے سے متضاد سوچ کی حامل ثقافت بھی پروان چڑھ رہی ہے۔ جدید دور کے نوجوان، اپنی زندگیاں اپنی سوچ کے مطابق گزار رہے ہیں۔۔۔ خواہ زیر زمین اور خفیہ طور ہی پر سہی۔ سو اس کمرے میں ہونے والی محفل میں کوئی نئی بات نہیں۔ یہ ملک سیاحوں سے بھرا ہوا ہے۔

چھٹیوں میں تفریح اور سیاحت کے لئے ایران جاناخاصا مہنگا ہو سکتا ہے۔ لیکن دلیر اور کم آمدن والے بین الاقوامی آزاد پنچھیوں کیلئے ایک متبادل راستہ موجود ہے کہ وہ عارضی طور پر دوسروں کے گھروں میں قیام کریں، بالکل اسی طرح جیسے اکثر غریب اوربے گھر افراد کرتے ہیں۔ہر چند کہ یہ بندوبست زیادہ پرتکلف نہیں ہو گا لیکن ایسے میزبان اور مہمان اکثر مل جاتے ہیں، کوئی رہائشی مکان حاصل کرتے ہیں اور پھر اکٹھے گھومتے پھرتے ہیں۔ ایران میں سیاحت کے قوانین مشکل ہیں لیکن ایرانیوں کو دوسرے ممالک سے آنے والے مہمانوں کو اپنے پاس رکھنے کی اجازت ہے۔ اگرچہ حکومت ایسے لوگوں کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کرتی لیکن اس کے باوجود یہ رواج زوروشور سے جاری ہے۔یہ کہنا تومشکل ہے کہ کتنے ایرانی سیاحوں کوعارضی طور پر اپنے گھروں میں قیام کرنے کی اجازت دیتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کو رجسٹر کرنے اور سیاحوں کا ان سے رابطہ کروانے والی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ اب تک پچاس ہزار ایرانی شہری اس کے رکن بن چکے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے صدر حسن روحانی کی حکومت احمدی نژاد کے مقابلے میں زیادہ معتدل ہے۔ ہرچند کہ ملک میں فیس بک پر پابندی ہے لیکن انٹر نیٹ بہت سے متبادل موجود ہیں اور صدر روحانی خود بھی ٹویٹر پر موجود ہیں۔شمالی کیرولینا یونیورسٹی کے پروفیسر اروند ملہوتراکہتے ہیں، ’ ’بلاشبہ سیاحوں کو ایران اور چین جیسے روایتی طور پر بند ممالک میں بھیجنے والی کمپنیوں کیلئے خطرہ موجود ہے جو لیکن اس کے ساتھ ساتھ ’بڑے منافع ‘ کا امکان بھی موجود ہے‘‘۔

اروند ملہوترا مزید کہتے ہیں کہ ’’اگر اس کمپنی نے اخلاقی پولیس کو اشتعال دلا دیا تو یہ سب موج مستی بند ہو جائے گی۔ معاملہ نظر میں آ گیا تو لوگ ایران میں عارضی رہائش کا ذکر کرنا بھی بھول جائیں گے۔‘‘ ایرانی امور کے ایک ماہر کا خیال ہے ایران میں ایسے سیاحوں کے اغوأ کا امکان بھی موجود ہے۔۔‘‘ اکثر ٹورسٹ کمپنیاں ابھی تک مسافروں سے یہی کہتی ہیں کہ وہ ایران سے دور رہیں۔ ایران کے سیاحتی دورے کروانے والی ایک ٹریول ایجنسی کی چیف ایگزیکٹو کہتی ہیں، ’میں وہاں کے قوانین پر عملدرآمد نہیں کرا سکوں گی۔‘‘ ایران میں مختلف لوگوں کے گھروں میں عبوری قیام کرنے والی سفرنامہ نگار مے کہتی ہیں، ’’خواتین یا ہم جنس پرستوں کی مشکلات کا تو ذکر ہی کیا، کچھ مرد میزبان خواتین مہمانوں سے ’دیگر توقعات‘ بھی وابستہ کر لیتے ہیں۔۔ اور ایسا، بلاشبہ کہیں بھی ہو سکتا ہے۔یہ کوئی راز نہیں کہ ایران میں سیاحتی کمپنیاں عورتوں مردوں کی خفیہ ملاقاتوں اور دیگر پرکشش معاملات کیلئے استعمال ہوتی رہی ہے۔‘‘

تو آئیے آپ کو اسی پارٹی میں لے چلتے ہیں جہاں سے بات شروع ہوئی تھی۔

’’اپنے میزبان کی دو خواتین دوستوں، لیان اور یارا کو لے کر ہم ایک پارٹی میں چلے گئے جو ان دونوں کے گھر پر ہو رہی تھی۔ دونوں خواتین ایران میں لازم کردہ اسکارف اوڑھتی ہیں۔ تاہم ان کا اسے اوڑھنے کا انداز ایسا ہوتا ہے جیسے کہ وہ اسے ایک فیشن کے طور پر اوڑھ رہی ہیں نہ کہ پولیس کے منظور کر دہ یونیفارم کے طور پر۔ وہ اسے ڈھیلے ڈھالے انداز میں اپنے سروں پر رکھے رکھتی ہیں اور ان کے سر کے بال باہر جھانک رہے ہوتے ہیں۔ میرے میزبان نے بتایا کہ وہ مجھ جیسے جرمن سیاحوں سے مل کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ وہ فٹ بال کھلاڑی بائرن کے بہت بڑے مداح ہیں۔‘‘

ایران کے اپنے شہریوں کے لئے بیرون ملک سفر کرنا آسان نہیں۔مردوں کو پاسپورٹ لینے سے قبل فوجی ملازمت مکمل کرنا پڑتی ہے۔خواتین کو شوہر یا والد کی اجازت کے بغیر ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں۔جس کا مطلب ہے کہ بیشتر ایرانیوں کیلئے اپنے ہی ملک میں غیر ملکیوں سے ملنا کہیں زیادہ آسان ہے۔ اگر وہ سفر کرنا بھی چاہیں یورپ کا سفر کرنے کی مالی سکت نہیں ہوتی۔ میرے میز بان نے بتایا کہ یورپی سیاحوں کے ساتھ وقت گزارنے سے ’یورپ کا ایک ہلکا سا احساس مل جاتا ہے‘۔ خیر، اس پارٹی کا انداز مکمل طور پر یورپی تھا ۔ وہاں روایتی ایران کی بنیادی جھلک ایک قالین تک نہیں تھا۔

سیاحوں کے لئے عارضی قیام کا بندوبست کرنے والی کمپنی تہران سے آگے شیراز تک اپنے قدم جما چکی ہے۔ شیراز کی آبادی پندرہ لاکھ ہے۔ یہ اپنے سبزہ زاروں کی وجہ سے مشہور ہے۔ اسے ایران کا باغ بھی کہتے ہیں۔یہی وہ جگہ ہے جہاں ہمیں پارٹی میں ملنے والی مرجان نامی خاتون عارضی قیام گاہوں کی متلاشی سیاح خواتین کو لے جانا ہے۔ مرجان ایک 23سالہ فنکارہ ہیں جو ممنوعہ ادب پڑھنا، ممنوعہ موسیقی سننااور باریک کپڑے پہننا پسند کرتی ہیں۔وہ ابھی تک اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہیں جو اسلامی روایات کے سخت پابند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عارضی قیام کے خواہش مندمرد سیاحوں کو تو رہائش فراہم نہیں کر پاتیں تاہم وقتاً فوقتاً انہیں خواتین سیاحوں کو اپنے پاس ٹھہرانے کی اجازت مل جاتی ہے۔ مرجان کا کمرہ پلنگ اور صوفے دونوں سے محروم ہے ۔مرجان اپنے پیسوں کو اپنے خفیہ پاسپورٹ اور اپنے سفر یورپ کے خوابوں کے ساتھ اپنے کمرے میں چھپا کر رکھتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).